مشہور شاعروں کا گمنام استاد: باباجمالؔ بہرائچی

ہمارے شہر بہرائچ میں ایک سے ایک استاذ شاعر ہوئے ہیں لیکن جو شہرت بابا جمالؔ بہرائچی کے حصہ  میں آئی وہ اپنا الگ منفرد مقام رکھتی ہے۔رزمی ؔ بہرائچی بابا جمال ؔ بہرائچی کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’استاد الشعراء محترم قبلہ جمال بہرائچیؔ کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں ہے جن کے فیضان علم و فن سے بہرائچ کے حلقئہ شعر سخن کی اکثریت مسفیض ہے اور شہر کا ہر ذوق سلیم رکھنے والا جن کی قادر الکلامی اور بلند فکری کا معترف ہے۔‘‘(خیابان جمال از رزمیؔ)

            ہندوستان کا سب سے اعلیٰ ادبی ایوارڈ ’’ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ‘‘ہے۔اسی ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ ضلع کے مشہور شاعر و ادیب عنبرؔ بہرائچی صاحب اپنی کتاب’’ روپ انوپ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میرا تخلص عنبر ؔ میرے استاد بابا جمالؔ بہرائچی صاحب نے رکھا تھا۔اس کے علاوہ مشہور شاعر جناب شاعرؔ جمالی مرحوم نے تو آپ کے نام جمال کو ہی اپنے نام کا جز بنا کر عالمی سطح پر جمالیؔ نام کو شہرت دلائی۔

آپ کے شاگرد رشید رزمی ؔ بہرائچی ’’خیابان جمال‘‘ میں آپ کے بارے میں لکھتے ہیں :

            سرزمین بہرائچ جسے ابدی آرام گاہ حضرت سید سالار مسعود غازیؒ ہونے کا شرف حاصل ہے ،ارباب علم و ادب سے نہ کبھی خالی رہی ہے ۔اسی خاک نے ہندی اور اردو کے کے ایسے ایسے کوی اور شاعر جنم دئیے جنہوں نے دونوں زبانوں کے ادب میں اپنا اپنا ایک خاص مرتبہ حاصل کیا ۔اسی شہر میں ایسی ایسی ہستیاں موجود ہیں(تھیں) جو بے چون چرا ملک کے صفِ اول کے شعراء میں امتیاز انہ خصوصیت کے مالک ہیں (تھے)جن میں سے حضرت استاد جمالؔ صاحب ؒ کی ذات گرامی ایسی فیض مال شخصیت ہے(تھے)جس پر ارباب فن جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔اور یہ میری اکیلی آواز نہیں ۔ملاحظہ ہو ایک طرحی مشاعرہ میں حضرت اظہارؔ وارثی صاحب (مرحوم)فرماتے ہیں                                        ؎

ایک بابا جمالؔ کے دم سے

جانے کتنوں کو شاعری آئی

حضرت بابا جمال ؔ کا پورا نام جمال الدین احمد  تھا۔آپ کی ولادت سن ۱۹۰۱ءمیں شہر بہرائچ کے محلہ بشیر گنج میں ہوئی تھی۔بابا جمال اپنے دور کے بہت مشہور خوش مزاج شاعر تھے۔آپ نے عربی فارسی کی تعلیم حکیم سید ولایت حسین وصلؔ نانوتوی تلمذ میر نفیسؔ ابن میرؔانیسؔ سے حاصل کی جو اپنے عہد کے عربی اور فارسی کے قادر الکلام شاعر تھے۔جمالؔ بہرائچی صاحب پورے شہر بہرائچی میں بابا جمالؔ کے نام سے مشہور و معروف تھے۔آج بھی لوگ آپ کو باباجمال کے نام سے ہی یاد کرتے ہیں ۔آپ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے عالم بھی تھے۔ آپ لوگوں کو نصیحت خوب کرتے تھے۔  

ڈاکٹر عبرتؔ بہرائچی صاحب اپنی کتاب ’’نقوشِ رفتگاں‘‘ میں صفحہ ۱۷ پر لکھتے ہیں :

            ’’بابا جمال ؔ کی دوستی مولانا محفوظ الرحمن نامیؒ (بانی جامعہ مسعودیہ نور العلوم ،آزاد انٹر کالج،سابق کورٹ ممبر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی)سے بہت زیادہ تھی۔حدائق البلاغت ان کے بغل میں دبی رہتی تھی۔زدگو ہونے کے ساتھ ساتھ قادر الکلام شاعر تھے۔آپ تکیہ کلام’’ بھیّا‘‘ تھا ۔آپ کی شہر کے قلب گھنٹہ گھر کے پاس کتابوں کی دکان(جمال بک ڈیپو) تھی ۔آپ کے اوپر ایک کہاوت ’’پڑھو فارسی بیچو تیل ‘‘ بالکل فٹ تھی۔آپ فارسی کے ماہر استاد تھے۔آپ نے ایک تیل بھی ایجاد کیا تھا جس کا نام جمال ہیئر آ ئیل تھا۔جو اپنے وقت میں خوب بکتاتھا ۔آمدنی کم اور خرچ زیادہ ہونے کی وجہ سے دکان کا دیوالہ نکل گیا ۔آپ کے بچے آپ کے کہنے میں نہیں تھے۔نتیجہ یہ ہوا کہ دکان کاکرایا ادانہ کرنے کی وجہ سے مالک دکان نے عدالت کے ذریعہ دکان سے بے دخل کرادیا جس کی وجہ سے بیحد پریشان رہتے تھے۔میں نے بیکل اتساہی ؔ کو خط لکھا اور  انہوں نے دوڑ دھوپ کر بابا جمالؔ کا ساٹھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کرادیا جو انہیں ہر ماہ ملتاتھا۔

            بابا جمال ؔ سے وابسطہ ایک مشہور واقعہ یہاں نقل کیا جاتا ہے جو میں نے کئی معتبر لوگوں سے سنا ہے جن میں انکے شاگرد بھی شامل ہیں جو اس جماعت میں موجود تھے۔ ’’ ایک مرتبہ بابا جمالؔ صاحب فیض الحسن مسجد قاضی پورہ میں نماز پڑھنے گئے ۔قاری فیروز عالم صاحب وہاں نماز پڑھا رہے تھے۔قاری صاحب نے  قرعت میں کچھ الفاظ زیادہ لمبے کھنچ دے تھے نماز ختم ہونے کے بعد بابا نے وہیں قاری صاحب سے کہاں کہ قرأت کرتے وقت اتنا مت کھنچوں کہ الفاظ کا معنیٰ ہی بدل جائے ۔

نعمتؔ بہرائچی اپنے استاد بابا جمالؔ صاحب کا ذکر اپنی کتاب ’’تذکرۂ شعرائے ضلع بہرائچ ‘‘ میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

             بابا جمالؔ صاحب نے اردو زبان کی بڑی خدمتیں کی ہیں ۔محلّے محلّے اردو کے  مدرسے قائم کئے تاکہ بڑھتی ہوئی نسل اردو سے آگاہ ہو سکے۔آپ ہر روز علی الصباح گھنٹہ گھر پارک جا کر بیٹھتے تھے،جہاں ان کے تلامذہ اصلاح لینے کیلئے جمع ہوتے تھے اور جمالؔبابا سب شاگروں کو بیش بہا مشوروں سے نوازتے تھے۔آپ علم و عروض سے آگاہ اور فن شعر گوئی سے بخوبی واقف تھے۔جس کے باعث آپ شعراء کی جھرمٹ میں رہا کرتے تھے۔ عبرت ؔصاحب لکھتے ہیں کہ بنجاروں کی طرح ان کا سب کچھ ان کے کاندھوں پہ رہتا تھا۔یہاں تک کی  سوئی تاگہ بھی جہاں چاہتے ہیں وہیں بیٹھ کر اپنا کرتا پاجامہ سی لیتے تھے۔باباجمالؔ کو سلسل بول کی بیماری بھی تھی،لہذاایک لوٹا بھی ہم سفر رہتا تھا۔پر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔تنک مزاج ضرور تھے۔پیدل چلنے کے عادی تھے۔باباجمالؔ کی ایک درسگاہ تھی جسے آپ کھلے آسمان کے نیچے گھنٹہ گھر میں ا شوک کے پیڑ کے نیچے لگاتے تھے،اور اپنے شاگروں کو عروض و بیان کی تعلیم دیتے تھے۔بابا جمال کے شاگروں کی تعداد بہت تھی،اس میں یہ نام نمایا ں حیثیت رکھتے ہیں:۔نعمت ؔ بہرائچی ،رزمیؔ بہرائچی،شاعرؔ جمالی،پارس ناتھ بھرمرؔ بہرائچی اور عنبر ؔ بہرائچی،جمیل احمد اخترؔ جمالی،آہؔ جمالی، ۔مشہور ومعروف شاعرجمالیؔ نے آپ کے نام جمالؔ سے نسبت جمالیؔ کو اردو ادب میں الگ مقام دلایا ۔

            عبرت صاحب مزید لکھتے ہیں کہ بابا کو میں نے ہمیشہ پریشان حال پایا ۔انھیں میں پوش نہیں پایا گھر کی طرف سے وہ بہت زیادہ متفکر رہتے تھے۔دوکان ختم ہونے کے بعد سخت مالی مشکلات سے دو چار رہے۔ان کے کسی بھی بچے نے سوائے نجمیؔ کے مصیبت میں ان کا ساتھ نہیں دیا۔بابا نجمی ؔ کو بہت چاہتے تھے کیوںکہ وہ بہت زیادہ سادہ لوح اور نیک طبیعت بابا کے غم میں برابر شریک رہتے تھے۔کبھی کبھار مسجدوں میں وعظ بھی فرماتے تھے۔میں نے بھی ان سے دو کتابیں گلستاں اور بوستاں پڑھی ہیں۔

مشہور شاعروں کا گمنام استاد: باباجمالؔ بہرائچی
عکس تحریر بابا جمالؔ بہرائچی

شوقؔ بہرائچی،شہرتؔ بہرائچی،وصفیؔ بہرائچی،حکیم اظہرؔ وارثی،رافتؔ بہرائچی،حاجی شفیع اللہ شفیع ؔبہرائچی ،ڈاکٹر نعیم اللہ خاں خیالیؔ،بابو لاڈلی پرساد حیرتؔ بہرائچی،خواجہ رئیس وغیرہ وغیرہ ان کے ہم عصر تھے۔

بابا جمالؔ اپنے عہد کے بہترین خیاط تھے۔بابا اتنے سیدھے تھے کہ وہ دوست ،دشمن کی تمیز نہیں کر پاتے تھے۔انھیں غزلوں پر اصلاح کرنے کا بیحد شوق تھا۔شاعر ہویا متشاعر جو بھی کہیں سے کوئی غزل لے کرآیا فوراً اس کی اصلاح فرمادیتے۔ ایک با ر کا واقعہ ہے ایک صاحب نے جگر ؔ مرادآبادی کی ایک مشہور غزل لے کر برائے اصلاح باباجمالؔ کے پاس لائے ،بابا جمال نے بغیر سمجھے بوجھے اس غزل کی مرمت کردی اور واپس کر دی ،یہ تھا آپ کے سیدھے پن کاحال۔

            بابا جمالؔ علوم ادبیہ پرماہرانہ قدرت رکھتے تھے۔عروض وبیان سے مل کر شعر کہتے تھے۔آپکے یہاں لفظوں کے ذخیرے تھے۔آپ کے یہاں قحط لفظی نہیں تھا۔اصول شعر پر دسترس رکھنے کہ وجہ سے کلام ہرزہسرائی سے پاک رہتا تھا۔بابا کے یہاں تجربات اور مشاہدات کا بھی فقدان نہیں ان کے یہاں قدامت پرستی پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور جدیدیت سے گریز ۔بابا صاحب اپنے ہر شعر کوکئی مرتبہ عروض وبیان کی کسوٹی پر کستے تھے۔

عبرت ؔ صاحب بابا جمال کے ادبی  اسکول کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں

            شام کے وقت بازار میں دو اسکول لگتے تھے، ایک اسکول گھنٹہ گھر میں اشوک کے پیڑ کے نیچے بابا جمال لگاتے تھے جس میں ان کے شاگرد شریک ہوتے تھے،دوسرا اسکول حاجی شفیع اللہ شفیعؔ بہرائچی(راقم کے پرنانا) کی دوکان پر لگتا تھا، جس میں اہل بصیرت اور ارباب سخن حصہ لیتے تھے اور علوم شعریہ پر بحث وتکرار ہوتی تھی ۔(جذباتِ شفیع ؔ  ازحاجی شفیع اللہ شفیع ؔ بہرائچی صفحہ  ۱۱  مطبوعہ ۲۰۱۹ء)

آپ’’ بزم جمال ادب بہرائچ‘ ‘ کے سرپرست تھے۔بزم جمال ادب بہرائچ سے کئی کتابچے نکلے جن میں سے نعتوں کا مجموعہ ’’گلہائے عقیدت‘‘ مرتب دیبی دیال سریواستو دیالؔ بہرائچی مطبوعہ اکلیل پریس ۱۹۷۳ءاور’’ خیابان جمال‘‘  راقم کے پاس محفوظ ہیں۔ باباجمالؔ کا انتقال ۱۹۸۲ءمیں ہوا ۔آپ کی تدفین چھڑے شاہ تکیہ نزد آزاد انٹر کالج بہرائچ میں ہوئی۔

             بابا جمال ؔ کے صاحبزادے مرحوم اور اپنے وقت کےممتازشاعر نجم الدین احمد نجمیؔ جمالی نے اپنی حیات میں اپنے والد بابا جمالؔ کے ادبی سرمائے کو  مرتب کرکےاس کو ’’صدائے وطن کے نام سےمحفوظ کیا تھا لیکن مالی تنگی کی وجہ سے اس کو شائع نہ کرا سکے ۔اللہ کے کرم سے اس نسخہ تک میری رسائی ہوئی اور اس کو محفوظ رکھنے جناب محمد الیاس صاحب اور انکے صاحبزادے جناب نوشاد صاحب سے حاصل کرکے اس کو ان کی اجازت سے  ازسر نو مرتب کیا ہے  جو  ان شاء اللہ عنقریب شائع ہوگا۔

غزل

یاد کرنا ہے الگ بیٹھ کر ویرانے میں
کتنی ہشیاریاں ہے آپ کے دیوانے میں
در بدر میری کہانی میں ہے چرچا ان کا
سر بہ سر دیکھئے افسانہ ہے افسانے میں
آہ کرنے نہ لگیں پیاس کے مارے میکش
آگ لگ جائے نہ ساقی تیرے میخانے میں
کیف بادہ مئے ہے سرمست شکستہ خاطر
موج میں ہے ’’اِسمی ٹوٹے‘‘ ہوئے پیمانے میں
کامیابی پہ خود اپنی ہے جنوں شاد اِدھر
وہ ہیں مصروف اُدھر بیڑیاں پہنانے میں
آنکھ کھلتے ہی  ہوئی بند یہ آئے وہ چلے
وقت اتنا سا لگا آنے میں اور جانے میں
دل  وحشی  ہے  میرا  میرا  جلوہ  گر  ناز  جمالؔ
حسن آباد نظر آتا ہے ویرانے میں



Juned

جنید احمد نور

بہرائچ ، اتر پردیش

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مقبول ذکی مقبولؔ ہِک مکمل شاعر

ہفتہ مارچ 26 , 2022
دنیا تے جتناں وی زباناں ٻولیاں ویندیاں پئین اُنھیں زبانیں دیوچ جیڑھا اعزاز سرائیکی زبان کوں حاصل ہے ، ٻیا کہیں زبان کوں کائٰینی
مقبول ذکی مقبولؔ ہِک مکمل شاعر

مزید دلچسپ تحریریں