ازدواجی کامیابی کا راز
کافی عرصہ پہلے ایک تحقیق نظر سے گزری تھی جس میں یہ نتائج اخذ کیئے گئے تھے کہ شادی شدہ جوڑوں کی خوشیاں اور عمریں غیر شادی شدہ افراد سے زیادہ ہوتی ہیں۔ یاد ہے کہ یہ رپورٹ کسی مغربی تحقیقاتی ادارے نے شائع کی تھی۔ اہل مغرب کے ہاں پاکستان اور دیگر مشرقی ممالک اور خلیجی مسلم ریاستوں وغیرہ کے مقابلے میں شادی کا رواج نسبتا بہت کم ہے۔ لھذا مغربی ممالک اور امریکہ کنیڈا، روس اور آسٹریلیا وغیرہ کے ملکوں میں 45% تک بچے لاولد پیدا ہوتے ہیں یا شادیاں ہوں بھی تو 70% سے زیادہ جوڑوں میں طلاقیں ہو جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ سنہ 2020ء کے دوران پرتگال میں طلاق کی شرح اتنی زیادہ تھی کہ ہر 100شادی شدہ جوڑوں میں سے 92جوڑوں میں طلاقیں رپورٹ ہوئیں۔ ان ممالک میں بسا اوقات تو ایسا دلچسپ واقعہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ کچھ جوڑے اپنی شادی بچوں کی پیدائش کے بعد رجسٹر کرواتے ہیں یعنی خیر سے ان کے بچے بھی اپنے والدین کی شادی میں شرکت کرتے ہیں۔
بے شک انسان کی بیالوجیکل عمر کا تعلق زیادہ تر اس کی بہترین جسمانی ساخت، وراثتی خواص، بیماریوں، حوادث، خوراک اور ورزش وغیرہ سے بھی ہوتا ہے مگر میرے خیال میں حقیقی خوشی اور لمبی عمر کا نسخہ کیمیا اطمینان قلب (Peace of Mind) ہے جو اس رپورٹ کے مطابق شادی شدہ افراد کو زیادہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ یونانی محاورہ تو آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ: “وہم کا کوئی علاج نہیں”۔ جو لوگ شادی کے بعد نئی زندگی شروع کرتے ہیں ان میں سے عقل مند جوڑے ایک دوسرے کی ماضی کی زندگی میں کبھی نہیں جھانکتے۔ وہ ایک دوسرے کو سمجھ جائیں اور ان میں ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو جائے تو ان میں احساس تحفظ بھی بڑھ جاتا ہے۔ خاص طور پر اولاد کی پیدائش کا تعلق چونکہ نسل کی بقا سے ہوتا ہے لھذا شادی شدہ جوڑے والدین بننے کے بعد خود کو زیادہ محفوظ تصور کرنے لگتے ہیں۔
اگر میاں بیوی میں مکمل ذہنی مطابقت و ہم آہنگی ہو تو وہ جسمانی اور روحانی دونوں طرح سے ایک سے گیارہ ہو جاتے ہیں۔ انگریزی کا ایک محاورہ روحانی کشش کی وضاحت یوں کرتا ہے: The Spiritual Connection Is The Strongest Bond In Love جس کا مطلب ہے کہ محبت میں روحانی رشتہ سب سے زیادہ مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔ عموما دیکھا گیا ہے کہ کامیاب شادی شدہ جوڑوں میں سچی محبت قائم ہو جاتی ہے جس کا آغاز ہی شادی کے بعد ہوتا ہے اور جس میں دوسرا کوئی مخل نہیں ہوتا کہ جس کی گواہی کی ضرورت پیش آئے۔
محبت کی نفسیات بھی ایک مکمل مکتبہ فکر ہے جس کا اکیلی زندگی (Single Life) میں کبھی حقیقی احساس و تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے. میں چند ایسے طلاق یافتہ دوستوں کو جانتا ہوں جو طلاق کے بعد پچھتاوے کے عارضہ میں مبتلا ہوئے ہیں۔ خاص طور پر اولاد ہو جانے کے بعد طلاق یافتہ ہونا نہ صرف ایک ناقابل تلافی عذاب ہے بلکہ اس سے بچوں میں بھی ذہنی تضاد اور احساس کمتری پیدا ہوتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیئے اکٹھے زندگی گزارنا ناممکن ہو جائے تو طلاق کی بجائے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہئے مگر طلاق نہیں دینی چاہئے۔ طلاق کی قباحتوں کی بنیاد پر ہی اسلام نے طلاق کو انتہائی ناپسندیدہ فعل قرار دیا ہے۔ شادی سے پہلے کی محبت ایک دھوکہ ہے جبکہ شادی کے بعد کی محبت ناگزیر ادب اور احساس ہے جو شادی شدہ جوڑے پوری زندگی سیکھتے رہتے ہیں جس سے محبت میں ارتقاء پیدا ہوتا ہے.
ایک مشہور انگریزی کہاوت ہے کہ: “پرانی بیوی، پرانے دوست، اور پرانے کتے کی وفا پر شک نہیں کیا جا سکتا”۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی بے وفائی میں کمی اور محبت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ کچھ سال پہلے امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور مغرب کی مختلف یونیورسٹیوں میں ایک دلچسپ امر پر تحقیق کی گئی جس سے یہ پتہ چلا کہ شادی شدہ جوڑے جو حقیقتا خوش ہوتے ہیں وہ سوشل میڈیا وغیرہ پر اپنی محبت کی نمائش نہیں کرتے ہیں، وہ اپنے بچوں کی تصاویر شیئر نہیں کرتے اور کبھی بھی اپنی محبت کا باہر کی دنیا میں ڈھنڈورا نہیں پیٹتے ہیں۔ اس کی بھی یہ وجہ ہے کہ وہ ایسا دکھاوا کرنے کی بجائے وہ اپنی شادی کو زیادہ انجوائے کرتے ہیں۔
اس کے برعکس جو شادی شدہ جوڑے اپنی محبت کی تشہیر کرتے ہیں وہ دراصل اپنی محبت کے جذبہ کا کیتھارسز کرتے ہیں جس سے حقیقی محبت میں کمی آ جاتی ہے۔ ایک اسلامی ارشاد بھی ہے جس کا مفہوم
ہے کہ اولاد اور دولت کو چھپانا چایئے۔ اسی طرح شیکسپیئر نے بھی کہا تھا، “Love and be quiet” محبت کا ایک دوسرے سے اظہار ضرور کرنا چایئے مگر اس میں تکلف اور بناوٹ نہیں ہونی چاہئے کیونکہ محبت ایسا جذبہ ہے جو دل میں پیدا ہوتا ہے اور عمل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ناکہ وہ زبان میں پیدا ہوتا ہے جس کا صرف لفظوں میں اظہار کیا جا سکے۔
ایسے شادی شدہ جوڑے جن کے ظاہر اور باطن میں فرق ہو اور جو تصاویر، وڈیوز اور مختلف معاملات کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں وہ دراصل ایک دوسرے کو اپنے آپ سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد عموما طلاق ہو جاتی ہے۔ اپنی محبت اور فیملی پر پوسٹ کرنا مسئلہ نہیں ہے مگر اس کے پیچھے چھپا شک ایک مستقل مسئلہ ہے. خوش بخت جوڑے وہ ہیں جو ایسی نمائش کی لمحاتی مسرت کی جگہ دائمی محبت کی تلاش میں رہتے ہیں جو ایسے کسی دکھاوے سے مکمل طور پر پاک ہوتی ہے۔سچی محبت بھی یہی ہے کہ اپنی محبت دنیا پر ثابت کرنے کی بجائے، ایک دوسرے پر عمل کی شکل میں ثابت کی جائے۔ “ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔” رازداری کی قدر کرو اور اپنی محبت کے فسانے کو اپنی ذات تک محدود رکھو، محبت بڑھے گی کبھی کم نہیں ہو گی۔ ڈیجیٹل بات چیت یا سلام دعا کے ایمیجز بھیجنے کے مقابلے میں ہاتھ سے لکھنا اور براہ راست کمیونیکیشن کرنا زیادہ بہتر ہے۔ محبت دنیا کو دکھانے کی نہیں بلکہ ایک دوسرے سے کرنے کی چیز ہے کیونکہ شادی کے بعد ملنے والی خوشی ایک تجربہ ہے، یہ کوئی کارکردگی نہیں ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت عزت و احترام سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہوتی ہے۔ اپنے اختلافات اور حل کو سو فیصد نجی رکھو، آپ ایک دوسرے کے سامنے کبھی شرمندہ نہیں ہونگے۔
Title Image by Iryna Bakurskaya from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔