اردو کا “ہَفت اِقلِیم” عرب شاعر!

اردو کا “ہَفت اِقلِیم” عرب شاعر!

Dubai Naama

اردو کا “ہَفت اِقلِیم” عرب شاعر!

بہرکیف یہ ملاقات بہت اچھی رہی اور مجھے ڈاکٹر صاحب سے تین ساڑھے تین گھنٹے کی اس میٹنگ میں وہ کچھ سیکھنے کا موقع ملا جسے ان کی 100کتابوں کو پڑھ کر بھی سیکھا نہیں جا سکتا تھا۔ اب اگلا مرحلہ آشیانے تک پہچنے کا تھا۔ تین چار بنگلے چھوڑ کر سڑک پر کھڑے مجھے دو آدم زاد نظر آئے۔ “یہاں نذدیک ترین بس سٹاپ کہاں ہے؟” میں نے حوصلہ کر کے ان سے رستہ تو پوچھ لیا مگر جس آسان طریقے سے انہوں نے راستہ سمجھایا، مجھے وہاں تک پہنچنے کے لئے کوئی آدھے درجن سے زیادہ زگ ذیگ کھانے پڑے۔ ایک مقام پر میں نے دو تین کھیتوں کے برابر رمل (ریت) سے بھرا ایک پلاٹ بھی کراس کیا۔ تب سابقہ برطانوی وزیراعظم چرچ ہل مجھے بہت یاد آئے۔ ایک دفعہ انہوں نے رات کے اندھیرے میں دریائے تھیمز میں اپنی پرانی کتابوں کا تھیلا پھینکا تھا۔ خیر میرے پاس جو کتابوں والا وزنی تھیلا تھا وہ ڈاکٹر زبیر فاروق کی شوق سے لکھی کتابوں اور مجھے دی محبت اور مروت کے مقابلے میں بہت ہی کم وزنی تھا، میں اسے رمل برد کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کے باوجود کہ جو کتابوں کا محاوراتی “48ٹنی تھیلا” پہلے میں نے ایک ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اب اس کی دونوں تنیاں ٹوٹ جانے کی وجہ سے اسے میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔

اس روٹ کی آخری بس 11بج کر 15منٹ پر آنی تھی، خوش قسمتی سے کچھ دیر بعد میں بس کی سیٹ پر بیٹھا ایک ایک کر کے تمام کتابوں کی سرسری ورق گردانی کر رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ کسی ایک کتاب پر بھی اس کی “قیمت فروخت” درج نہیں تھی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی سو کی سو کتابیں چھاپ چھاپ کر شاعری پڑھنے والے دوستوں میں مفت تقسیم کرتے رہے ہیں اور یہ ساری کتابیں لکھواتا ان سے ان کا “شوق” رہا ہے کہ بقول ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی:

تمھارا شکریہ جینا مرا رنگین کر ڈالا،
کبھی ہونا نہ تھا جو تم نے وہ نوشین کر ڈالا۔
ضرورت میری تو ہے اس لئے تو میرے مولا نے،
تجھے میرے لیئے ہے باعث تسکین کر ڈالا۔

نہ گر ہم زندگی میں عاشقی کرتے تو کیا کرتے،
بسر ایسے ہی ہم یہ زندگی کرتے تو کیا کرتے۔
خدا نے جو تراشے خوبصورت بت وہ پوجے ہیں،
فقط ہم گر خدا کی بندگی کرتے تو کیا کرتے۔
ہمیں جگنو نہیں سورج کی طرح جگمگانا تھا،
اگر اپنے لیئے ہی روشنی کرتے تو کیا کرتے۔
تو پھر کیسے بتاتے ہم یہ جو فاروق بیتی ہے،
ذرا سوچو نہ گر ہم شاعری کرتے تو کیا کرتے۔

اس مد میں مرشد اعظم ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے بھی فرمایا تھا کہ:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق،
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی!

زندگی میں خیال کا ارتکاز اور فوکس عشق و محبت سے زیادہ کوئی دوسرا جذبہ پیدا نہیں کر سکتا۔ اگر آپ چیزوں پر توجہ نہیں دے پاتے یا آپ کے خیالات بکھرے ہوئے ہیں اور آپ “فوکس” سے محروم ہیں تو آپ کسی سے ٹوٹ کر مجازی یا حقیقی محبت کرنا سیکھیں۔ اس کے بعد آپ پر زندگی کے راز و نیاز کھلنا شروع ہو جائیں گے، آپ کی زندگی میں ٹھہراو’ آ جائے گا، کیونکہ جو لوگ عشق کی صعوبتیں برداشت کر جاتے ہیں وہ زندگی کی کوئی بڑے سے بڑی مشکل بھی برداشت کر سکتے ہیں۔ ہر انسان سے بلامشروط محبت کرنے کی عادت انسان کو ذرے سے آفتاب بنا دیتی ہے۔

اردو کا “ہَفت اِقلِیم” عرب شاعر!

جو چیز ڈاکٹر صاحب سے ملنے کے لئے مجھے کھینچ کر لے گئی تھی وہ اردو شعر و ادب سے ان کی بے لوث محبت تھی۔ ادب جسے “لٹریچر” کہتے ہیں کا زندگی سے تعلق لطیف قسم کا ہوتا ہے، اسی وجہ سے یہ جسم سے زیادہ انسان کی روح پر اثر کرتا ہے۔ ایک شاعر بڑا ہو یا چھوٹا ہو اس کی شاعری میں فن کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی جتنی اس کے جذبے اور احساس کی ہوتی ہے۔ کسی قوم اور فرد کی ترقی کا راز اس کے اندر چھپی ہوئی تخلیقی صلاحیتوں سے ہوتا ہے جو فنون لطیفہ کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس حوالے سے سر تا پا خلوص کا پیکر نظر آئے جن کی رہائش گاہ ہمیشہ ادبی محفلوں کی آماجگاہ بنی رہی۔ متحدہ عرب امارات میں شائد ہی کوئی ایسا شاعر یا لکھاری ہو جس کی ڈاکٹر صاحب نے اپنے گھر بلا کر خاطر و مدارت نہ کی ہو۔

ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی صاحب عربی، اردو، ہندی اور جرمنی سمیت 7مختلف زبانیں جانتے ہیں، انہوں نے عربی، اردو اور ہندی میں شاعری کی ہے، جبکہ انہیں انگریزی زبان میں بھی شاعری کرنے پر ملکہ حاصل ہے جن کی 1600انگلش نظمیں و غزلیں شائع ہو چکی ہیں۔ اللہ پاک ہمارے محسن و مربی ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی صاژب کو صحت و تندرستی والی لمبی عمر عطا فرمائے (آمین)۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

عالی مقام حافظ صاحب، بلا امتیاز احتساب چایئے!

اتوار ستمبر 10 , 2023
بلاشبہ آرمی چیف کے حوصلہ افزاء اور دلیرانہ اقدام سے ملک کی غریب عوام کے دکھوں کا کچھ مداوا ہوا ہے
عالی مقام حافظ صاحب، بلا امتیاز احتساب چایئے!

مزید دلچسپ تحریریں