اڑتالیس ٹن وزنی کتابی تھیلا

اڑتالیس ٹن وزنی کتابی تھیلا

Dubai Naama

اڑتالیس ٹن وزنی کتابی تھیلا

ہماری گفتگو جاری تھی کہ ٹیبل پر فریش جوس اور کھانے پینے کی دیگر چیزیں آ گئیں۔ مجھے عربی نہیں آتی تھی ہم دونوں اردو اور انگریزی زبان میں باتیں کر رہے تھے۔ میں نے شاعری سے ہٹ کر ڈاکٹر صاحب کی توجہ “مسلم زوال” کی طرف دلائی اور علم و تحقیق اور سائنس کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو مغربی طرز پر “احیائے علوم” کی تحریک شروع کرنی چایئے جس کے بعد اہل یورپ میں “سائنسی انقلاب” برپا ہوا تھا۔ اس موضوع پر ڈاکٹر صاحب کا موقف آنا ابھی باقی تھا کہ اسی اثناء میں ان کی بیٹی حرا اور انکا سب سے چھوٹا بیٹا فارس بھی ڈرائنگ روم میں آ گئے۔ میں نے حرا سے انگریزی زبان میں پوچھا کہ کیا ان کو اردو آتی ہے تو اس نے بتایا کہ وہ صرف انگلش اور عربی جانتی ہے۔ فارس 5سال کا تھا اور وہ بھی انگریزی میں باتیں کر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد عشاء کی اذان ہوئی تو ڈاکٹر صاحب مجھے حرا سے باتیں کرنے کا کہہ کر نماز پڑھنے چلے گئے۔ جب وہ واپس تشریف لائے تو رات کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے اور مجھے واپس پلٹنے کی پریشانی میں ولیم کویر سے ماخوذ علامہ اقبال کی نظم “ہمدردی” کے یہ اشعار یاد آ رہے تھے:

“ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا۔
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چگنے میں دن گزارا
پہنچوں کس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا
سُن کر بلبل کی آہ و زاری جگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا “

فوٹو سیشن کے لئے ڈاکٹر صاحب نے بنگالی خادمہ شبانہ (فرضی نام ہے) کو بلایا اور ساتھ ہی مجھے کتابوں کی لائبریری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، “اپنی پسند کی تیس چالیس کتابیں نکالو۔” میں نا نا کرتا رہا مگر پھر بھی انہوں نے تیرہ کتابیں میز پر دھر دیں۔ ان کتابوں میں دو ضخیم دیوان بھی تھے، جن میں شائد دس دس کتابیں شامل تھیں۔ یوں ڈاکٹر صاحب نے مجھے الوداع کرنے سے پہلے میرے نازک کندھوں پر تقریبا 23کتابوں کا بوجھ لادنے کا منصوبہ مکمل کیا۔ اٹھتے اٹھتے ہماری گفتگو آدھ گھنٹہ مزید جاری رہی۔ ہمارے مکالمے کے اس حصے میں جب ڈاکٹر زبیر فاروق صاحب نے اردو شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والے پاکستانیوں کی “بے وفائی” اور “احسان فراموشی” کا ذکر کیا تو مجھے انتہائی شرمندگی محسوس ہوئی۔ بلاشبہ ڈاکٹر زبیر فاروق صاحب اپنی خدمات کے حوالے سے اردو ادب اور پوری پاکستانی قوم کے محسن ہیں، جنہوں نے اردو شاعری کی اشاعت و ترویج کے لئے لاکھوں درہم خرچ کیئے مگر اس کے بدلے میں “تمغہ امتیاز” کے علاوہ انہوں نے کبھی کوئی مالی ستائش وغیرہ قبول نہیں کی۔ یہ ہماری ملاقات کی ایک انتہائی تلخ حقیقت تھی جو میرے دل میں گھر کر گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے گھر تک چھوڑنے کی آفر کی۔ میں یہ آفر ایک اداس پرندے کی طرح قبول کرنا چاہتا تھا مگر میں نے افسردہ دل کے ساتھ یہ آفر ٹھکرا دی۔ خادمہ کپڑے کا ایک تھیلا لے آئ جس میں ساری کتابیں ڈاکٹر صاحب نے ترتیب سے خود اپنے ہاتھوں سے رکھیں۔

اڑتالیس ٹن وزنی کتابی تھیلا
Image by Siala from Pixabay

چارلی چپلن کا ایک قول ہے کہ، “مجھے بارش میں رونا پسند ہے تاکہ میرے بہتے ہوئے آنسو کوئی دیکھ نہ سکے۔” ڈاکٹر زبیر فاروق نے عربی زبان دان اور ایک غیراردو دان ہونے کے باوجود 48سال (جو کہ تقریبا نصف صدی بنتی ہے) تک اردو کی خدمت کی۔ جب انہیں ان کی خدمت کا پھل ملنا چاہیئے تھا اور وہ بھی صرف عزت و احترام کی شکل میں، ہمارے اردو برتنے والے دوستوں نے یہ انعام دینے کی جگہ انہیں غم دیئے۔ جب میں بوجھل دل کے ساتھ کتابوں کا یہ دس بارہ کلو تھیلا لے کر ان کے گھر سے نکلا تو یہ تھیلا مجھے 48ٹن وزن کا تھیلا محسوس ہو رہا تھا (جاری ہے)

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اردو کا "ہَفت اِقلِیم" عرب شاعر!

ہفتہ ستمبر 9 , 2023
جو چیز ڈاکٹر صاحب سے ملنے کے لئے مجھے کھینچ کر لے گئی تھی وہ اردو شعر و ادب سے ان کی بے لوث محبت تھی۔
اردو کا “ہَفت اِقلِیم” عرب شاعر!

مزید دلچسپ تحریریں