زنجیر فارسی زبان کا لفظ ہے۔ جبکہ کُنڈی ہندی زبان سے ماخوذ ہے۔ لوگ گھروں میں لکڑی کے دروازے استعمال کرتے تھے
ملہووالا
بعض حضرات کی رائے یہ تھی کہ یہ توت چونکہ کامل پور سیداں کے شاہ صاحبان کی ملکیت تھے اس لئے شاہ توت کہلاتے تھے۔
چھوئی کا علاقہ ملہو والا سے 2 کلومیٹر جنوب مغرب میں تھا۔ یہ بیری کے درختوں کے لیے مشہور تھا،
ماہل میں رنگین پایوں والے بھاری پلنگ بچھے ہوتے ۔ لمبی دیوار پر لکڑی کی خوبصورت کانس بنی ہوتی تھی جس پر پیتل ، تانبے اور چینی کے برتن رکھے ہوتے ۔
ملہو والا کے آئین کے مطابق مرغی صرف تین مواقع پر پکانے کی اجازت تھی۔
باجرے کے سٹوں کا اپنا لطف تھا۔ کچا سٹا یا چھلی کی طرح بھونا ہوا سٹا تلی پرمروڑا جاتا ، پھونک مار تے تو بھوسی اڑ جاتی تلی پر دانے رہ جاتے
دیہاتی زندگی میں کوشش ہوتی تھی کہ کوئی چیز دکان سے نہ منگانی پڑے ۔ حلوہ کھانے کو دل کرتا تو گھر کے آٹے اور گڑ کا حلوہ بنا لیا جاتا۔
ہماری دادی جان کا نام نور جہان تھا۔ ان کے تین بھائی اور دو بہنیں تھیں
ابتدائی طبی امداد کے طور پر مجھے گرم دیسی گھی دیا گیا جس میں کالی مرچ تھی۔
پھر بابا صاحب خان کھیڑا کو دم کے لیے بلایا گیا۔