عجیب الخلائق دنیا، اسلام اور سائنس کی روشنی میں
اللہ تعالی کے نزدیک بیشک بدترین خلائق وہ لوگ ہیں جو بہرے ہیں گونگے ہیں (تحقیق نہیں کرتے اور) جو کہ ذرا نہیں سمجھتے (القرآن)۔
کیا حقیقت وہ ہے جسے ہم دیکھتے ہیں یا وہ ہے جس کو ہم دیکھ ہی نہیں سکتے؟سچائی کو جاننے کے لئے کچھ ظاہری حقائق کو مسلسل جھٹلانا پڑتا ہے۔
دیگر آسمانی مذاہب کے پیروکاروں اور ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ، “کائنات کو خدا نے تخلیق کیا ہے”۔ اگر اس الہامی دعوی کی سچائ اور صداقت کو ثابت کرنے کا موضوع زیر بحث آئے تو یہ فطری سوال ضرور پوچھا جاتا ہے کہ، “خدا نے کائنات کو کیسے بنایا؟” اگر دوسرے سوال کو کوانٹم مکینکس Quantum Mechanics اور بومیآن مکینکس Bohemian Mechanics کے طریقہ کار اور فطری قوانین کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان کی حتمی منزل مقصود کے اعتبار سے قرآنی تعلیمات اور سائنس کے طریقہ کار میں بہت کم فرق رہ جاتا ہے۔
کوانٹم مکینکس اور بومیآن مکینکس میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بومیآن مکینکس میں ذرات ہمیشہ ذرات رہتے ہیں اور لہریں ہمیشہ لہریں رہتی ہیں۔ تہلکہ خیز دہری پلیٹوں کے تجربے Double Slit Experiment سے آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے کہ ان دونوں سائنسی نظریات میں وہی فرق ہے جو مذہب کے مابعد عقیدے Metaphysical Belief اور سائنس کے نظریئے Scientific Theory کے درمیان فرق ہے۔ اگر آخرت کے بارے عقائد کو بھی سائنسی تھیوریز مان کر تحقیق کی جائے اور انہیں روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنایا جائے تو سائنس اور مذہب کا نظریاتی اختلاف تقریبا ختم ہو جاتا ہے۔
کوانٹم اور بومیآن تھیوریز میں بڑا فرق یہ ہے کہ بومیآن تھیوری ارادی Intentional یا متعین شدہ Deterministic ہے اور پیش گوئی کرتی ہے کہ کسی خاص مقام پر ذرات کیا رویہ اختیار کریں گے جبکہ کوانٹم مکینکس صرف امکانیات Probabilities کی سائنس ہے۔
الہامی مذاہب کے زیادہ تر عقائد مصدقہ بومیآنی سچائیاں ہیں جن کی پیش گوئیاں پہلے کی گئ ہیں مگر وقت نے انہیں عہد بہ عہد بعد میں ثابت کرنا ہے۔
بومیآن مکینکس کو پائلٹ لہری نظریہ Pilot Wave Theory یا ڈی برونگلی بومیآن تھیوری De Broglie Bohmian Theory بھی کہتے ہیں جو ایسی سائنس ہے جس کے بنیادی اصول یہ ہیں کہ حقیقت وہ نہیں جو دیکھنے والے کو نظر آتی ہے بلکہ حقیقت وہ ہے جو درحقیقت واقع ہو رہی ہوتی ہے۔
مذہبی معاشروں کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں پسماندہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ خدا اور کائنات کو روحانی علوم کے علاوہ مادی علوم کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔اس کی ایک آسان مثال سائنس دان تھامس ینگ Thomas Younge کا یہ دہری پلیٹوں کا تجربہ ہے جس میں فوٹانز دہرے رویئے اور خواص کا مظاہرہ کرتے ہیں جب دو مختلف مواقع پر وہ لہر اور ذرے کی شکل اختیار کرتے ہیں جو کہ کلاسیکل طبیعات کے قوانین کے مطابق ناممکن ہے۔ اسی رویئے کا مظاہرہ اس تجربے میں الیکٹران بھی کرتے ہیں یعنی جب آپ ان کا مشاہدہ کرتے ہیں یا ان کا مشاہدہ کرنے کے لئے کچھ آلات استعمال کرتے ہیں تو وہ ذرات بن جاتے ہیں اور آلات استعمال نہیں کرتے ہیں تو وہ لہر کی شکل اختیار کیئے رکھتے ہیں۔ یہ الیکٹران کا ایسا عجیب اور پراسرار رویہ ہے جس کی ابھی تک سائنس دان کوئی ٹھوس تعبیر پیش نہیں کر سکے ہیں کہ اس کی اصل وجہ کیا ہو سکتی ہے؟
اس تجربے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ان الیکٹران کو معلوم ہے کہ انہیں کوئی تجربے کے ذریعے دیکھ رہا ہے اور کوئی اصل چیز معلوم کرنا چاہتا ہے جو وہ ہم سے چھپا لیتے ہیں۔
کیا جانداروں اور بے جان اشیاء کی تقسیم وقتی اور فہمی ہے اور کیا ان بے جان چیزوں کو بھی اپنے ہونے کا ادراک حاصل ہے جس وجہ سے وہ خود کو قائم کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہیں؟
پھر اس تجربے کے دوران ایک یہ بات بھی نوٹ کی گئ ہے کہ اگر کسی “ایک” الیکٹران کو کسی گن سے فائر کر کے کسی مشاہدہ کرنے والے انسان یا آلے کے بغیر اگر پلیٹ کے سو سوراخوں سے گزارا جاتا ہے تو وہ سو کے سو سوراخوں سے بیک وقت گزر کر پردہ سکرین پر لہر بن کر سو نشانات چھوڑتا ہے اور اگر اس کا ڈیٹیکٹر وغیرہ سے مشاہدہ کیا جاتا ہے تو وہ ذرہ بن کر پردے پر صرف ایک نشان چھوڑتا ہے!!
جاری ہے ……
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔