راجہ رسالو

تحقیق و تحریر :سیدزادہ سخاوت بخاری

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک خواجہ سراء کا ویڈیو پیغام سننے کو ملا جس میں وہ اس بات کا شکوہ کرتے ہوئے نظر آیا کہ ہم اپنی نئی نسل کو غیرملکی ھیری پوٹر کی کہانیاں تو پڑھاتے ہیں لیکن انہیں یہ نہیں بتاتے کہ راجہ رسالو کون تھا ۔ بات قابل غور تھی ۔ نام اور کسی قدر تعارف تو ہم نے بھی سن رکھا تھا لیکن کبھی تفصیل میں جانے کی زحمت گوارہ نہ کی کہ یہ نامور ھستی کون ہے ۔ پڑھے لکھے خواجہ سراء کے اس توجہ دلاو نوٹس پر ہمیں اپنی لائیبریری کی طرف متوجہ ہونا پڑا اور کئی ایک تاریخی کتابیں کھنگالنے کے بعد آج ان چند سطور میں برصغیر کے اس عظیم سپوت کا ایک مختصر تعارف پیش کیا جارھا ہے ۔ قارئین سے گزارش ہے کہ بعد از مطالعہ ، کمی بیشی اور غلطی کوتاھی کی نشان دہی ضرور کریں تاکہ ریکارڈ کو درست رکھا جاسکے ۔ تاریخ انسانی بھی ایک عجیب و غریب اور مشکل مضمون ہے ۔ ہر دور میں ایک ہی واقعے ، شخصیت اور حالات و واقعات کے بارے میں مختلف تاریخ نویسوں نے اپنے اپنے علم اور زاویہء نگاہ کے زیر اثر کتابیں تحریر کرکے ہمیں ماضی کی سیر تو کرائی لیکن ساتھ ہی ساتھ اختلافات کے بھی انبار لگادیئے ۔ اس بات کا اندازہ تو تھا لیکن جب قوم گجر کی تاریخ پہ نظر دوڑائی تو حیران ہوکر رہ گیا کہ تاریخ دانوں نے اس قبیلے کو کہاں کہاں جاکر جوڑا ہے ۔ کوئی اسے ترکی الاصل گردانتا ہے تو کسی کے خیال سے ان کا تعلق ایران سے تھا ۔ کوئی انہیں گرجستانی ( کوہ قاف کی موحودہ عیسائی ریاست جورجیا ) کے باشندے قرار دیتا ہے تو کہیں انہیں آریائی قوم بتایا گیا ہے جو وسط ایشیاء سے وقتا فوقتا ھجرت کرکے برصغیر میں وارد ہوئے ۔ حقیقت کچھ بھی ہو ایک بات پر سب متفق ہیں کہ گجر قبیلہ کوئی دو ھزار برس قبل باھر سے آکر اس خطے میں آباد ہوا ۔ ان کی تاریخ کم و بیش 5 ھزار برس پر پھیلی ہوئی ہے اور اس مختصر آرٹیکل میں اس کا احاطہ کسی طور ممکن نہیں ۔ گجرات ، گوجراں والا ، گجر گڑھی ، گجر پورہ اور اس قسم کے کئی نام اس قوم کے شاندار اور حاکمانہ ماضی کا ثبوت ہیں ۔ گجر قوم پورے ھندوستان ، پاکستان اور افغانستان میں آباد ہے جن میں ھندو گجر ، مسلمان گجر ، سکھ گجر اور کئی دیگر ادیان کے ماننے والے شامل ہیں ۔ اگرچہ بہ ظاھر ان کا پیشہ مال مویشی پالنا اور ان کا دودھ بیچنا ہی بتایا اور سمجھا جاتا ہے لیکن تاریخ ھند کا مطالعہ کریں تو علم ہوگا کہ ان کے آباء و اجداد نے ھندوستان کے کئی علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی حکومتیں قائم کیں اور اس قوم میں بڑے بڑے نامور راجے مہاراجے پیدا ہوئے ۔

Raja Rasalu

ان ہی راجاوں میں راجہ رسالو کا نام بھی آتا ہے ۔ راجہ رسالو کا تعلق سیال کوٹ کے گجر قبیلے کی ایک گوت ، ھن (پیش کے ساتھ ) سے تھا جو خود کو مہر یا میہر بھی کہلواتے ہیں ۔ مہر بھوج اس خاندان کا ایک عظیم راجہ ہو گزرا ہے ۔ راجہ رسالو کے باپ کا نام سالباہن اور ماں کا نام رانی لونا تھا ۔ سالباھن کی حکومت سیالکوٹ سے پوٹھوھار کے شھر راولپنڈی تک تھی ۔ سالباھن کی دوسری بیوی کا نام اچھراں تھا جس کے نام پر لاھور کی ایک نواحی آبادی کا نام اچھرہ پڑا ۔ اسی رانی اچھراں کے بطن سے معروف تاریخی کردار پورن بھگت پیدا ہوا ۔ یہ دوسری صدی عیسوی یعنی آج سے تقریبا 1800 سو سال پہلے کی بات ہے جب راجہ رسالو نے اقتدار سنبھالا اور سیالکوٹ سے راولپنڈی تک کا حکمران بنا ۔ اس وقت ٹیکسلا میں راجہ سرکپ کی حکومت تھی جس کا دائرہ اقتدار ھزارہ اور سوات کے علاقوں تک پھیلا ہوا تھا ۔ راجہ رسالو سیروسیاحت اور اپنی حکومت میں توسیع کے ارادے سے جب پوٹھوھار کے علاقے میں آیا تو اسے علم ہوا کہ راجہ سرکپ بہت ظالم اور سفاک شخص ہے ۔ اپنی رعایا کو تنگ کرتا رھتا ہے لھذا اس نے اسے سبق سکھانے کی خاطر ٹیکسلا پر حملہ کردیا ۔ راجہ سرکپ کو معزول کرنے کے بعد راجہ رسالو نے اس کی بہن رانی کوکلاں سے شادی کرکے حکومت اس کے حوالے کی اور خود ھری پور ھزارے کی طرف نکل گیا تاکہ اس علاقے کو بھی زیر کرسکے ۔ راجہ رسالو اپنی فتوعات کی مہم پر تھا کہ اس کی بیوی ، گندگر پہاڑ (جس کے دامن میں اس وقت تربیلا ڈیم واقع ہے ) کے جنگلات میں جاکر ایک دیو یا راکشش سے پیار و محبت میں محو ہوگئی ۔ رانی نے ایک طوطا اور مینا پال رکھے تھے جو اس وقت اس کے ہمراہ تھے ۔ جب رانی اس راکشش سے پیار کرنے لگی تو مینا نے شور مچادیا کہ تم غلط کررہی ہوں میں جاکر راجہ کو بتادونگی ۔ اس پر رانی نے غصے میں آکر مینا کی گردن مروڑی اور اس کا کام تمام کردیا ۔ طوطے نے جب یہ دیکھا تو فورا اڑان بھری اور وھاں سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ راجہ اس وقت رجوعیہ کے علاقے میں تھا لھذا طوطے نے راستے میں پڑنے والے دریائے دوڑ میں ڈبکی لگاکر اپنے پر گیلے کئے اور راجہ کے قریب جاکر اس پر پانی کے قطرے گرائے جس سے راجہ جاگ گیا ۔ طوطے نے راجہ رسالو کو پوری کہانی سنادی جس پر راجہ طیش میں آگیا اور سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس جگہ پہنچا جہاں رانی ، دیو کے ساتھ رنگ رلیاں منانے میں مشغول تھی ۔ راجہ نے رانی کو قتل کرڈالا اور دیو بھاگ کر ایک تاریک غار میں گھس گیا ۔ مورخین کے مطابق راجہ رسالو نے ایک پتھر پر اپنی تصویر کندہ کرکے اس غار کے منہ پر رکھ دی ۔ جب بھی دیو باھر آنے کی کوشش کرتا اس تصویر کو دیکھ کر واپس لوٹ جاتا ۔ اس علاقے کے باسی روائت کرتے ہیں کہ ایک مدت تک اس پہاڑ سے ایک خوفناک آواز آتی رہی جو یقینا اس دیو کی تھی ۔ اس بات کی تصدیق میجر ایبٹ ، بانی ایبٹ آباد شھر نے بھی کی ۔ اس کے مطابق علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس پہاڑ سے ایک خوفناک آواز آتی ہے ۔ شھنشاہ جہانگیر نے تزک جہانگیری میں لکھا ہے کہ میں نے حسن ابدال سے پانچ میل اوپر کی طرف پڑاو کیا ۔ علاقے کے لوگ میرے پاس آئے اور بتایا کہ گندگر کے اس پہاڑ سے ایسی آواز آتی ہے کہ جیسے بادل گرج رہے ہوں جبکہ مطلع بالکل صاف ہوتا ہے ۔ آسمان پر بادلوں کا نام و نشان نہ ہونے کے باوجود پہاڑ کی طرف سے بجلی کڑکنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ تربیلا اور غازی کے علاقے کی یہ رزمیہ داستان دو ھزار سال پرانی ہے ۔ امید ہے راجہ رسالو اور گجر قوم سے متعلق یہ مختصر مضمون آپ کو پسند آئیگا ۔

SAS Bukhari

سیّدزادہ سخاوت بخاری

سرپرست اعلی

اٹک ای میگزین

تحریریں

شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ہراسمنٹ، پولیس اور پی ایم کمپلینٹ پورٹل

جمعرات ستمبر 23 , 2021
پی ایم سیٹیزن پورٹل کی افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اس میں کئی قانونی سقم موجود ہیں جنہیں درست کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ پولیس کو کنٹرول کرنا بہت مشکل کام ہے
social values

مزید دلچسپ تحریریں