وحید منظر کا ملی نغمہ: فنی و فکری جائزہ
وحید منظر کا “ملی نغمہ” پاکستان کی تخلیق اور اس کی بقا میں شامل قربانیوں اور امنگوں کا ایک پُرجوش اور دلکش اظہاریہ ہے۔ وحید منظر نے اپنی اس خوبصورت شاعرانہ تصنیف میں حب الوطنی کے جذبے کو بھرپور استعاروں، بہترین امیجری، اور ایک پرجوش لہجے کے ذریعے سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔
شاعر کا یہ شاہکار “ملی نغمہ” پاکستان بنانے کے لیے دی گئی قربانیوں کی نشانی ہے، جس کی علامت “خون جگر” کے استعارے کے ذریعے بیان کی گئی ہے۔ وحید منظر کا بار بار گریز، “خون جگر نذرانہ دے کر پاکستان بنایا” (یعنی عوام نے اپنے دل کا خون دے کر پاکستان بنایا)، نظم کو گہری قربانی اور لگن کے احساس میں سامنے لاتا ہے۔ یہ بار بار چلنے والی لائن نہ صرف آزادی کی قیمت کو نمایاں کرتی ہے بلکہ ان قربانیوں کو عزت دینے کے جاری فرض کی یاد دہانی کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔
آپ نے اپنی نظم “ملی نغمہ” میں بغیر کسی رکاوٹ کے لچک، اتحاد اور روشن خیالی کے موضوعات کو شامل کیا ہے۔ روشنی اور اندھیرے کی تصویریں بنا کر وحید منظر جبر سے آزادی تک کے سفر کی عکاسی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ “تیرہ شبی میں لپٹے قمر کو جرات سے روشن کیا ہے” (یعنی اندھیری راتوں میں ہم نے ہمت کے ساتھ چاند کو روشن کیا ہے) بہادری اور استقامت کے ذریعے مشکلات پر فتح کا اشارہ دیتا ہے۔ روشنی کا استعارہ فکری اور روحانی روشن خیالی تک پھیلا ہوا ہے، شاعر پاکستانی قوم کو علم اور اتحاد کو اپنانے کی تلقین کرتا ہے، جیسا کہ “علم و ہنر کے دیپ جلا کر دل کو مثل نور کریں” (یعنی دلوں کو روشن کرنے کے لیے علم اور ہنر کے چراغ جلائیں) روشنی کی طرح) روشن ہوکر اپنا ملک بھی علم کی روشنی سے روشن کرنے کا زکر کرتا ہے۔
وحید منظر قوم کے سفر کی ایک واضح تصویر پینٹ کرنے کے لیے منظر کشی کی ایک بھرپور سیریز استعمال کرتا ہے۔ پھولوں اور باغ کی تصویروں کا استعمال، جیسے کہ “گل کو حنا کی خوشبو دے کر صحن چمن مہکایا ہے” (یعنی پھول کو مہندی کی خوشبو دے کر ہم نے باغ کو خوشبودار بنا دیا ہے)، اس قوم کی جدوجہد اور قربانی دینے کے عزم علامت ہے۔ یہ پھولوں اور حنا کی تصویر کشی نہ صرف امن اور ترقی کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ قوم کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے اجتماعی ذمہ داری کا احساس بھی دلاتی ہے۔
نظم اخلاقی اور معاشرتی دونوں طرح سے صفائی اور تزکیہ نفس کے خیال کو بھی بیان کرتی ہے۔ وحید منظر پاکستانی قوم سے دشمنی اور منافقت کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے، جس کی علامت “ذہن کے شاطر گل چینوں کو صحن چمن سے دور کرو” (یعنی شرارتی پھول چننے والوں کو باغ سے دور رکھو) اور “سارے منافق زیاں کار جو ہیں ان کو وطن سے دور کرو”۔ (یعنی تمام منافق ملک کے لیے خسارے کا باعث ہیں، انہیں وطن سے دور رکھو) یہ اشعار اندرونی جھگڑوں اور بدعنوانی سے پاک ایک خالص اور متحدہ پاکستان کے وژن کی نشاندہی کرتی ہیں۔
وحید منظر کا زبان کا استعمال خوبصورت اور طاقت ور دکھائی دیتا ہے، جس کی خصوصیت تال میل اور نظم کی خوبصورتی ہے۔ کلیدی فقروں کی تکرار نظم کے موسیقی کے معیار کو بڑھاتی ہے اور اسے یادگار اور اثر انگیز بناتی ہے۔ اس کا تخیل اور ہم آہنگی کا ماہرانہ استعمال سمعی تجربے کو تقویت بخشتا ہے، جس سے نظم کی جذباتی گہرائی کو اجاگر کرنے والا راگ الاپتا ہے۔
یہ “ملی نغمہ” ذاتی قربانی کو قومی فخر سے جوڑ کر ایک مضبوط جذباتی ردعمل کو جنم دیتا ہے۔ وحید منظر کی ذاتی اور اجتماعی داستانوں کو آپس میں جوڑنے کی صلاحیت قارئین کو قوم کی میراث میں ان کی اپنی شراکت پر غور کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ مزید برآں نظم اتحاد، علم، اور اخلاقی سالمیت کی اقدار پر فکری عکاسی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
تاریخی اور ثقافتی علامتوں کا استعمال کرتے ہوئے وحید منظر شاعری کو پاکستانی قوم پرستی کے وسیع تناظر میں پیش کرتا ہے۔ “قائد” (رہنما) کا حوالہ اور قرآن اور توحید پر زور (“ایک اللہ ایک قرآن”) نظم کو پاکستان کی نظریاتی بنیادوں سے ہم آہنگ کرتا ہے، اور مشترکہ شناخت اور مقصد کے احساس کو تقویت دیتا ہے۔
وحید منظر کا اپنے پیارے وطن کے لیے لکھا گیا “ملی نغمہ” جذباتی پزیرائی اور فکری گہرائی کا شاندار امتزاج ہے۔ یہ قوم کی ان قربانیوں کی ایک طاقتور یاد دہانی کے طور پر ہمارے سامنے ہے جنہوں نے پاکستان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور شاعر نے اتحاد، علم اور اخلاقی سالمیت کے ذریعے ان قربانیوں کا احترام کرنے کی قوم کو دعوت دی ہے۔ اپنی بھرپور تصویر کشی، گیت کی خوبصورتی، اور گہرے موضوعات کے ذریعے، نظم نہ صرف ماضی کا جشن مناتی ہے بلکہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کے ایک روشن، زیادہ متحد مستقبل کے لیے ایک وژن کو بھی سامنے لاتی ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے وحید منظر کا ملی نغمہ پیش خدمت ہے۔
*
ملی نغمہ
*
خون جگر نذرانہ دے کر پاکستان بنایا ہے
گل کو حنا کی خوشبو دے کر صحن چمن مہکایا ہے
روشنیوں کے اس مسکن میں روشنیوں کے دھارے ہیں
ہم نے اپنی پاک زمین پر کیا کیا چاند اتارے ہیں
تیرہ شبی میں لپٹے قمر کو جرات سے چمکایا ہے
خون جگر نظر انہ دے کر پاکستان بنایا ہے
گل کو حنا کی خوشبو دے کر صحن چمن مہکایا ہے
اس گلشن کے رہنے والے بغض و عداوت دور کریں
علم و ہنر کے دیپ جلا کر دل کو مثل نور کریں
ایک اللہ ہے ایک قران دین بڑا سرمایہ ہے۔
خون جگر نذرانہ دے کر پاکستان بنایا ہے گل کو حنا کی خوشبو دے کر صحن چمن مہکایا ہے
اس دھرتی ہی کی خاطر ہم راہ عمل میں آئے ہیں
قائد نے دستور دیئے ہیں سو ہم نے اپنائے ہیں
اس پرچم کی شان نرالی اس کا ہم پر سایہ ہے
خون جگر نذرانہ دے کر پاکستان بنایا ہے
گل کوحنا کی خوشبو دے کر صحن چمن مہکایا ہے
ذہن کے شاطر گل چینوں کو صحن چمن سے دور کرو
سارے منافق وجہہ زیاں ہیں ان کو وطن سے دور کرو
قلب و نظر کا خون بہا کر حق کا دیپ جلایا ہے
خون جگر نذرانہ دے کر پاکستان بنایا ہے
گل کو حنا کی خوشبو دے کر صحن چمن مہکایا ہے
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔