کالم نویسی کا فن
اردو زبان کی نثر میں اخبارات اور جرائد کی حد تک کالم نویسی کو وہی مقام و درجہ حاصل ہے جو اردو شاعری میں غزل کو ہے۔ ویسے تو نثر کا میدان بہت وسیع ہے جس میں اخبارات کی خبروں، اداریوں اور فیچرز کے علاوہ تاریخ، سوانح حیات، سفر نامہ، آپ بیتی، ناول، اشائیہ، ڈرامہ نگاری اور افسانہ وغیرہ بھی شامل ہیں مگر کالم نگاری ایسا فن تحریر ہے جو مختصر اظہاریہ میں آتا ہے جس میں کالم نگار حالات حاضرہ یا دیگر اہم موضوعات کو اس انداز میں قلم بند کرتا ہے کہ جسے دریا کو کوزے میں بند کرنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کالم کی ضروریات اور تقاضوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو کالم نویس کو اپنا مدعی یا نقطہ نظر پیش کرنے کے لحاظ سے بہت سی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جن کو کالم نگار مدنظر نہ رکھے تو اس کا کالم ایڈیٹر کے دو لفظی جواب “ناقابل اشاعت” کی زد میں بھی آ سکتا ہے۔
کالم نویسی اس اعتبار سے اردو ادب و نثر کی ایسی شاہکار صنف ہے کہ جس کا مقابلہ کوئی بڑے سے بڑا شاعر یا مصنف بھی نہیں کر سکتا ہے کہ آپ اپنی کوئی تصنیف تو کسی پبلشر سے فری میں یا پیسے دے کر چھپوا سکتے ہیں مگر اس معیار پر اپنا کوئی کالم کسی اخبار میں نہیں چھپوا سکتے ہیں۔
بڑے کالم نگار عموما حالات حاضرہ کے موضوعات کو فوکس کرتے ہیں جو عوام کی دلچسپی سے تعلق رکھتے ہوں۔ گویا کالم عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اور ان کی توجہ اور دلچسپیوں کو مدنظر رکھ کر لکھا جاتا ہے۔ کالم چونکہ عموما روزنامہ اور ہفتہ روزہ وغیرہ میں چھپتے ہیں تو ان کے موضوعات اور انداز تحریر ایسا ہوتا ہے کہ وہ چھپنے اور پڑھے جانے تک تروتازہ اور “اپ ڈیٹڈ” ہوں۔ آج کل سب سے زیادہ کالم سیاست کے موضوعات پر لکھے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے کالم نویسی عوام اور ووٹرز کی مثبت اور منفی ذہن سازی میں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ چونکہ کالم لکھنے والے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے حق اور مخالفت میں راہ ہموار کر سکتے ہیں لھذا بہت سے کالم نویس اپنے ضمیر اور قلم سے بددیانتی کرتے ہوئے نہ صرف ان جماعتوں کے “سپوکس مین” بن جاتے ہیں بلکہ ان کے “پے رول” پر بھی چلے جاتے ہیں یا ان کے حق میں لکھ کر ان سے دیگر مراعات اور فوائد وغیرہ حاصل کرتے ہیں۔ انہی مشہور کالم نویسوں کو ٹی چینلز والے بھی لاکھوں روپے ماہانہ کی تنخواہ پر اینکرز کے طور پر ہائر کر لیتے ہیں۔ گزشتہ 35 سالوں میں تو ایسے کچھ ضمیر فروش کالم نویسوں اور اینکروں کی ایسی چاندی ہوئی ہے کہ وہ اب تک اربوں روپے کے اثاثوں کے مالک بن چکے ہیں۔ وہ بڑے بڑے ٹی وی چینلوں پر اور اپنے ذاتی یوٹیوب اور ڈیجیٹکل پروگراموں اور بلاگز میں ایسی مصنوعی دانش پر مبنی آراء دیتے ہیں کہ جیسے وہ اس عہد کے “ارسطو” ہیں۔
اس پر مستزاد اخبارات اور ٹی چینلز اپنی ریٹنگ اور رینکنگ بڑھانے کے لیئے واقعات کو مرچ مصالحہ لگا کر ایسے “سنسنی خیز” اور “بریکنگ نیوز” کے موضوعات میں بدل دیتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے ابھی آسمان گرنے والا ہے۔ اس مصنوعی ماحول سے قارئین اور ناظرین کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم اور سوچ کی کمی اور ایسی سطحی اور لچر صحافیانہ رپورٹنگ کی وجہ سے عوام کے تنقیدی اور کریٹیکل ذہن پر بہت زیادہ منفی اثرات پڑے ہیں۔ اس پر جلتی کا کام کچھ دیگر اور مدمقابل کالم نویس بھی کر رہے ہیں جن کو کالم نویسی کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق لکھنا چایئے تھا مگر وہ یہ فریضہ ادا کرنے کی بجائے اپنے کالموں میں تاریخ، اسلامیات اور دیگر موضوعات سے اقتباسات لیتے ہیں اور ان میں کچھ ردوبدل کر کے انہیں اپنے کالم میں کاپی پیسٹ کر دیتے ہیں جیسا کہ وہ کوئی کتاب لکھ رہے ہوں حالانکہ ایسے اقتباسات کا کالم کے متن اور نفس مضمون سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔
ایک کالم ادارتی صفحہ پر چھپنے سے پہلے ادارتی بورڈ کی چھلنی سے گزر کر چھپتا ہے۔ ایمانداری اور اخلاص کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قارئین کی ذہن سازی اور اصلاح کے لیئے انہیں ایسا مواد فراہم کیا جائے جو کالم کے معیار پر پورا اترتا ہو، وہ منصفانہ اور غیرمتنازعہ ہو یا وہ متنازعہ بھی ہو تو اسے اس انداز سے لکھا جائے کہ اس سے کوئی اصلاح کا پہلو نکلتا ہو۔
آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ کچھ کالم نویس حکومت یا اپوزیشن کے زیر عتاب آتے ہیں یا ان پر کالم نویسی وغیرہ کی پابندی لگ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایسے کالم نویس یکطرفہ لکھتے ہیں اور وہ کسی خاص سیاسی جماعت وغیرہ کی نمائندگی کرنے لگتے ہیں اور یا پھر غلطی سے کچھ ایسا مواد اپنے کالم میں لکھ دیتے ہیں اور ایڈیٹر کی غلطی سے وہ کالم چھپ بھی جاتا ہے تو اس سے نہ صرف کالم نگار بلکہ بعض دفعہ اخبارات کو بھی عدالتوں کا چکر لگانا پڑتا ہے، ان کے اشتہارات وغیرہ بند ہو جاتے ہیں اور یا پھر وہ کسی طاقتور حلقے کی سزا کے مستوجب ٹھہر جاتے ہیں۔
کالم نویس لکھتے وقت ایک خاص ذہنی کیفیت میں بھی ہو سکتا ہے جب اس کا تنقیدی ذہن سو جاتا ہے یا اس سے جانے انجانے میں کوئی بھول ہو جاتی ہے جسے ایڈیٹر پکڑ لیتا ہے اور اس میں ایڈیٹنگ کرتا ہے یا اس میں کچھ زیادہ قابل اعتراض مواد شامل ہو تو وہ اسے شائع کرنے سے بھی معذرت کر لیتا ہے کیونکہ وہ کالم نگاروں کی غلطیوں پر نظرثانی کی قدرت رکھتا ہے اور یہی ایک معیاری اور اچھے ایڈیٹر کی نشانی ہے۔
اس کالم میں یہ ابتدائیہ باندھنے کی ضرورت بھی اسی لیئے پیش آئی جس میں پورا کالم ہی گزر گیا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے معاصر اخباروں کے مشہور کالم نویس بھی انہی مزکورہ غلطیوں کو دہراتے نظر آ رہے ہیں۔ کالم لکھنے کے لیئے خود کو اپ ڈیٹ رکھنا پڑتا ہے جس میں مختلف اخبارات کی خبروں اور کالمز کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ میں اتنا بڑا مشہور یا تخلیقی کالم نویس نہیں ہوں مگر ان لکھنے والوں کو پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ سیاسی حوالوں کو اس تواتر سے دہراتے ہیں کہ جیسے وہ حوالے ہی ان کا اصل کالم ہو یا وہ اپنی رائے بھی دیتے ہیں تو وہ اتنی جانبدارانہ ہوتی ہے کہ اس سے صاف جھلک رہا ہوتا ہے کہ وہ ایک “پارٹی” بن کر لکھ رہے ہیں۔ اس نوع کی جانبدارانہ کالم نویسی سفید جھوٹ ہے۔ جھوٹ رزق کو حرام کر دیتا ہے اور ایسا پیشہ جس میں جھوٹ کے ذریعے رزق کمایا جائے اس کے لیئے سخت ترین عذاب ہے۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ جھوٹ پر مبنی ایسی تحریریں کسی کالم کے زمرے میں آتی ہوں۔ ایک اچھا کالم نویس وہ ہے جس سے ایک قاری آسانی سے اس کا مافی ضمیر پڑھے اور وہ آسانی ہی کے ساتھ اس سے مثبت طور پر استفادہ بھی کر سکے۔
کالم نویسی محض شہرت کا ذریعہ ہی نہیں، یہ اپنی اور دوسروں کی ذات کا فہم اور اصلاح کا باعث بھی ہے جس سے فوری ردعمل ملتا ہے۔ قارئین لکھنے والوں سے زیادہ فہم و ادراک رکھتے ہیں، اور اچھی تحریریں سمجھ بھی وہی سکتا ہے جس کا ذہنی معیار بلند ہوتا ہے، ماثواب و خیر الرازقین۔
Title Image by Pexels from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔