حقیقی پڑھا لکھا شخص

حقیقی پڑھا لکھا شخص


ہمارے محسن اور ہر دل عزیز پروفیسر فیصل جنجوعہ جو کہ ایک نامور ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی پایا کے کالم نگار بھی ہیں آپ آج کل ایفا سکول کے پرنسپل ہیں ۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے ان کے زیر سایہ بطور مدرس کام کیا ہے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے ان کا ایک کالم پڑھے لکھے اور جاہل میں فرق پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی اور درج ذیل کچھ سطریں انہی کے احترام میں لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں موضوع کے آغاز سے قبل ہی اپنی علمی کمی کا اعتراف بھی کر لوں ۔ آج ملک عزیز کو بنے ہوئے 75 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے آج ازادی کے وقت جیسے حالات نہیں ہیں تعلیم حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا اس وقت تھا ۔

ویسے بد قسمتی سے پاکستان میں آج تک کوئی تعلیم دوست حکومت نہیں آئی پھر بھی بہت سے گورنمنٹ سکولز ، کالج ، یونیورسٹیاں ، ٹیکنیکل ادارے موجود ہیں اس کے علاوہ نجی تعلیمی اداروں کی بھی بھرمار ہے جس میں لاکھوں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ پھر بھی میرا یہ سوال تمام نوجوان نسل اور ان کے قابل اساتذہ سے ہے کہ اگر ایک نوجوان 16 سالہ تعلیم مکمل کر لیتا ہے اور اس کی تعلیم اسناد گم جاتی ہیں یا وقتی طور پر اس کے پاس موجود نہیں ہوتی تو وہ کیسے ثابت کرے گا کہ وہ ایک پڑھا لکھا مہذب شخص ہے ایک عام آدمی کیا جانے معاشیات کیا ہوتی ہے ؟ یا عمرانیت یا حساب کیا ہے اس کی بلا سے ۔ وہ کیسے خود کو اس کشمکش سے نکالے گا کہ میں حقیقی طور پر ایک پڑھا لکھا شخص ہوں ایک دانا کا قول ہے کہ علم جیسے جیسے بڑھتا ہے ویسے ویسے عاجزی و انکساری پیدا ہوتی ہے ۔ علم سے انا اور تکبر کم ہوتا ہے برداشت کا مادہ بڑھتا ہے تعلیم سے انسان میں محبت اور ہمدردی جیسے جذبات فروخت پاتے ہیں اس کے برعکس جب ہم حقیقی زندگی میں دیکھتے ہیں تو اس کے متضاد چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں تعلیمی اداروں کے کہ باہر اور اندر طلبہ کا آپس میں جھگڑنا، اساتذہ اور والدین کے ساتھ ان کا رویہ 1092/1100 نمبر لینے والا بچہ 30کا سیکنڈ کے اشارے پہ نہ رک پانا ، وقت کی پابندی ، ہمدردی اور اخلاق سے عاری نوجوان آخر یہ کیسے بتا پائے گا کہ بغیر ڈگریوں کے بھی پڑھا لکھا ہے ؟ وہ کسی نے سچ ہی کہا تھا نہ کہ پڑھائی آپ کے عمل سے ظاہر ہو جاتی ہے ڈگری تو آپ کے والدین کو ان کے اخراجات پر تسلی دینے کے لیے بطور رسید دی جاتی ہے ایک ماہر تعلیم کا قول ہے کہ علم آپ کو عمل کی طرف نہیں کھینچ پا رہا تو یہ صرف معلومات ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین ، اساتذہ حکومت تعلیمی اداروں کے سربراہان بچوں کی ابتدائی عمر میں تربیت کی کوشش کریں اپنے عمل سے اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارا مستقبل محفوظ ہو اور ان کو بغیر کسی مشقت کے یہ ثابت کرنا نہ پڑے کہ وہ پڑھے لکھے ہیں اور وہ ڈگریوں کا محتاج نہ رہے آخر میں پروفیسر فیصل جنجوعہ اور تمام اساتذہ کی قدر توفیق کرے تاکہ ہم ان سے فیض حاصل کر سکیں۔

Title Image by Tumisu from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

محمد ذیشان بٹ

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں

Next Post

کالم نویسی کا فن

ہفتہ مئی 25 , 2024
اردو زبان کی نثر میں اخبارات اور جرائد کی حد تک کالم نویسی کو وہی مقام و درجہ حاصل ہے جو اردو شاعری میں غزل کو ہے
کالم نویسی کا فن

مزید دلچسپ تحریریں