ٹیکے والا تربوز

ٹیکے والا تربوز

گرمی وطن عزیز پر اپنے عروج پر ہے ۔ ہر شخص اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو اس کے اثرات سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے ویسے ایک بات آپ لوگوں کی خدمت میں عرض کر دوں کہ گرمی تخ ملنگا، زیرہ، سونف، آلو بخارا سے کم صرف ہمارے ہی ملک میں ہوتی ہے باقی دنیا اس راز سے شاید لا علم ہے جو درخت لگا رہی ہے بہرحال اس موسم میں تربوز کسی نعمت عظیم سے کم نہیں یہ ہمیں سورج کی شعاعوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ دل ، آنکھوں اور جلد کے لیے مفید ہے ۔ بلڈ شوگر جسم میں بڑھنے نہیں دیتا ۔ جسم کو پانی کی کمی سے بھی بچاتا ہے تربوز میں اینٹی آکسائیڈنٹس ،غذائی اجزاء اور فائبر وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں جو جسم کو صحت مند رکھنے کے ساتھ ساتھ وزن میں کمی کا سبب بنتے ہیں اس کا لال رنگ دیکھنے سے ہی راحت محسوس ہوتی ہے پر سوشل میڈیا کے دانشوروں کا کیا کریں جو بلا تحقیق کچھ بھی کہہ دیتے ہیں ہے اور اس کا زیادہ تر نشانہ غریب لوگ ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ صرف اپنے ویوز بڑھانے کے لیے کسی بھی مفید چیز بلا وجہ تنقید کرتے ہیں ان میں سے اکثریت کم علم لوگوں کی ہوتی ہے جن کو سمجھدار لوگ نظر انداز کر دیا کرتے ہیں لیکن حال ہی میں کسی نے ویڈیو میں مبینہ طور پر دعوی کیا کہ تربوز کو انجیکشن لگایا جاتا ہے جب کسانوں سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے تربوز کو کبھی انجکشن لگاتے دیکھا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہماری ساری زندگیاں کھیتوں میں گزر گئی ایسا تو ہم نے دیکھا نہ سنا ۔ اکثر کہتا ہوں کہ ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے . اگر یہ واقعہ کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوا ہوتا تو فورا اس بندے کو عدالت میں اپنے بیان کو ثابت کرنے کے لیے کہا جاتا ۔

حیرانی کی بات ہے کہ دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں نے بھی توجہ نہ دی جو ان خود ساختہ دانشوروں کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرتے ۔ الیکٹرانک میڈیا ماہرین کو بھی عوام کی آنکھیں کھولنے کی زحمت نہیں ہوئی کسانوں کا نقصان ہوتا رہا ان کی محنت پر پانی پھر گیا اور یہ عوام کے اتنے ہی خیر خواہ ہیں تو بجلی کے بل کم کروا دیں، کھاد کی قیمت کم کروائیں، دوائیوں کی قیمت کم کروائیں لیکن پتہ ہے نا وہاں مافیا ہے اس لیے لے دے کے تربوز ہی نظر آیا ۔ سوشل میڈیا کے بارے میں عوام کو سمجھنا چاہیے کہ یہ دانشور اس چوہے کی طرح ہے جو بند میں سوراخ کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتا کہ اس کی صرف اس ایک حرکت سے گاؤں کے گاؤں ڈوب جائیں گے ۔ اسی طرح کا ایک دانشور ایک گاؤں میں رہتا تھا ایک دن ایک شخص ایک بڑی اونچی جگہ پر چڑھ گیا یہاں سے اترنا ممکن نہیں تھا تو اس دانشور نے رسی پھینکی اور بولا کے کمر پہ باندھ لو اور نوجوان لڑکوں کو بولا زور سے کھینچو جیسے ہی لڑکوں نے زور لگایا وہ دھڑام سے زمین پہ آ گرا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ دانشور شرمندہ نہیں ہوا بلکہ بولا کہ اس کی قسمت میں لکھا تھا میں نے تو اسی طرح کئی لوگ کنویں سے باہر نکالے ہیں۔ عوام میں ذی شعور لوگ جیسے اساتذہ، علماء وکلا اور ایماندار صحافی ان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے عوام سوشل میڈیا پہ ٹرینڈ کو فالو نہ کریں اور تربوز اور اس طرح کے دوسرے پھلوں کو کھا کر اپنی صحت بڑھائیں کیونکہ ماہرین کے مطابق تربوز کو ٹیکہ نہیں لگایا جا سکتا بلکہ یہ لوگ عوام کو ٹیکہ لگا کر بیوقوف بناتے ہیں اور مال کماتے ہیں اسی لیے ان سے دور رہیں ۔ کھائیں پئیں اور خوش رہیں

Title Image by Microsoft Designer

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

محمد ذیشان بٹ

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں

Next Post

اٹک میں کانگو وائرس سے بچاؤ کے اقدامات

ہفتہ مئی 25 , 2024
ضلع بھر میں کانگو وائرس سے بچاو کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات شروع کر دیئے گئے ہیں ان خیالات کا اظہار
اٹک میں کانگو وائرس سے بچاؤ کے اقدامات

مزید دلچسپ تحریریں