شہدائے یونان اور قومی بے حسی کی انتہاء

1

شہدائے یونان اور قومی بے حسی کی انتہاء

Dubai naama

شہدائے یونان اور قومی بے حسی کی انتہاء

قیام پاکستان کے وقت 1947ء میں ہمارے بزرگوں نے ملک کے اندر ہجرت کرنے کے لئے جانی قربانیاں دی تھیں، 70 کی دہائی کے بعد سے آج تک ہم ملک سے باہر ہجرت کرنے کے لئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، جس کی تازہ ترین مثال یونان کے بحری جہاز کے واقعہ میں 298 پاکستانی نوجوانوں کی ہلاکت ہے جو روزگار کی تلاش میں یونان میں داخل ہونے کے لئے ڈنکی لگا رہے تھے۔

1970ء سے قبل تک پاکستانی معیشت مضبوط تھی۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ 1962 کے عشرے میں آج کے جاپان اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ترین ملک پاکستان کے مقروض تھے اور پاکستانی پاسپورٹ کا شمار دنیا کے مضبوط پاسپورٹس میں ہوتا تھا اور پاکستانی شہری برطانیہ سمیت بیشتر یورپی ممالک کا ویزا لیئے بغیر یا ویزا آن آرائیول سفر کر سکتے تھے۔ اس کے بعد پاکستان کو مغربی جمہوریت اور یکے بعد دیگرے تین مزید مارشل لاء کے تحائف ملے۔ آج ملک میں سیاسی غیر یقینیت، امن و امان کی عدم دستیابی، معیشت کی تباہ حالی، بے روزگاری اور بیرون ممالک پاکستانی شہریوں کے جرائم اور بدنامی کی بدولت 109 ممالک کے پاسپورٹوں کی عالمی درجہ بندی میں پاکستانی پاسپورٹ 106 نمبر پر ہے اور سب سے نچلے چار ملکوں میں شامل ہے۔ پاکستان کے بعد شام، عراق اور افغانستان ہیں، جب کہ یمن اور صومالیہ اس سے اوپر ہیں۔
انڈیکس میں پاکستانی پاسپورٹ افریقہ کے پسماندہ ترین ملک صومالیہ سے بھی نیچے کمزور ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ جہاں پاکستان، افغانستان، عراق، شام، یمن، فلسطین، نیپال، لیبیا، شمالی کوریا، سوڈان، لبنان، کوسوو اور ایران کی صف میں 77ویں نمبر پر کھڑا ہے جہاں کے شہری 32ممالک میں ویزا فری یا ویزا آن آرائیول (Visa on Arrival) کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں جبکہ اس انڈیکس میں بھارت اور بنگلہ دیش کے پاسپورٹ کا رینک پاکستان سے بہتر ہے جن کا درجہ بندی میں بالترتیب 61واں اور 72واں نمبر ہے جہاں کے شہری 60ممالک کے ویزا فری یا ویزا آن آرائیول سفر کی سہولت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

پاکستانی پاسپورٹ کی ساکھ سوویت افغان جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوئی جس کے بعد لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان آئے اور انہوں نے رشوت کے عوض پاسپورٹ حکام سے پاکستانی پاسپورٹس حاصل کئے۔ نادرہ کے سربراہ کو اس واقعہ سے پہلے اسی طرح کے غیر قانونی پاسپورٹ وغیرہ جاری کرنے کے الزامات میں نیب نے گرفتار کیا تھا۔ یہی کچھ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں نے کیا جو بیرون ملک غیر قانونی طور پر جب پکڑے جاتے تو انہیں پاکستانی تصور کیا جاتا اور اس طرح پاکستانی پاسپورٹ دنیا بھر میں بدنام ہوا جبکہ رہی سہی کسر ان غیر قانونی طور پر انسانی سمگلنگ میں ملوث پاکستانی ایجنٹوں نے پوری کر دی جن کے مکروہ اور انسانیت سوز کرتوتوں کی وجہ سے چند روز قبل یونان میں کشتی ڈوبنے کا واقعہ پیش آیا۔

یورپ یونان کے ساحلوں پر پیش آنے والے اس واقعہ میں شہید ہونے والے 700 افراد میں سے تقریبا سارے افراد مسلمان تھے اور یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ 1990 اور 2013 سے لے کر 2021 تک عرب سپرنگ کے احتجاج، شام، لیبیا اور عراق وغیرہ کی خانہ جنگی سے متاثرہ معصوم اور مصیبت زدہ 26000 مسلمان تارکین وطن اس نوع کے واقعات میں لقمہ اجل بن چکے اور ایسے انسانیت سوز بحرانوں کے خاتمے کے لئے مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی!

اس واقعہ پر پاکستانی حکومت نے ‘یوم سوگ’ کا اعلان تو کیا اور عوامی ردعمل سے بچنے کے لئے کچھ ہیومین ٹریفکنگ کے مجرموں کی گرفتاریاں بھی کیں مگر بہتر ہوتا کہ حکومت ‘یوم فکر’ مناتی اور یہ سوچا جاتا کہ آخر ایک سال میں 10 لاکھ سکلڈ افراد ملک چھوڑنے اور باہر ‘ہجرت’ کرنے پر کیوں مجبور ہوئے اور باقی اس تاڑ میں کیوں بیٹھے ہیں کہ جیسے تیسے کر کے ایجنٹوں کو پیسے دے کر موت خرید لی جائے مگر پاکستان سے زندہ بچ کر بھاگ لیا جائے!

آخر! جانی قربابیوں کی ہماری یہ ‘ہجرت’ کب تک جاری رہے گی؟

اس ظالمانہ اور مکروہ دھندے میں سب سے زیادہ ذمہ داری اس بیوروکریسی اور ان اداروں کے اہلکاروں پر عائد ہوتی ہے جو نہ صرف بھاری رشوت کے عوض انسانی سمگلروں کے سہولت کار بنتے ہیں بلکہ ان میں سے بہت سے خود اس کاروبار کے ساتھ براہ راست وابستہ ہوتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ان مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں تو ان جرائم کی شرح صفر نہ سہی لیکن دو تین فیصد سے زیادہ باقی نہیں رہے گی۔

لیکن

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا،
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا!

اطلاعات ہیں کہ یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں ہزاروں یونانی باشندوں نے انسانی سمگلنگ کے اس واقعہ میں مرنے والوں کے حق میں جلوس نکالے جس میں مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔ ان احتجاج کرنے والوں کا موقف تھا کہ حکومت مرنے والوں کی تعداد کم بتا رہی ہے اور کشتی میں مرنے والوں کو کمک پہنچانے میں سستی کی گئ اور بروقت امدادی کاروائی ہو جاتی تو اتنی انسانی جانیں سمندری مچھلیوں کی خوراک نہ بنتیں۔ یونان میں حکومت نے تین دن کے سوگ کا اعلان کیا۔ حتی کہ اس واقعہ سے پورے پورپ میں صف ماتم بچھ گئ مگر پاکستان کے شہروں گوجرانوالہ اور گجرات جہاں کے بیٹے اس واقعہ میں شہید ہوئے وہاں مجرمانہ خاموشی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر کیئے جانے والے تبصروں میں غم میں مبتلا والدین سے ہمدردی کرنے کی بجائے لوگ انہیں اس واقعہ کا مجرم ٹھہرا رہے ہیں۔۔۔!!!

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

One thought on “شہدائے یونان اور قومی بے حسی کی انتہاء

Comments are closed.

Next Post

ارشاد احمد حقانی کی خودنوشت کہاں ہے؟

منگل جون 27 , 2023
ارشاد احمد حقانی صاحب ایک صاحب بصیرت شخصیت تھے، ان کے سماجی اور سیاسی حرکیات پر مشتمل کالم ‘حرف تمنا’ کے بغیر اخبار ادھورا لگتا تھا۔
ارشاد احمد حقانی کی خودنوشت کہاں ہے؟

مزید دلچسپ تحریریں