پاکستان سے “ذہانت کا انخلا” کیسے روکا جائے؟

پاکستان سے “ذہانت کا انخلا” کیسے روکا جائے؟

Dubai Naama

پاکستان سے “ذہانت کا انخلا” کیسے روکا جائے؟

کل دو پروگرامز تھے۔ پہلا پروگرام سابق گورنر چوہدری محمد سرور اور دوسرا پروگرام مشہور صحافی سہیل وڑائچ کے اعزاز میں تھا۔ پہلا پروگرام دبئ جمیرا روڈ پر ہوا جس کے میزبان خود چوہدری محمد سرور تھے۔ انہوں نے سمندر پار پاکستانیوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے “گرانڈ اوور سیز کلب” (GOC) کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے۔ بقول چوہدری محمد سرور اس تنظیم کے 131 ممالک میں دفاتر ہیں۔ یہ پروگرام بنیادی طور پر ایک لنچ پارٹی تھی، جس میں کھانے سے پہلے دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں کے مسائل اور حل کو ڈسکس کیا گیا۔ اس پروگرام میں تنظیم کے صدر ملک منیر اعوان، تنظیم کے بانی چوہدری محمد سرور اور راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ دوسرا پروگرام شام 6 بجے پاکستانی برٹش سجاد احمد کے گھر جمیرا پارک میں منعقد ہوا۔ ان دونوں پروگرامز میں شرکاء کے تاثرات سن کر یہ احساس ہوا کہ دیار غیر میں بسنے والی پاکستانی کمیونٹی جہاں اپنے وطن کے لئے فکرمند ہے وہاں اسے پاکستان میں بہت زیادہ مسائل کا بھی سامنا ہے!

ہر سال سمندر پار پاکستانی تقریبا 25 بلئین ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں، لیکن اس کے بدلے میں سمندر پار پاکستانیوں کو حکومت پاکستان جو سہولیات دیتی ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ اس وقت روزگار کے سلسلے میں 11 ملئین سے زیادہ پاکستانی دنیا کے تقریبا 150 مختلف ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ دیار غیر میں جانے والے یہ محب وطن شہری کن مشکلات اور جان جوکھوں والے مصائب کا سامنا کرتے ہیں اس کا اندازہ حال ہی میں یونان کے ساحلوں میں ڈوبنے والی کشتی سے لگایا جا سکتا ہے جس میں کم و بیش 400 نوجوان پاکستانی شہری شہید ہو گئے تھے۔

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کے لئے بیرونِ ملک مقیم شہری ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ صرف کرونا وائرس کے دوران اقتصادی مسائل سے دو چار پاکستان کے سمندر پار مقیم شہریوں نے 29 ارب ڈالر بھیجے تھے جو کہ استحکام معیشت کے لئے ایک ریکارڈ ترسیلاتِ زر تھی مگر اسی دوران اوورسیز پاکستانیوں کی شکایات میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا تھا جس کو پنجاب میں بیرونِ ممالک مقیم پاکستانیوں کی شکایات کے ازالے کے لیے کام کرنے والے ادارے ’پنجاب اوورسیز پاکستانیز کمیشن‘ نے بھی تسلیم کیا تھا جس دوران ایک سال میں 6000 سے زائد درخواستیں نمٹائی گئی تھیں جن میں سے زیادہ تر درخواستیں (تقریبا 99%) جائیدادوں پر قبضے کے بارے میں تھیں جبکہ یہی شکایات بڑھ کر اس سال دگنی سے زیادہ ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں لینڈ مافیا بہت فعال اور طاقتور ہے جس کے سامنے حکومتیں بھی بے بس ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لیے پنجاب اوورسیز پاکستانیز کمیشن 2014 سے کام کر رہا ہے جس کی بنیاد مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں شامل موصوف گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے رکھی تھی جو خود بھی اوورسیز پاکستانی ہونے کی حیثیت سے مسائل کو بہتر سمجھتے ہیں۔

پاکستان سے “ذہانت کا انخلا” کیسے روکا جائے؟
Image by Kris from Pixabay

کمیشن کی کارکردگی اور اعداد و شمار کے مطابق 2014 سے جون 2021 تک سات برس کے دوران 23 ہزار 800 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 14 ہزار 755 شکایات کا ازالہ کیا گیا۔ جب کہ لگ بھگ 9000 شکایات ابھی بھی کمیشن کے پاس موجود ہیں جو بوجوہ زیرِ التوا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی زمینوں اور گھروں پر قبضے کے لیے جعل سازی سے نقلی کاغذات تیار کیے جاتے ہیں اور زمینوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ اوورسیز پاکستانی ملک سے باہر اس ساری صورتِ حال سے لاعلم ہوتے ہیں۔ دوسری جانب کوئی عام شہری نقلی کاغذات پر جائیداد خرید لیتا ہے اور پھر دونوں ایسے افراد آپس میں قانونی معاملات میں الجھ جاتے ہیں جنہیں قبضہ گروہ نے دھوکا دیا ہوتا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں ایک سال کے دوران 13 ارب سے زائد مالیت کی جائیدادیں وا گزار کرائی گئیں۔ اس مد میں حکومت پاکستان نے ایک پورٹل قائم کر رکھا ہے جس میں سمندر پار پاکستانی درج ذیل پتہ opc.punjab.gov.pk پر اپنی درخواستیں رجسٹر کروا سکتے ہیں۔

پاکستان سے سمندر پار جانے والے لوگوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک غربت اور روزگار کی تلاش میں باہر جاتے ہیں اور دوسرا وہ طالب علم باہر جاتے ہیں جو بیرون ملک میں اعلی تعلیم کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں یا جنہیں امیر اور ترقی یافتہ ممالک مثلا امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، آسٹریلیا اور سوئٹزرلینڈ وغیرہ مفت تعلیمی وظائف دیتے ہیں۔ ان مغربی ممالک میں سٹوڈنٹ ویزے پر عموما وہ طالب علم جاتے ہیں جو ذہین و فطین ہوتے ہیں اور جو ہماری عقل و دانش کے حوالے سے کریم کا درجہ رکھتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ طلباء اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس نہیں لوٹتے ہیں کیونکہ پاکستان میں انہیں ان کی ذہانت کا صحیح معاوضہ نہیں ملتا ہے۔ یہ ایک قسم کا پاکستان سے ذہانت کا اخراج ہو رہا ہے جسے آپ انگریزی زبان میں “Brain Drain” بھی کہہ سکتے ہیں جو جب سے شروع ہوئی ہے آج تک نہیں رکی ہے۔

ان دونوں پروگرامز میں احقر نے اس طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ تجویز پیش کی کہ اوور سیز پاکستانیز اور خصوصی طور پر ان جینئس طلباء کو اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر نمائندگی دی جائے تاکہ جہاں ملک سے ذہانت کے اس اخراج کو روکا جا سکے وہاں اس نمائندگی سے ان سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کا ازالہ بھی براہ راست ممکن بنایا جا سکے۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

کیمپبلپور سے ملے خاروشتی نوادرات

پیر جولائی 17 , 2023
آج سے ہزاروں لاکھوں سال قبل یہ علاقے ایسے نہ تھے یہاں مختلف قومیں آباد تھیں ان کی اپنی زبان اور تہذیب تھی عادات و اطوار تھے جو آج کے
کیمپبلپور سے ملے خاروشتی نوادرات

مزید دلچسپ تحریریں