ارشاد احمد حقانی کی خودنوشت کہاں ہے؟
دلآویز انداز کی معروف کالم نگار، شاعرہ اور ادیبہ سعدیہ قریشی کی ایک کتاب قلم فاو’نڈیشن، لاہور نے ‘کیا لوگ تھے’ کے عنوان سے شائع کی ہے۔سعدیہ قریشی خوبصورت نثر لکھنے والی صاحب مطالعہ مصنفہ ہیں۔زیرنظر کتاب کا بڑا حصہ پاکستان کے سماجی و ادبی مشاہیر کے بارے میں لکھے گئے ان کے دل گداز کالموں پر مشتمل ہے جن میں جنید جمشید، طارق عزیز، عبدالستار ایدھی، ضیا محی الدین، نیرہ نور، بشریٰ رحمن، بانو قدسیہ، احمد فراز، امجد اسلام امجد اور اشتیاق احمد وغیرہ سرفہرست ہیں، جس میں انہوں نے اپنی کچھ پرانی مگر سدا بہار تحریروں کا اضافہ بھی کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں مرحوم ارشاد احمد حقانی کے بارے میں ایک دلچسپ انکشاف یہ کیا ہے کہ انہیں اپنی موت کے بارے میں قبل از وقت علم ہو گیا تھا۔ ارشاد احمد حقانی روزنامہ ‘جنگ’ کے ایڈیٹر تھے اور سعدیہ قریشی ان کی اسسٹنٹ تھیں اور اسی اخبار کے لئے کالم بھی لکھتی تھیں۔ انہوں نے یہ واقعہ ایک چشم دید گواہ کے طور پر لکھا ہے۔ سعدیہ قریشی لکھتی ہیں کہ، ممتاز صحافیوں کے حوالے سے ایک بڑی تقریب مارچ میں رکھی جا رہی تھی۔ حقانی صاحب نے ان کو بتایا کہ وہ منتظمین کو آگاہ کر دیں کہ وہ اس تقریب کے لئے ان کا نام مہمانوں کی لسٹ میں شامل نہ کریں کیونکہ وہ مارچ سے پہلے دنیا سے چلے جائیں گے۔ ارشاد احمد حقانی اپنے قریبی دوستوں سے اکثر ایسی باتیں کرتے تھے، سننے والے حیران ہوتے تھے مگر حقانی صاحب مسکرا کر خاموش ہو جاتے تھے۔ انہوں نے اپنی ذاتی لائبریری کی بیشتر کتابیں دوستوں میں تقسیم کر دیں، حتیٰ کہ انہوں نے اپنے کپڑے وغیرہ بھی مختلف جاننے والوں میں بانٹ دیئے۔ یہاں تک کہ ارشاد احمد حقانی صاحب نے اپنی معاون خصوصی کی ایک معاصر اخبار میں جاب کا انتظام بھی کروا دیا تھا۔ انہوں نے سعدیہ قریشی کی تحریروں کے حوالے سے ایک تحریر بھی لکھ کر انہیں دی تھی کہ جب وہ اپنے کالموں کے مجموعہ پر مبنی کتاب شائع کروائیں تو وہ اسے بھی اس میں شامل کر لیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اپنے خیال اور کہی ہوئی بات کے عین مطابق حقانی صاحب 24 جنوری کو انتقال کر گئے! اس وقت ارشاد احمد حقانی مرحوم نے یہ بھی کہا تھا کہ جب یہ کتاب شائع ہو گی تو وہ اس دنیا میں نہیں ہونگے اور واقعی جب سعدیہ قریشی کی یہ کتاب چھپی ہے تو ارشاد احمد حقانی اس دنیا میں نہیں ہیں!!!
سعدیہ قریشی نے اپنی اس کتاب میں ایک نئی بات یہ لکھی ہے کہ حقانی صاحب اپنی خودنوشت تحریر کر چکے تھے۔ لیکن افسوس ہے کہ ان کی وفات کے بعد ابھی تک کسی پبلشر نے ان کا یہ مسودہ کتابی شکل میں شائع نہیں کیا ہے۔ ارشاد احمد حقانی کی خود نوشت یقینا پڑھنے سے تعلق رکھتی ہو گی۔ دنیا میں ایسی بہت سی مشہور شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اپنی موت کی پیش گوئی کی اور اپنی وفات کی تاریخ پہلے ہی بتا دی، جس میں سابق امریکی صدر ابراہیم لنکن، مشہور مصنف اور فلاسفر مارک ٹوئین، نامی گرامی ادیبوں، اداکاروں اور گلوکاروں سمیت باب مورلے، فرینک پاسٹور، مائیک ویلش اور آرنلڈ شون برگ وغیرہ سرفہرست ہیں، جبکہ لیڈی ڈیانا پرنسز آف ویلز نے بھی اپنی ڈائری میں 2003 میں ایک ڈراونا خواب دیکھنے کے بعد خود لکھا تھا کہ ان کے خاوند ایک کار حادثے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس میں کار کی بریکس فیل ہو جاتی ہیں اور ان کے سر میں چوٹیں آتی ہیں جس کے بعد وہ فوت ہو جاتی ہیں، ڈیانا نے یہ واقعہ ایک نوٹ کی شکل میں لکھ کر اپنے بٹلر کو دیا تھا جس کے چند ہی سال بعد وہ فرانس کے ایک ٹنل کے کار حادثے میں واقعی ہلاک ہو گئیں تھی۔ دنیا میں اس قسم کے مافوق الفطرت واقعات انسانوں کی زندگیوں میں پیش آتے رہتے ہیں جن کے دوران عام انسانوں کو مستقبل میں اپنے بارے میں ہونے والے واقعات سے الہام یا چھٹی حس وغیرہ کے زریعے آگاہی حاصل ہو جاتی ہے۔ زندگی اور موت ابھی تک سائنس کے لئے ایک لاینحل معمہ ہیں۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ، ‘کسی انسان کو دنیا سے اس وقت تک نہیں اٹھایا جاتا جب تک اس کی زندگی کا مقصد پورا نہیں ہو جاتا ہے۔’ یوں بعض پہنچے ہوئے انسانوں کو اپنی موت کا پہلے ہی ادراک ہو جاتا ہے! ارشاد احمد حقانی کی خود نوشت یقینا پڑھنے کے قابل ہو گی جسے کسی پبلشر کو ضرور شائع کرنا چاہئے۔
ارشاد احمد حقانی صاحب ایک صاحب بصیرت شخصیت تھے، ان کے سماجی اور سیاسی حرکیات پر مشتمل کالم ‘حرف تمنا’ کے بغیر اخبار ادھورا لگتا تھا۔ ہماری ایک نسل ارشاد احمد حقانی کو پڑھ کر جوان ہوئی ہے۔ حقانی صاحب اپنی ذات میں ایک اکیڈمی تھے جو اپنے کالموں سے بچوں کی طرح پیار کرتے تھے۔ ارشاد احمد حقانی صاحب انتہائی سادہ، نفیس، نرم دل اور شریف النفس طبیعت کے مالک انسان تھے۔
ایک دفعہ میں ابرارالحق نامی ایک ابنارمل اور گم شدہ آدمی کو ان کے دفتر لے کر گیا۔ ایڈیٹر حضرات اس دور میں بھی اپوائنٹمنٹ کے بغیر عام اور ناواقف لوگوں کو نہیں ملتے تھے۔ لیکن وہ خود میٹنگ روم میں آئے، کیمرہ مین اور فیچر رائٹر کو بلایا اور اگلے ہی روز یہ سٹوری اخبار میں چھپ گئ، جس کے بعد اس آدمی کو اس کے لواحقین گھر لے گئے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ مرحوم ارشاد احمد حقانی صاحب اپنے انتقال والی پوری رات بلند آواز کے ساتھ آیت کریمہ پڑھتے رہے تھے اور صبح یہی ورد کرتے ہوئے وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے، اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔
چه خوش رسمی بنا کردند به خاک و خون غلتیدن،
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔