قلم کار خاتون صبا ممتازبانو سے گفتگو

قلم کار خاتون صبا ممتازبانو سے گفتگو

سوال : ایک قلم کار خاتون کو معاشرے میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔؟

جواب : عورت اللہ کی خاص جبکہ قلم کار خاتون تو اللہ کی خاص الخاص مخلوق ہے کیونکہ تخلیق کا وصف اللہ نے منتخب لوگوں میں ودیعت کیا ہے۔ عورت بچے کو جنم دیتی ہے، اسے پالتی پوستی اور سنبھالتی ہے ۔ وہ تو قدرت کی طرف سے بنی بنائی تخلیق کار ہے جو تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ اسے سجانا اور سنوارنا بھی جانتی ہے ۔

 عام گھریلوخواتین کو معاشرے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ قلم کار خاتون کے لیے توکوہ گراں ہیں  ۔سچ تو یہ ہے کہ تمام شعبۂ ہائے زندگی کی خواتین مختلف محاذوں پر مختلف النوع مسائل کا سامنا کررہی ہیں ۔ قلم کار خواتین لکھنے کی خوبی کے ساتھ معاشرے میں اپنا نام او ر مقام بنانے کے لیے نکلتی ہیں تو ادب میںبالادست افراد کو یہ ہضم نہیں ہوتا۔ بالادست طبقے میں خود کو ادب کے ٹھیکے دار سمجھنے والے مرد ادیب نمایاں ہیں ۔ان کے ساتھ وہ خواتین بھی شریک ہیں جو کہ کسی بھی ہم عصر خاتون کو آگے جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی ہیں۔وہ اسے کچلنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔ اسے آگے نہیں آنے دیا جاتا ۔ا چھی بھلی تحریر میں بھی کیڑے نکالے جاتے ہیں۔ اس میں وہ نقاد اور اساتذہ سر فہرست ہیں جن کا اپنا اچھا لکھا کبھی سامنے نہیں آیا۔وہ صرف او ر صرف اپنی انگریزی سے مستعار لی ہوئی تنقیدی بصیرت پر اکڑتے اور شور مچاتے ہیں۔ان کی چرب زبانی کی وجہ سے خواتین کی بہت حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

دوسرا گروہ  وہ ہے جو کہ عورت کی مو جودگی میں واہ وا ہ کر رہا ہوتا ہے مگر پیٹھ پیچھے اس پر فقرے کستا ہے ۔ کبھی ا س کے کام اور کبھی اس کی ذات کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔تیسرا گروہ وہ ہے جو شہرت کی شائق خواتین کا راستہ دیکھ رہاہوتا ہے۔اب ایسے تمام گروہوں کے مردوں میں ان خواتین کو اچک لینے کی مقابلہ بازی شروع ہو جاتی ہے ۔پھر اس خاتون میں کوئی خوبی ہو یا نہ ہومگر ان کی پوری کو شش ہوتی ہے کہ یہ اس کی خوشامد کریں اور صلے میںاس کی گود میں جا بیٹھیں یا پھروہ خود ہی اس کو گود میں بٹھا لیں۔ اب ان کا حربہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو شہرت کا لالچ دیا جاتا ہے ۔ اپنی لابی کا حصہ بنایا جاتا ہے ۔ اس کی مشہوری کے لیے نہ صرف اسے جرائد میں چھپوایا جاتا ہے بلکہ مختلف پروگرامز کا حصہ بھی بنانے کے لیے کو شش کی جاتی ہے تاکہ یہ خاتون ان کے ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ یہ چکر چلتا ہی رہتا ہے ۔ادب میں اس غاصب طبقے میں باکردار یعنی شریف خواتین کو اپنانام و مقام بنانے کے لیے بہت جدوجہد کرنا پڑتی ہے ۔اگر وہ اپنی محنت اورصلاحیت سے اپنانام بنا بھی لے تو یہ لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے اور دوسروںکو بھی اسے تسلیم کرنے نہیں دیتے ۔ یہ ایک منظم مہم ہوتی ہے جوکہ ان خواتین کے خلاف چلائی جاتی ہے ۔ان کا ایک ہی مقولہ ہوتا ہے کہ پاس آئے گی توپھل بھی ملے گا۔‘‘

قلم کار خاتون صبا ممتازبانو سے گفتگو

سوال: بعض خواتین کے شعر یا افسانے میں مرد بے زاری بہت نمایاں ہے ۔کیا یہ رویہ درست ہے ۔ مرد بیزاری کے اسباب کیا ہو سکتے ہیں۔؟

جواب : عورت بہت حساس مخلوق ہے ۔ اس کی دنیا محبت و تقدس کے نرم و نازک اور ریشمی دھاگوں سے بنی ہوتی ہے۔جب کو ئی ان دھاگوںکو توڑ دیتا ہے تو اس کے سارے خواب یا توقعات زمین بوس ہو جاتی ہیں ۔ پھر اس کی نگاہ میں وہی شخص مجرم بن جاتا ہے جسے وہ عزت دے رہی ہوتی ہے یا محبت کر رہی ہوتی ہے۔یہ شخصیات کوئی بھی ہوسکتی ہیں۔ اس کی عزیز ہستیاں یا اس کے دوست احباب یا پھر اس معاشرے کے وہ سرکردہ افراد جو اس کی نگاہ میں بہت محترم ہوتے ہیں۔مخالف جنس کے ساتھ لگائو بھی ایک فطری بات ہے ۔ محبوب سے چوٹ کھائی ہوئی عورت تو ایک ستم رسیدہ مخلوق ہوتی ہے جس کے دل میں ہزاروں چھید ہوتے ہیں۔اس لیے بعض خواتین کے ہاں مرد بیزاری بہت نمایاں ہے ۔مرد بیزاری کے اسباب میں مرد کی بے وفائی ، بے توجہی ، بے رخی ،ہرجائی پن، عدم برداشت ، نظر اندازی اور خیال نہ رکھنا ہے جس کی وجہ سے عورت کا دل ٹوٹ جاتا ہے ۔ا س کی دنیا میں دکھوںکا ایک پل بن جاتا ہے ۔ وہ روز اس پل پر کھڑی ہوتی ہے اور چھلانگ لگا دیتی ہے ۔ یہی مردم بیزاری اس کی تخلیق میں ابھر آتی ہے ۔ ہر عمل کاکوئی ردعمل تو ہوتا ہے ۔ مرد چونکہ اعصابی طور پر ایک طاقت ور مخلوق ہے ۔ وہ بیک وقت کئی عورتوں سے محبت بھی کر سکتا ہے اور شادی بھی ۔بہت کم مرد ایسے ہو تے ہیں جو کہ وفا کو نبھاتے اور اس کی قدر بھی کرتے ہیں۔

اکثر مردوں کی نگاہ میں وفا کی بھی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور وہ بے وفائی کو بھی جلدبھول جاتے ہیں ۔وہ اتنے حساس ہوتے ہیں اورنہ ہی اتنے جذباتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان دو مخالف جنسوںکے ردعمل مختلف ہوتے ہیں کیونکہ واقعات، سانحات اور حادثات کے اثرات ان پر یکساں نہیں ہوتے ۔ اس لیے اس کے اندر مرد بیزاری کا رویہ ابھرتا ہے ۔اپنی تخلیقات میں مرد بیزاری کا رویہ اس کی شعوری کو شش سے زیادہ لاشعوری ہوتا ہے کیونکہ اس کی ذات میں دکھ پنپ رہاہوتا ہے ۔ اس کا اخراج وہ اس صورت میں کرتی ہے لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ صرف تخلیقات میں ہے ۔ عملی زندگی میں عورت کے اندر محبت کا ایک سمندر مو جزن ہے جس میں سب سے زیادہ جگہ مردوںکے لیے ہی ہوتی ہے ۔ان میں اس کے باپ ، بھائی ، شوہر ، بیٹے اور دوست احباب تیر رہے ہوتے ہیں اور وہ ان کو دیکھ دیکھ کرخوش ہو رہی ہوتی ہے۔اس کے گِلے او ر شکوے شکایتیں بھی دراصل اس کی محبت کی علامت ہوتے ہیں۔اس کی بیزاری کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ جب مردا س کے معیار پر پورا نہیں اترتے تو وہ ان کو اپنے دل سنگھاسن سے دھکا دیتی ہے اور خود بھی مایوسیوں کی اتھا ہ گہرائیوںمیں ڈوب جاتی ہے ۔ یہی مایوسی بیزاری بن کر اس کے قلم سے نکلنے لگتی ہے ۔ٹوٹے ہوئے دلوں سے بددعا نکلتی ہے یا آہ وفغاں ۔

سوال:  بعض ناقدین کا خیال ہے کہ امرتا پریتم ، قرۃ العین ، عصمت چغتائی ، پروین شاکر ، کشور ناہیدو غیرہ جیسی خواتین کی شہرت خواتین ہونے کی وجہ سے ہے ۔

جواب :  جب ہم معتبر خواتین قلم کاروں کی صلاحیت کو جھٹلا تے ہیں تو دراصل یہ تعصب کی ایک بدترین مثال ہے ۔ اس معاشرے میں باصلاحیت قلم کار تو ویسے ہی بہت کم ہیں، مستزاد ان کی فنی صلاحیتوںکو مشکوک کیا جائے ۔ میں تو اس طرح کی آراء کو بھی خواتین قلم کاروں کی بیخ کنی ہی سمجھتی ہوں جن کامقصد  ان کیمعتبریت کو نقصان پہنچانے کے علاوہ اورکچھ نہیں ۔ یہ وہی لو گ ہوتے ہیںجو عورت کے نام و مقام سے خار کھاتے ہیں۔ ادب کے شعبے میں بھی ان کو ان کا جائز مقام دینے کے لیے تیار نہیں۔

ادب میں خواتین قلم کاروںکی ایک منفرد شناخت ہے ۔ یہ کئی مرد ادیبوں سے آگے کھڑی ہیں ۔قرۃ العین ، عصمت چغتائی ، خدیجہ مستور ، جمیلہ ہاشمی ، رضیہ فصیح احمد، الطاف فاطمہ ، خالدہ حسین  اور کئی معتبر نام اردو ادب کا بہترین حوالہ ہیں۔بیسیویں صدی کے وسط میں پہلی ناول نگار رشیدہ النسا کے ذکر کے بغیر افسانوں اور ناولوں کی دنیا ادھوری رہتی ہے۔ عصمت چغتائی کا ناول ٹیڑھی لکیراور قرۃ العین کا ناول آگ کا دریا اردو کے اہم ترین فن پارے ہیں۔ پوسٹ ماڈرن فیمنسٹ نقادوںکے مطابق جن میں ژوبیا کرسٹیوانمایاں ہیں، آگ کے دریا کو تصور وقت کی بہترین مثال قرار دیتی ہیں۔خدیجہ مستور کے آنگن ، جمیلہ ہاشمی کے ناول تلاش بہاراں ، رضیہ فصیح احمد کے آبلہ پااور الطاف فاطمہ کے ناول دستک نہ دو  ،کو بھی ہم ادبی منظر نامے پر نظر انداز نہیں کر سکتے ۔یہ ناولز علامت اور واقعہ نگاری کے امتزاج کے ساتھ معنی اور کیفیت کی سطح پر قاری کو متاثر کرتے ہیں۔

صبا ممتاز
صبا ممتاز

قرۃ العین کا قددنیائے ادب کے رائٹرز میں بہت اعلیٰ ہے ۔ان کے سبھی ناولوں میں او ر کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد جھلکتا ہے ۔ ایسا ہونا فطری بھی ہے ۔ وہ بھی ان فسادات کے دوران پاکستان آئیں مگر جب ۱۹۵۹ میں انہوں نے اپنا ناول آگ کا دریا لکھا جو کہ ان فسادات کے پس منظر میں تھا تو ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا ۔انہوں نے بھارت کو واپسی کی راہ لی اور وہاں بطور ادیب اور صحافی کام بھی کرتی رہیں۔ان کی کتب کی تعداد تیس سے زائد ہے ۔ ان کی کتب کا انگریزی اور اردو میں ترجمہ بھی ہوا۔ان کے دو ناولوں ، ’’ آگ کا دریا  اور ’’ آخر شب کا ہم سفر ‘‘ کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے ۔

آخر شب کے ہم سفر میں انہیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی اعزاز  ’’ گیان پیتھ ‘‘  سے نوازا گیا۔ انہیں ۱۹۸۵ میں  پدم شری اور ۲۰۰۵ میں پدم بھوشن جیسے اعزازات سے بھی نوازا گیا ۔ وہ بجا طور پر ان اعزازات کی حق دار تھیں۔قرۃ العین کے ناول آگ کے دریا کا گوتم ایک ایسی بے چین روح ہے جو کہ آج بھی گیان کے متلاشی انسانوںمیں متحرک ہے ۔وقت کے بپھرے ہوئے سمندر کا یہ ایک آفاقی کردار ہے ۔

ناقدین کی آرا میںان کے ناول میں شعور کی رو کی تکنیک کو استعمال کیا گیا  ہے ۔ دراصل یہ ولیم جیمز کی اصطلاح ہے کہ انسان کا ذہن ایک سیال چیز کی مانند ہے کہ جس میں خیالات بے ترتیب ابھرتے ہیں اور مصنف اسی انداز میں کوئی تخلیق کرتا ہے ۔ ان خیالات میں کو ئی منطقی ربط نہیں ہوتا۔

بہر حال برصغیر کے کلچر، رسوم رواج ، رہائشیوںکی بودو باش ، نفسیاتی پیچیدگیوں اور ناول نگار کی ذات سے کائنات تک کی جستجو کو اس ضخیم فن پارے میں سمو دیا گیا ہے ۔

بانو قدسیہ اور راجہ گدھ کو ہم ادبی منظر نامے میں ایک عمدہ ناول کے طور پر شناخت کرتے ہیں۔ راجہ گدھ لاہور شہر کی روح اور جسم کو بیان کرتا اور اس کا اطلاق مرد کی نفسیا ت سے نتھی کرتا ہے ۔

 بانو قدسیہ کی تخلیق پر شکوک تک کا اظہار کیا گیا اور اس ناول کو اشفاق احمد کی تخلیق سمجھا گیا ۔اس سے بڑی بھی کوئی خاتون تخلیق کار کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔

شاعری میں پنجابی زبان کی نامور شاعرہ امرتا  کا پہلا شعری مجموعہ سولہ سال کی عمر میں سامنے آیا ۔امرتاپریتیم مسلمہ شاعرہ ، ادیبہ او ر افسانہ نگار نے سو سے زائد کتابیں لکھیں ۔ وہ بھارتی ایوان بالا کی رکن بھی رہیں۔ انہوں  نے ادبی خدمات کے صلے میں پدم شری ایوارڈ،،ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ اور پنجابی زبان کے لیے گیان پیتھ ایوارڈ حاصل کیا ۔۱۹۸۶میں راجیہ سبھا کے لیے بھی نامزد ہوئیں۔ ان کی بیشتر کتابوں کے تراجم بھی ہو چکے ہیں۔ گوگل نے امرتا کے اعزاز میں ڈوڈل بھی بنایا ۔

اج آکھاں وارث شاہ نوں

کتھوں قبراں وچوں بول

تے اج کتاب عشق دا

کوئی اگلا ورقہ پھول

تنقید میں ممتاز شیریں اچھی افسانہ نگارا ور افسانو ی ادب کی بڑی نقاد ہیں۔انہوں نے تنقید میں نئے موضوعات پر قلم اٹھایا ۔ منفی حیثیات ، وجودی نقطۂ نظر اور مغربی رحجانات پوری تفہیم کے ساتھ ان کے مو ضوعات ہیں۔ ان کی تنقید نے اردو ادب میں نئے دریچے کھولے ۔ وہ اردو ادب کی پہلی نقاد ہیں جن کے یہاں عالمی وژن ملتا ہے ۔ کشور ناہید اپنے معیاری کام کی وجہ سے سامنے آئیں ۔ ان کو آدم جی ایوارڈ، یونیسکو پر اثر منڈیلا ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور کولمبیایونیورسٹی ایوارڈ بھی ملا ۔ کشور کی شاعری میں نسائی شعور اور تلخ حقائق ملتے ہیں۔ وہ براہ راست عورت کے مسائل اور جذبات کو مو ضوع بناتی ہیں۔ بری عورت کی کتھا بہت فکر انگیز سوانح حیات ہے ۔

کشور ناہید کا ایک شعر

بڑا کٹھن ہوا ہے ہجر کا موسم

جدائی بول پڑی ہے کہیں سے آجائو

آج بھی ادب میں خواتین رائٹرز بہت اچھا لکھ رہی ہیں۔افسانہ ، شاعری ، ترجمہ اور تنقید کے میدان میں  اپنی صلاحیتوںکا لوہا منوا رہی ہیں۔

المختصر یہ کہ نسائی ادب اردو ادب کا اہم حصہ ہے ۔یہ آبادی کے نصف حصے یعنی خواتین کے ذہنی و فکری سفر کا مطالعہ پیش کرتا ہے ۔ مابعد جدیدیت کے مختلف سکول نسائی شعور کے نقطہ نظر پر متفق ہیں۔

سوال: بنائو سنگھار کی روایت عورت کی ذات سے مخصوص ہے۔مزاج کا حصہ ہونے کی وجہ سے کیا خواتین کے شعرو افسانہ وغیرہ میں خواتین کا یہ ہنر یا ذوق بھی کار فرما ہو تا ہے ۔

جواب :  عورت حسن ہے ۔ اس پر گرد پڑ جائے تو اچھا بھلا حسن بھی کملا جاتا ہے ۔ حسن کو سنوارنا اور نکھارنا چاہیے ۔عورت کے اندر یہ شوق بچپن سے ہی ہوتا ہے ۔ جب وہ چھوٹی سی بچی ہوتی ہے تب سے ہی وہ بننا سنورنا شروع کر دیتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ کسی کے اندر یہ شوق کم ہوتا ہے اور کسی کے اندر زیادہ ۔کسی کو سجنے سنورنے کی فرصت نہیں ملتی اور کسی کا زیادہ تر وقت ہی اس کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔

 ایسی بھی خواتین ہو تی ہیں جن کے اندر بنائو سنگھارکا شوق نہیں ہوتا۔بہر حال اکثریت کو سجنا سنورنا، اچھے کپڑے پہننا اور اچھی جیولری اور جوتے وغیرہ سب اچھے لگتے ہیں۔فطری جذبے عورت کے تمام کاموں میں معاون رہتے ہیں۔ جب وہ لکھتی ہیں تواچھے الفاظ اور دلکش پیرائے میں بیان کرنے کی کو شش کرتی ہیں۔ سادہ سی تحریر کو بنائو سنگھار سے خاص بنادیتی ہیں۔ ادبی منظر نامے میں پاپولر رائٹرز بہت مشہور ہیں۔ ان کی تحریروںکے قارئین بہت زیادہ ہیں۔ خواتین پاپولر رائٹرز اپنے قارئین کو خوابوں اور خیالوں کی ایسی پرفریب اور رنگین دنیا میں لے جاتی ہیں جہاں سے نکلنے کوان کا دل نہیں کرتا ۔وہ سراپا نگاری ، کردار نگاری اور منظر کشی میں مبالغے کی حد تک جاتی ہیں۔بنائو سنگھار کا یہ نشہ قارئین کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔عام لوگ خصوصا ٹین ایجرز یہی کچھ پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادب عالیہ یا سنجیدہ ادب پڑھنے والے بہت کم ہیں۔

سوال: شعرو ادب میں بعض مردوںکے ہاں خالص زنانہ مسائل و جذبات کا اظہار بھی دکھائی دیتا ہے ۔کیا مرد عورت کے مکمل جذبات کی عکاسی کر سکتا ہے ۔

جواب : شعر و ادب میں مردوںکے ہاں خالص زنانہ مسائل و جذبات کا اظہار ایسے ہی ہے جیسے عورت کے ہاں مردانہ مسائل اور جذبات کا اظہار ۔ یہاں میرا نظریہ  ہے کہ ہم سب سے پہلے انسان ہیں۔ہم بحیثیت انسان ایک دوسر ے حتی کہ جانوروں اور پرندوں تک کے جذبات اور مسائل سمجھ سکتے ہیں۔

 ہاں ،یہ ٹھیک ہے کہ عورت اور مرد کی اصناف اپنی صنف کے جذبات و مسائل بہتر سمجھ سکتے اور ان کا اظہار بھی اچھے انداز سے کر سکتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ مرد عورت کے اور عورت مرد کے مسائل کو نہیں سمجھ سکتی ۔اس کے لیے ایک حساس اور باشعور انسان ہو نا ضروری ہے ۔ ہم اپنے باپ ، بھائی ، شوہر ، بیٹے کے جذبات و احساسات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان کے اور ہمارے دکھ دکھ سانجھے ہوتے ہیں۔ اس لیے جب کوئی رائٹر لکھتا ہے تو وہ ایک اداکار کی طرح اپنے اوپر اس کردار کی کیفیات کو حاوی کر لیتا ہے ۔ پھر اس کے لیے کچھ بھی لکھنا مشکل نہیں۔ ویسے بھی ایک رائٹر کبھی ایک فقیر کی کیفیت کو لکھ رہا ہوتا ہے تو کبھی ایک بادشاہ کی ۔ کبھی وہ ایک مولوی کی زبان بو ل رہا ہوتا ہے اور کبھی ایک دہشت گرد کی ۔ کبھی ایک امیر عورت کا قصہ بیان کر رہا ہوتا ہے اور کبھی غریب عورت کی المناکی ۔ ان سب کرداروںکو ایک ہی شخصیت جب لکھتی ہے تو وہ ان میں ڈھل جاتی ہے ۔ پھر ہم کسی بھی کردار کے خالص جذبات کی عکاسی کرسکتے ہیں۔

میرا تو یہ ماننا ہے کہ جانوروں اور پرندوںسے محبت کرنے والے اوران کی قربت میں وقت گزارنے والے تو ان کی کیفیات کو بھی سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ مرد عورت کے جذبات کو بہتر انداز میں پیش کرسکتا ہے اگر وہ اپنی’’ میں ‘‘ کو گم کرکے ’’ تو ‘‘ بن جائے لیکن ایک ہی صنف سے تعلق رکھنے والے افراد مثلا ً عورت اپنے جذبات و کیفیات کابہتر احاطہ کر سکتی ہے کیونکہ انسان پر جو بیت رہی ہوتی ہے ۔ اس کی ترجمانی وہ خود بہت اچھی کر سکتا ہے ۔

میں تو جب بھی کوئی افسانہ لکھتی ہوں تو ان کرداروں کی زندگی گزارتی ہوں  ۔وہ مرد بھی ہو سکتا ہے اور کوئی عورت بھی یا تیسری جنس بھی ۔ کوئی جانور بھی ہوسکتا ہے اورکوئی پرندہ بھی ۔ میںان کی جگہ پر جاکر کھڑی ہو جاتی ہوں اور ان کیفیات کو خود پر طاری کر لیتی ہوں ۔ایک رائٹر جب تک ان احساسات کو خود پر طاری نہیں کرے گا۔وہ اچھا نہیں لکھ سکتا ۔

سوال: تعلیمی نصاب میں خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے مثلا اگر چودہ اسباق ہیں تو تیرہ مردوں کے ہیںاور ایک عورت کا لکھا ہوا۔یہی حال منظومات میں بھی ہے ۔کیا عورت کی حق تلفی ہے یا خواتین کا ادب میں کردار اسی تناسب سے ہے ۔

تعلیمی نصاب میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کی وجوہات میری نظر میں مختلف ہیں۔ یہ ٹھیک ہے مرد ادبا کا تناسب بھی زیادہ ہے ۔ ان کی تحریروں میں تنوع اور رنگا رنگی بھی ہے ۔جو تعلیمی نصاب میں ان کے انتخاب کی وجہ بھی ہے ۔ معیار بھی ان کے ہاں بہتر ہے لیکن اس کے باوجود خواتین ادیب اور شاعرات  میں بہت اچھا لکھنے والی بھی ہیں۔ اگر ان کے افسانوں ، کہانیوں ، تراجم اور شاعری کو اٹھایا جائے تو خواتین کا ادب میں کردار اتنا بھی کم نہیں ۔ نصاب کمیٹیوںکو اپنے رویے میں نظر ثانی کرنی چاہیے ۔

سوال: آزادی نسواں جیسی تنظیمیں بنائی گئیں ۔میرا جسم میری مرضی وغیرہ جیسے نعرے بھی سرعام دیکھے سنے گئے ۔اس موضوع پر بالخصوص روشن خیال خواتین نے افسانے لکھے اور شاعری کی لیکن خواتین کا ایک بڑا طبقہ اس بے باکی کے خلاف بھی ہے لیکن مخالفت کے باوجود اس موضوع پر قابل ذکر ادب نہیں لکھا گیا ۔ اس کی وجہ ۔؟

جواب :  مائی باڈی ،مائی چوائس ،یا مائی باڈی او ر مائی رائٹس کی تحریک امریکہ میں اسقاط حمل کو جرم قرار دینے کے خلاف احتجاجی طور پر چلی ۔ اب یہ نعرہ چلتے چلتے جب پاکستان پہنچتا ہے تو یہاں اس کو مختلف این جی اوز اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اب اس میں بھی دو گروہوں کی آرا ہیں۔ ایک تو وہ لبرل طبقہ ہے جو کہ سمجھتا ہے کہ عورت کا جسم اس کی مرضی یعنی جس کے ساتھ چاہے تعلقات رکھے اور جس کے ساتھ چاہے نہ رکھے ۔ اسے اس کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔ اسے جسمانی تعلقات بنانے اور انہیں چلانے کی آزادی ہونی چاہیے ۔ اب دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ ہماری مراد اس سے بے راہ روی نہیں بلکہ ہم یہ چاہتی ہیں کہ ہماری مرضی کے بغیر ہمیں کوئی بھی تعلقات کے لیے مجبور نہ کرے ۔ ہماری عزت کی جائے اور ہمیں تعلقات رکھنے کے لیے مختلف حربوںسے تنگ نہ کیا جائے ۔عورت کی مرضی کے بغیر اس کے شوہر کو بھی اس سے تعلق نہیں بنانا چاہیے ۔ اس کو مجبور کرنا زیادتی کے زمرے میں آئے گا۔ ان کی رائے میںان کے نعرے کو صرف اور صرف بے مہار آزادی کے ضمن میں لیا جارہا ہے ۔ اس حوالے سے ’’عورت مارچ ‘‘کی چند سرکردہ خواتین بلکہ لڑکیوں سے میری ملاقات ہوئی جو کہ اس موضوع کے حوالے سے تھی ۔ان کا کہنا تھا کہ ہم بے جا آزادی نہیں چاہتی ہیں۔ ہم چاہتی ہیں کہ ہمیں ہمارے پڑھائی اور کام کی جگہوں پر کسی قسم کا تعلق بنانے پرمجبور نہ کیا جائے ۔ ہمارے گھر والے ہماری مرضی کے بغیر ہماری شادیاں نہ کریں۔ ہمیں ہماری مرضی کے بغیر گھر کا کام کرنے کے لیے تنگ نہ کیا جائے جبکہ وہ بھی تھکی ہاری تعلیمی اداروں اور ملازمت سے آتی ہیں لیکن انہیں گھر کے مردوں کی خدمت کرنا پڑتی ہے اور وہ خود کوئی کام نہیں کرتے ۔

ان کے ایجنڈے کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے اور فوٹو شاپ کے ذریعے ایسے ایسے مطالبات کے بینرز ہمارے ہاتھوںمیں پکڑائے گئے جو کہ ہم نے لکھے ہی نہیں تھے ۔ اب جہاں تک بات ہے میرے مو قف کی تو میں بے جا آزادی یا گھٹن، دونوں کے حق میں نہیں۔ میں شخصی آزادی کی قائل ہوں ۔

میں نے اس ضمن میں ایک نعرہ بھی دیا تھا ، میری زندگی میرا اختیار، اس نعرے کو بہت زیادہ پسند کیا گیا اور اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ فیس بک پر پو سٹ کرنے کی دیر تھی کہ لوگوں نے اپنے اپنے ناموں سے اس نعرے کو اپنی وال پر شئر کردیا اور میرانام تک لکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ان میں ایسے مرد و خواتین بھی شامل تھے جو اچھے لکھاری ہیں مگر اخلاقی تقاضے کو کسی نے مدنظر نہیں رکھا۔

میر ایہ نعرہ عورت کے اسلامی او ر انسانی حقوق کا ترجمان ہے کہ جو اس کا حق ہے ۔ عورت کی زندگی کے اختیارات کا حتمی فیصلہ اسے دیا جانا چاہیے ۔ اس کے باوجود میر ایقین ہے کہ عورت ایک ایسی مخلوق ہے جو  اپنے سے جڑے رشتوںکو کبھی اپنی زندگی کے فیصلے کرتے وقت نظر انداز نہیں کرتی ۔میں بھی اس بے باکی کے خلاف ہوں ۔ ابھی تک کوئی خاص قابل ذکر ادب سامنے نہ آنے کی وجوہات مختلف ہیں۔ ہم نت نئی تبدیلیوں کے دور سے گزر رہے ہیںجس میں ہمیں ایک چیز متاثر کرتی ہے توہم اس پر قلم اٹھانے کا سوچتے ہی ہیں کہ کوئی دوسرا مو ضوع ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتا ہے۔ یہ سماجی ناہمواری اور بے حسی کا دور بھی ہے جس میں عصری تقاضوں پرادبی لکھنے والے کم اور روایتی مو ضوعات پر لکھنے والے زیادہ ملتے ہیںکیونکہ ہم ابھی روایتی مسائل سے ہی آزاد نہیں ہو سکے ۔ ا س مو ضوع پر نہ لکھنے کی  ایک وجہ خواتین کے ایک بڑے طبقے کی مخالفت بھی ہوسکتی ہے لیکن کب اندھیرے میں کوئی امید کی شمع جل جائے ، کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔موضوعات جب تک دل و دماغ میں چھا نہ جائیں ، ان پر لکھنا بھی بے کار ہے ۔ ادیبوںکاکام کسی کی مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر جانبداری اور معروضیت سے لکھنا ہے ۔ اس کے لیے اپنی ہی جنس کی حمایت کا تاثر مناسب نہیں۔ میرے خیال میں اچھا فکشن بے ساختہ اور لاشعوری طور پر جنم لیتا ہے ۔ بعد ازاں اسے سجایا سنوارا جاتا ہے ۔ الفاظ میں مو تی پروئے جاتے ہیں۔ نگینوں جڑی یہ عبارت الہامی کیفیت کی طرح ادبا پر اترتی ہے ۔

سوال: خواتین کے ہاں جو ادب تخلیق ہو رہا ہے ۔اس میں گھر کی سلطنت سے فراراور بغاوت نمایاں ہے ۔کیا یہ رویہ درست ہے ۔؟عورت کو آفس کی ذمہ داری سونپی جائے تو اسے اعزاز سمجھتی ہے لیکن گھر کی ذمہ داری کو غلامی سمجھا جانے لگا ہے ۔کیا واقعی آفس کی اہمیت اور وقار گھر سے زیادہ ہے ؟

جواب :  خواتین کے ادب کو گھر کی سلطنت سے فرار یا بغاوت کے زمرے میں لیا جانا ٹھیک نہیں۔ میری نظر سے اپنی ہم عصر ادیب خواتین کی تخلیقات گزرتی رہتی ہیں۔ وہ بہت سے سماجی اور نفسیاتی موضوعات پر بڑی خوب صورتی سے لکھ رہی ہیں۔ان کے ادب میں آفاقیت کا عنصر مو جود ہے ۔کئی افسانہ نگاروں نے معاشرے کے چبھتے ہوئے مو ضوعات پر قلم اٹھایا ہے ۔ پاپولر ادب میں البتہ گھر سے زیادہ دفتر کو اہمیت دینے کا رحجان غالب ہے ۔اس لیے کہ ان کی کہانیوں کا تانا بانا ہی گھر، دفتر، محبت ، نفرت اورسازشوں پر استوار ہوتا ہے۔ آفا قی موضوعات ان کی نگاہ سے اوجھل ہیں یا ان پر لکھنا ان کے لیے مشکل ہے ۔ عورت کوخانگی سازشوں سے فرار ، معاشی معاملات میں ناآسودگی اور تنگی یا پھر خودمختاری کی لگن نے گھر سے فرار کی راہ دکھائی ہے ۔میری رائے یہ ہے کہ عورت کے لیے معاشی خود مختاری بہت ضروری ہے ۔ اسے معاشی خود مختاری نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے جائز ذاتی معاملات میں بھی دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔عورت کو تعلیم اور ہنر کے میدان میں اپنا لوہا منوانا چاہیے اور اپنی زندگی کو آسودہ کرنا چاہیے ۔ عورت کی پہلی ترجیح تعلیم اور معاشی خوشحالی ہونی چاہیے ۔ تعلیم یافتہ اور معاشی خودمختار عورتیں مرد کے ساتھ بہتر طریقے سے گھر چلاسکتی ہیں۔ وہ اپنے معمولات کے حساب سے اچھی منتظم ہوتی ہیں۔سگھڑاپاان میں بدرجہ اتم مو جود ہوتا ہے۔اگر تو عورت کو تمام حقوق حاصل ہیں، اسے اچھی زندگی بھی مل رہی ہے تو گھر کی اہمیت بجا طور پر زیادہ ہے لیکن اگر اسے مالی پریشانیوںکا سامنا ہے ۔ گھر میں عزت اور سکون بھی نہیںتوپھر اس کی نظر میں دفتر کی اہمیت زیادہ ہے ۔ گھر کو جنت بنانے میں دونوںمیاں بیوی کا کردار برابر کا ہے ۔ یہ دو پہیوںکی گاڑی ہے ۔ یہ دو ہاتھوں کی تالی ہے۔جہاں اسے عزت ، سکون اور مالی آسودگی ملے گی ۔ وہاں کام کرنا اسے اعزاز لگے گا۔ چاہے وہ گھر ہو یا دفتر۔گھر کی یکسانیت اور بیزار زندگی پھر گھر کے کاموںکے بعد بھی تو صیفی ردعمل نہ ملنا اس کے اندر چڑچڑا پن پیدا کردیتا ہے۔ خانگی امور کا بوجھ نبٹانے والی عورت کی قدر نہیں کی جاتی ۔اس کے کاموں کو اس کا فرض سمجھا جاتا ہے ۔اگر اس کی گھریلو ذمہ داریوںپر اسے سراہا جائے ۔اس کی تو صیف کی جائے تو وہ گھر کے کاموں کو بھی اعزاز ہی سمجھے گی ۔ابھی بھی اکثرخواتین گھر یلو فرائض پر مسرت محسوس کرتی ہیں، اس لیے یہ تاثر ٹھیک نہیں۔

سوال:بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے کی عورت کی ذہنی سطح محدود ہونے کی وجہ اس کی معاشرتی زندگی کا محدود ہونا ہے ۔جس کی وجہ سے اکثر خواتین بڑا ادب تخلیق کرنے سے قاصر ہیں۔

جواب: عورت کی ذہنی سطح محدود ہونے کی باتیں ان ہی ناقدین کی پھیلائی ہوئی ہیں جن کو عورت کا مقام گوارا نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ عورتیں مرد کی طرح وسیع تناظر میں اس دنیا اور اس کے معاملات کو نہیں جانتیں یا سمجھتیں کیونکہ ان کا مشاہدہ محدود ہوتا ہے ۔ مشاہدہ محدود ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کا فہم و ادراک کئی معاملات میں الجھا ہوا ہوتا ہے۔وہ کئی محاذوں پر برسر پیکار ہوتی ہے ۔ ہر جگہ اس کا کردار بہت اہم ہوتا ہے ۔ وہ معاشرتی زندگی میں بھی ہر جگہ یا ہرماحول کا حصہ نہیں بن سکتی ۔ عورت ہو نے کی حیثیت سے و ہ کچھ حدود و قیود میں ہے جو اس کے لیے ضروری بھی ہیں۔ یہی امور بڑے ادب کی تخلیق میں مانع ہے۔ مگر سب مرد بھی تو دنیا کواس نظر سے نہیں دیکھتے جس کودوسرےادیب دیکھتے ہیں۔ذہنی سطح کسی کی بھی محدود ہو سکتی ہے اور وسیع بھی ۔ اس کا اطلاق سب عورتوں پر نہیں کیا جاسکتا ۔

آج بھی آگ کا دریا ااردو ادب کا بڑا ناول ہے۔ کیا قرۃ العین کی ذہنی سطح کو ہم محدود کہہ سکتے ہیں۔بانو قدسیہ کیا اشفاق احمد سے کم درجہ بالغ نظر تھیں ۔بانو قدسیہ راجہ گدھ کی وجہ سے اشفاق احمد سے آگے کھڑی ہیں۔ عالمی سطح پر بھی خواتین ادیب کسی سے کم نہیں۔ انہوں نے عالمی سطح کے انعامات و اعزازات میں اپنا حصہ ڈالا ہے ۔سرزمین ِیونان شعر و ادب کے حوالے سے مشہور ہے ۔یونانی تہذیب و ثقافت نے تاریخ عالم پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔یونانی شاعرہ سیفو لڑکیوں کو شعر و ادب اور موسیقی کی تعلیم دیتی تھی۔سیفو کا دور ساتویں قبل مسیح کے اواخر سے چھٹی صدی کے آغاز تک کا دور ہے۔سیفو کے متنازعہ کرداراورتلون مزاج شخصیت کے باوجود ہم عصر اور متاخرین شعرا نے اسے بھرپور خراج تحسین پیش کیا ہے ۔اہل یونان اس کے کلام کے شیدا تھے ۔وہ نہ صرف اپنے زمانے میں یونان کی سب سے بڑی شاعرہ گزری ہے بلکہ خالص تغزل کے لحاظ سے آج بھی وہ  اہم شاعرہ تسلیم کی جاتی ہے۔

معروف شاعرہ سلویا پاتھ  کے ناول’’ ودرنگ ہائیٹس‘‘ کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے ۔دیگر کئی خواتین بھی اپنے کام کی وجہ سے عالمی شہرت یافتہ ہیں۔

سوال :  مرد ادیبوں کے خطوط کے مجموعے ہزاروں میں ہیں لیکن جن خواتین کے مجموعے منظر عام پر آئے ۔وہ شاید دو درجن بھی نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ۔؟

 جواب :  خطوط نویسی کی تاریخ اردو ادب میں بہت پرانی ہے ۔خطوط نویسی ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے ہم خطوط نویس کی شخصیت اور اس کے مزاج اور فکر سے آشنا ہوتے ہیں۔خط سے ہجر کے لمحات وصل میں بدل جاتے ہیں۔ایک دوسرے کے حالات و جذبات سے آگاہی ہوتی ہے۔ اس زمانے کے حالات کا بھی پتا چلتا ہے ۔اردو ادب میں خطوط نویسی کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔مرزا غالب کے متعدد خطوط کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔سرسید احمد خان ، شبلی نعمانی ، علامہ اقبال ، مولانا آزاد،ان کے علاوہ ہمارے سامنے بہت سے نام ہیں جن کے خطوط ہمیں پڑھنے کو ملے ۔خواتین کا رحجان ادب کی دوسری اصناف کی طرف زیادہ ہے ۔ اس کی ذمہ داریاں بھی یکسر مختلف ہیں۔تہذیبی شعور مرد میں کئی عوامل کی بنا پر عورت سے زیادہ ہے حالانکہ عورت مرد کے معاملے میں زیادہ حساس ہے ۔ عورت میں جذباتیت زیادہ ہے جو چیزوں یا معاملات کو سمجھنے کی راہ میں آڑے آجاتی ہے ۔ذاتی تجربات یا مشاہدات کی بات کی جائے تو خواتین بہت نازک ، کومل جذبات واحساسات کی مالک ہوتی ہیں۔ ان کو اپنی کیفیات و احساسات قلم بند کرنا انہیں اچھا تو لگتا ہے لیکن ان کو سامنے لانے کے لیے حوصلہ چاہیے ۔ عورت کو تو مو ضوع سخن بنتے دیر نہیں لگتی ۔

میں نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ بعض وجوہات کی بنا پر ایک ہاسٹل میں گزارا۔ میری روم میٹ ایک ایسی لڑکی تھی جس کی پہلی شادی ناکام ہوچکی تھی ۔اس کی ماں نے اسے گھر سے نکال دیا تھا ۔ اسے ایک  شادی شدہ بندے نے نکاح کے بعد ہاسٹل میں رکھا۔ وہ کبھی ڈائری اور کبھی پیپرز پر کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی تھی ۔میری اس کے ساتھ بڑی دوستی تھی لیکن جو نہی میں کمرے میں آتی ۔وہ ان کو چھپا دیتی ۔ اس نے مجھے کبھی انہیں پڑھنے نہیں دیا ۔ تو بس عورت کے مسائل اور تکالیف بہت ہیں جن سے وہ ہمیشہ نبر د آزما رہتی ہے۔ خطوط کو لکھنے کے لیے وہ اپنی صلاحیتوںکومجتمع نہیں کر پاتی مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر خواتین ادیب خطوط پر توجہ دیں تو بہت اچھا ادبی سرمایہ ہمارے سامنے آسکتا ہے ۔

سوال: قومی سطح کی ادبی تنظیموں کے سربراہ عموما مرد ہوتے ہیں۔اس حوالے سے عورت بہت پیچھے

 ہے ۔ایساکیوں ہے ؟ ۔ یہ تو ذمہ داری اور شوق کی بات ہے ، اس میں مرد کا کیا قصور۔؟

 جواب :  ادارہ کوئی بھی ہو۔اس کے سربراہ کی سلیکشن میں بہت سے عوامل کا رفرما ہوتے ہیں ۔ان کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخاب کیا جاتا ہے ۔جہاں تک ذمہ داری اور شوق کی بات ہے تو یہ کوئی پیمانہ نہیں کہ عورتیں اچھی سر براہ نہیں ہوسکتی ہیں۔

کشور ناہید نے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کی ڈائریکٹر جنرل ، ڈائر یکٹر مرکزی اردو سائنس بورڈاو ر محکمہ اطلاعات و نشریات کے مجلہ ماہ نو کی چیف ایڈ یٹر کی حیثیت سے کام کیا ۔فرحین چودھری لوک ورثہ میڈیا سنٹر میں پروگرام ایگزیگٹو رہیں۔ صوفیہ بیدار ڈائر یکٹر فیصل آباد آرٹس کو نسل کے عہدے پر کا م کررہی ہیں۔ پنجابی کپلیکس کی منتظم اعلی صغری صدف صاحبہ نے مثالی خدمات سر انجام دی ہیں۔  انہوں نے جس شوق اور لگن کا مظاہرہ کیا ۔ یہ مردوں میں بھی خال خال ہی دکھتا ہے ۔قومی سطح کی ادبی تنظیموں میں بھی ان کی تقرری خوش آئند ہی ہو گی ۔ اس لیے کسی امتیاز کے بغیر ان کو اعلیٰ عہدے ملنے چاہیے ۔

سوال:ادبی گروہ بندیوں کے جکڑے ہو ئے معاشرے میں عورت الگ تھلگ کھڑی ہے ۔ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ۔؟

جواب : ادبی گروہ بندیوں کے جکڑ ے ہوئے معاشرے میں عورت اس لیے الگ تھلگ کھڑی ہے کہ اس کو الگ تھلگ کر دیا گیا ہے ۔مرد ادیبوںنے اپنے گروہ بنا کر عورت کے استحصال کی مہم چلارکھی ہے ۔کسی بھی سطح پر عورت کو آگے نہیں آنے دیا جارہا ۔اب نام و نمود اور شہرت گروہ بندی کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ مشاعروںمیں داد بھی اپنے گروپ کے بندوںکو دی جاتی ہے ۔اسی گروہ بندی کے ذریعے مشاعروںمیں شرکت کی جاتی ہے ۔ ایک شاعر کو اگر کوئی منتظم اپنے مشاعرے میں بلاتا ہے تو وہ ساتھ ہی اپنے گروپ کے بندوںکو بھی اس فہرست کا حصہ بنانے پر اصرار کرتا ہے ۔ مشاعروں میں واہ واہ سیمٹنے کے لیے بھی دوست احباب تیار کیے جاتے ہیں۔ادبی وسماجی حلقوں میں پذیرائی انہی کو ملتی ہے جن کے گروپ ہیں یا پھر جن کی ادبی تنظیمیں ہیں ۔ میںایک ایسی باصلاحیت شاعرہ کا حوالہ دینا چاہوں گی۔جس نے بہت محنت کی ، اپنا نام بنایا مگر اس کے باوجود اس کو نہ تو پذیرائی دی گئی اور نہ ہی خراج تحسین پیش کیا گیا ۔اسے اپنی ایک ادبی تنظیم بنانا پڑی جس کے ذریعے اب وہ بھرپور ادبی خدمات سر انجام دیتی ہیں۔ان کے پلیٹ فارم سے بہت سے نئے لوگ سامنے آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بندہ ایک ادبی تنظیم بنائے بیٹھا ہے ۔وہ اپنے ساتھ دو چار لوگوںکو ملاتا ہے ۔ پھر اس کے ذریعے نام کماتا ہے ۔ کوئی کسی کو جگہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ہرکوئی اپنی نگاہ میں سب سے اچھا شاعر یا ادیب ہے ۔

دوسرا کسی گنتی میں شمار نہیں۔یہ حق داروں کی حق تلفی ہے ۔اس وجہ سے ادب بھی روبہ زوال ہے کہ اچھے اور حقیقی لوگوںکو سامنے آنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگر ہم یہ کہیں کہ اچھا کام خود نام بناتا ہے تو کام سامنے آئے گا تو نام بنے گا۔ جب کسی کا کام شائع نہیں ہو گا۔ کسی کو سامنے آنے کا مو قع نہیں دیا جائے گا تو وہ کیسے متعارف ہوگا۔ اس کے کام کے مختلف پہلو ہمارے سامنے کیسے آئیں گے۔ہمارے ناقدین بھی ان کو پڑھنے اور ان پر رائے دینا گوارا نہیں کرتے؛ ان کو بھی خوشہ چین  چاہیے ہوتے ہیں ۔ ان کے معیارا ت ذاتی مراسم سے تشکیل پاتے ہیں۔

سوال:ایک خاتون کے ناتے کیا آپ ادبی تقریبات میں مردوںکے رویے سے مطمئن ہیں۔

جواب:  ادبی تقریبات میں بھی مردوں کی ایک مخصوص ذہنیت فعال ہے ۔پسندیدہ خواتین کی تحریروں پر تعریف کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ حلقے کے ایک اجلاس میں نے اپنا افسانہ گھر کا قیدی پڑھا۔ یہ افسانہ بھٹہ مزدوروں کی زندگی اور ان کے استحصال پر مبنی ہے ۔ یہ کچھ بولڈ بھی تھا ۔ خیر اس افسانے کی قرأت کے بعد ایک پروفسیر صاحب نے وہ تنقید کی جسے ادبی تو دور کی بات اخلاقی بھی نہیں کہا جاسکتا ۔ میر ایہی افسانہ بعد ازاں بھارت کے مشہور ادبی جریدے تریاق اور پاکستان کے معیاری پرچے ادب لطیف میں چھپا۔ اسے بہت زیادہ پسند کیا گیا ۔ اس نے مختلف فورمز پر پذیرائی حاصل کی ۔ جبکہ وہی صاحب انتہائی کمزور تحریروں پر داد و تحسین دے رہے ہوتے ہیں۔

 ادب کے بڑے بڑے مہروں میں تو ٹھرک بہت زیادہ ہے ۔ وہ خود کو ادب کے بادشاہ خیال کرتے ہوئے ادبی عورتوںکو ملکائیں بنانے کی تگ و دو میں رہتے ہیں ۔ا ن کے لیے سارے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔وہ ان کی کتب پر دیباچے اور تبصرے بڑے شوق سے لکھتے ہیں۔ ان کی تحریر کو شاہکار قرار دیتے ہیں۔ نافرمان عورتوں کے لیے نہ ان کے دل میں جگہ ہے اور نہ ہی اس کے کام کو تسلیم کرنے کا ظرف۔ناقدین اتنی توجہ اپنے کام پر دیں تو شاید اچھی تخلیقات سامنے آئیں۔ناقد کا درجہ کبھی بھی تخلیق کار جتنا نہیں ہوسکتا ۔ تخلیق کار ایک اعلیٰ مقام رکھتا ہے اور ناقد پست ترین۔ان کی لغو، بے معنی اور غیر متعلقہ تنقید نے ان کا قد بڑا کرنے کی بجائے چھوٹا ہی کیا ہے۔اس بھیڑ میں اچھے ادیب بھی ہیں جو عورت کو عزت دیتے ہیں۔ اس کے لیے ہمدرداورمعاون ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے خواتین ادبی تقریبات میں شرکت کرتی ہیں۔ باقی اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے خود کو قید کرنا یاکام نہ کرنا ٹھیک نہیں۔میں ادبی تقریبات میں اپنی خوشی کے لیے جاتی ہوں ۔ مجھے سب کا سامنا کرنا بھی آتا ہے ۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کا رویہ ٹھیک نہیںکیونکہ معیاری کام کو کسی سند کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یہ خوشبو کی طرح پھیل جاتا ہے۔سب بظاہر خوش اخلاقی سے ملتے ہیں۔ ان کے سینوںمیں چاہے سانپ لو ٹ رہے ہوں مگر زبانوں سے پھول برس رہے ہوتے ہیں۔ عورت کو ان پھولوں کی ماہیت کو جانے بغیر ادبی تقریبات سے انجوائے کرنا چاہیے ۔ ادیبوں کا آپس میں میل جول ادب میں مختلف مباحث کو جنم دیتا اور ذہن کے بند دریچوںکو کھولتا ہے ۔

سوال: بعض ادیبوںنے زنانہ نام سے لکھا ہے ۔فوری طور پر مینا ناز کا نام ذہن میں آرہا ہے ۔اس کی کیا وجہ ہے ۔؟کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے ۔؟

جواب : عورتوںکے نام سے لکھنے کی وجہ خواتین رائٹرز کی مقبولیت ہے ۔ پاپولر ادب میں خواتین کے لاکھوں قارئین ہیں۔پھر ان کو مقبولیت بھی جلدی ملتی ہے ۔ اس لیے مرد رائٹرز نے خواتین کے نام سے لکھا۔ ہمارے خواتین کے رسائل پر خواتین کی اجارہ داری نے بھی مردوںکو خواتین کے ناموں سے لکھنے پر راغب کیا ۔ ان کو معاوضہ بھی اچھا ملتا ہے اور نام بھی بن جاتا ہے ۔ خواتین رسائل میں لکھنے والی یہی خواتین اب مشہور ڈرامہ رائٹر ز ہیں۔مینا ناز کی کہانیاں بھی ایک طبقہ بڑے شوق سے پڑھتا تھا۔

سوال:بیوی ، بیٹی اور ماں کے شاعر ادیب ہونے سے ان کی گھریلو زندگی متاثر ہو سکتی ہے ؟

جواب: اگر بیوی ، بیٹی اور ماں شاعرہ یا ادیبہ نہیں لیکن ورکنگ لیڈی ہے تو پھر بھی گھریلو زندگی متاثر ہوسکتی ہے۔ اصل میں اگر عورت سمجھ دار ہے تووہ گھر اور ملازمت اور اپنے مشاغل کو بہ طریقِ احسن وبخوبی چلا لیتی ہے ۔ اگر چہ یہ آسان نہیں، کیونکہ گھر کے اپنے کام ہی تھکا دینے کے لیے بہت ہو تے ہیں۔ ملازمت اضافی بوجھ ہے مگر معاشی خود مختاری اورآسان زندگی کے لیے یہ بوجھ اٹھانا ضروری ہے ۔ اب رہے مشاغل تو خداداد صلاحیتوں کو نہ صرف وقت دینا چاہیے بلکہ ان کی نمود و نمائش کرنے کی کو شش کرنی چاہیے ۔ شہرت اور پذیرائی ہر کسی کا حق ہے ۔مرد کو عورت کا ہاتھ بٹانا چاہیے اور گھر کے معمولات میں اپنی حصہ داری کے ذریعے اسے سپورٹ کرنا چاہیے تاکہ وہ گھر داری اور اپنے شوق یا دیگر معمولات کو اچھے طریقے سے نبھا سکے ۔ مرد کا رویہ اگرمعاون ہو تو یہ کو ئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔

سوال:حقوق نسواںکے لیے کوئی ادبی تحریک چلائی گئی یا چلائی جا سکتی ہے ۔ کون سی خاتون لیڈر کا کردار ادا کر سکتی ہے ۔؟

جواب :  حقوق نسواں کے لیے ادبی تحریک کی میری حد تک توشنید  نہیں ہے ۔ خواتین اپنے حقوق کے لیے باتیں تو بہت کرتی ہیں لیکن ان کے حصول کے لیے اکٹھے ہونے اور تحریک چلانے کے لیے ایک طویل جدو جہد کی ضرورت  ہے جو کہ خواتین میں نہیں۔ یہی عدم اتفاق ان کی ناکامی کا سبب ہے ۔ ادب سے جڑی خواتین تو ایک دوسرے کو تسلیم کرنا گوارا نہیں کرتی ہیں۔ ان میں وسیع ظرف اور دل و دماغ کی خواتین بہت کم ہیں۔ اکثریت ایک دوسرے کو کچلنے اور دبانے کے لیے مردوںکی مہم کا حصہ بنتی ہیں ۔ وہ کیسے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوں گی ۔حقوق نسواں کے لیے وہی خاتون لیڈر کا کردار ادا کر سکتی ہے جو باصلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ باہمت ہو۔  وہ بہادر اور نڈر ہو۔ اس میں ایک طویل جدوجہد کا حوصلہ ہو۔ عدم برداشت نہ ہو۔ زمانے کے نشیب و فراز سے گزری ہو۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں قائدانہ صلاحیتیں ہوں۔ 

یہ تمام صفات مجھے ایک خاتون میں تو یکجا نظر نہیں آتی ہیںلیکن اس کے باوجود ادبی خواتین کے پلیٹ فارم سے ایک منظم جدوجہد کا آغاز ہونا چاہیے ۔ لیڈر کا انتخاب رائے شماری سے ہونا چاہیے یا جو جھنڈا پہلے پکڑ لے ۔اس کے ساتھ سب چل پڑیں۔ اس کومضبوط کریں۔ بعد ازاں رائے شماری سے قائدین کی ایک ٹیم بنائی جائے ۔

سوال:بعض خواتین کے بارے میں ناقابل بیان روایات  ادیبوںکی محفل میں بطور لطیفہ یا چٹکلہ سننے کو ملتی ہیں۔ان روایات کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے میں خواتین کا کتنا قصور ہے ۔مرد حضرات کے اس طرز عمل پر کچھ وضاحت فرمائیں۔

جواب : خواتین کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہوں۔ ان کو اس طرح کے رویوںکا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ نام و نمود اور شہرت کے چکر میں اسے کئی ہاتھوں میں کھلونا بھی بننا پڑتا ہے ۔ خواتین کا غیر محتاط رویہ بھی ان کی بدنامی کا باعث بنتا ہے ۔ خاتون کے لیے سب سے اہم اس کی عزت ہے ۔ اسے چاہیے کہ کسی کی بھی آلہ کار نہ بنے ۔ زندگی میں اچھے برے واقعات ہو بھی جاتے ہیں لیکن ان کو اپنے تک محدود رکھے ۔ مستقل مفادات اور الزامات کی دنیا میں رہنے سے اس کا نقصان ہوگا ۔اس معاشرے میں عورت ذات کو بدنام کرنے کے لیے بہانہ چاہیے ۔  معروف اداکارہ عظمی گیلانی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ’’یہاں تو یہ حال ہے کہ آپ چار بندوں میں بیٹھ کر کہہ دیںکہ فلاں بری ہے تو کوئی بھی اس کی بات کو نہیں پرکھے گا ۔ وہ یقین کرلیں گے کہ وہ واقعی بری عورت ہے ۔‘‘اگر عورت آزاد روش اوربے تکلفی پر عمل پیرا ہے تو اسے اس کے نتائج کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے ۔ یہاں بات کو ہمیشہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے ۔ کئی دفعہ افسانے کو حقیقت بنا دیا جاتا ہے اور کئی دفعہ جھوٹ کا ملغوبہ گھڑ کر کردار کشی کی جاتی ہے ۔باقی مرد ذات خود جو مرضی کریں مگر عورت کو لے کر الزام تراشی کرناان کی عادت ہے ۔مرد عورت سے تعلقات قائم کرتے اور پھر فخریہ اعلانات بھی کرتے ہیں۔ عورت ذات سے لطف اندوز بھی ہوئے اوراس پر کیچڑ بھی اچھال دیا ۔اصل میں جو بات مرد کے لیے فخر ہے ، وہ عورت کے لیے ذلالت ۔ ہم ایک ایسے گھٹیا سوچ کے پروردہ ہیں کہ جس میں عزت و شرافت کے پیمانے بھی یکساں نہیں۔بہر حال خواتین کو ہم بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ۔ شریفانہ روش سے ایسے رویوں کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے ۔

سوال: کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر انڈین افسانہ نگار شمو ئیل احمد کے افسانے لنگی پر بحث ہوتی رہی ۔افسانے کا مر کزی خیال یہ ہے کہ یونیورسٹیوںمیں اساتذہ ، ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کی لڑکیوں کو مختلف طریقوں سے بلیک میل کرکے ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ایسا ہونا ممکن ہے ۔جب کہ طالبات نے کبھی اس قسم کی شکایت نہیں کی ۔

جواب :  ایسا ہو رہا ہے تو ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں ہم   ایک حالیہ واقعے کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔  ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یو نیورسٹی کے پروفیسر مولانا صلاح الدین کو طالبات کو ہراساں کرنے کا الزام ثابت ہونے پر نو کری سے معطل کر دیا گیا ۔ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ نے مولانا کو گرفتا ر کیا ۔ ان کی ۳۵ سال سروس تھی ۔ مو صوف یونیورسٹی کے تین اعلیٰ ترین عہدوں ڈین آف آرٹس، کو آرڈینٹر سٹی کیمپس ، شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ تھے ۔وہ نمبروںمیں کمی کی دھمکی دے کر طالبات کو ہراساں کرتے تھے ۔اسی طرح سے بہائو الدین زکریا یو نیورسٹی کے ایک استاد  واصف نعمان کے بارے میں بھی ایک ویڈیو لیک ہوئی ۔یہ وال پنڈی بار کا ممبر ہے اور خواتین کے ساتھ اسلحے کے زور پر بھی غیر انسانی سلوک کرتا رہا ۔ایک رپورٹ کے مطابق چالیس سے زیادہ اساتذہ اس طرح کی سرگرمیوںمیں ملوث ہیں۔ استاد کا مرتبہ باپ کے برابر قرار دیا جاتا ہے مگر افسوس ان جیسے اساتذہ نے اس مقدس پیشے کو شرمسار کردیا ہے ۔حیدر آباد کی ایک نجی یو نیورسٹی کا ایک استاد طالبات کو مختلف طریقوں سے ہراساں کرکے جنسی تسکین حاصل کرتا رہا ۔اس کی وجہ سے یو نیورسٹی کی دو طالبات نائلہ رند اور نمرتا نے خود کشی بھی کر لی ۔یہاںمیں لاہور کی ایک گورنمنٹ یونیورسٹی کا ذکر کرنا چاہوں گی جہاں میرے ایک واقف پڑھاتے تھے ۔ یونیورسٹی کے منتظمین اور اساتذہ کی غیر اخلاقی حرکتوں کی وجہ سے انہوں نے بہت جلد اس یو نیورسٹی کو خیر باد کہہ دیا ۔ یہ تو ہوا معاملے کا ایک پہلومگر اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ زیادہ نمبر لینے کی ہوس بھی طالبات کو اساتذہ کے پہلو گرم کرنے پر راغب کرتی ہے ۔ کئی ایسی ہیں جن کے نزدیک اس سے کو ئی فرق نہیں پڑتا ۔کسی بھی شعبے کو اٹھا کر دیکھ لیجیے ۔ خواتین کو اپنی ملازمت برقرار رکھنے اور آگے بڑھنے کے لیے عیاش طبقے کے ہاتھوں ذلیل ہونا پڑتا ہے ۔ ترقی کا راستہ بہت بدبو دار ہے مگر وہ مجبور ہے ۔اگر وہ ان ترغیبات کو قبول نہیں کرتی تو پھر اسے بہت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کامیاب ہونے کے لیے طویل سفر اوراس کے لیے برداشت اور تحمل بھی ہونا چاہیے جبکہ مصیبت یہ ہے کہ اب کامیابی کے لیے ہر کوئی شارٹ کٹ کی تلاش میں ہے ۔اچھا مستقبل بھی ہر اک کی ضرورت ہے ۔ایسے میں اس طرح کے المیوںکا جنم لینا یقینی ہے ۔یہاں تو ادبی حلقوںمیں رکنیت کے لیے بھی پہلو گرم کرنے کی فرمائشیں کی جاتی ہیں۔گند نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور عیاش لو گ برملا کہتے ہیں کہ ہمارا تو ایک ہی معیار ہے ۔ ان کا معیار لکھت کا معیاری ہو نا نہیں، عورت کا ہاتھ آنا ہے ۔اگر عورت چاہے تو ان فرمائشوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنا مقام بنائے۔

سوال: اکثر مرد حضرات کی وفات کے بعد ان کا کلام یا افسانے وغیرہ ان کی اولاد چھاپ کر منظر عام پر لے آتی ہے ۔خواتین ادیب کے ساتھ ایسا ہوتا نظر نہیں آیا۔اس پر کچھ گفتگو پسند فرمائیں گی ؟

جواب ۔اس سوال کا جواب وہ اولادیں بہتر دے سکتی ہیں جو کہ اپنے والد کے ادبی ورثے کی نہ صرف حفاظت کرتی ہیں بلکہ اسے منظر عام پر بھی لے کر آتی ہیں۔ جہاں تک بات ہے کہ خواتین ادیبوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا، تو اس کی وجوہات یہی ہیں کہ یا تو مردوںکا ادبی کام زیادہ ہے ۔ انہوں نے اسے سنبھال کر بھی رکھا ہوا ہے ۔ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد اسے چھاپ کر مسرت محسوس کرتی ہے ۔ خواتین یعنی والدہ کا کام اولاد کو ملتا نہیں یا پھر ان کے خیال میں اسے چھاپنے سے کو ئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس چیز کے پس منظر میں باپ کی نسل اولاد سے چلتی ہے ، کا وراثتی تعصب یا نسبتی تعلق بھی ہوسکتا ہے ۔ بچے اپنی مائوں سے محبت تو بہت کرتے ہیں لیکن اپنے باپ کے نام سے جانے جاتے ہیں  ۔اپنے باپ کے کام کو سامنے لا کر وہ فخریہ دنیا والوںکے سامنے سر اونچا کرتے ہیں۔

سوال:سوال :  مرد ادیبوںکے خطوط کے مجموعے ہزاروںمیں ہیں لیکن جن خواتین کے مجموعے منظر عام پر آئے ۔وہ شاید دو درجن بھی نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ۔؟

 جواب :  خطوط نویسی کی تاریخ اردو ادب میں بہت پرانی ہے ۔خطوط نویسی ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے ہم خطوط نویس کی شخصیت اور اس کے مزاج اور فکر سے آشنا ہوتے ہیں۔خط سے ہجر کے لمحات وصل میں بدل جاتے ہیں۔ایک دوسرے کے حالات و جذبات سے آگاہی ہوتی ہے۔ اس زمانے کے حالات کا بھی پتا چلتا ہے ۔اردو ادب میں خطوط نویسی کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔مرزا غالب کے متعدد خطوط کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔سرسید احمد خان ، شبلی نعمانی ، علامہ اقبال ، مولانا آزادہمارے سامنے بہت سے نام ہیں جن کے خطوط ہمیں پڑھنے کو ملے ۔خواتین کا رحجان ادب کی دوسری اصناف کی طرف زیادہ ہے ۔ اس کی ذمہ داریاں بھی یکسر مختلف ہیں۔تہذیبی شعور مرد میں کئی عوامل کی بنا پر عورت سے زیادہ ہے حالانکہ عورت مرد کے معاملے میں زیادہ حساس ہے ۔ عورت میں ؎جذباتیت زیادہ ہے جو کہ اسے چیزوں یا معاملات کو سمجھنے کی راہ میں آڑے آجاتی ہے ۔ ذاتی تجربات یا مشاہدات کی بات کی جائے تو خواتین بہت نازک ، کومل جذبات واحساسات کی مالک ہوتی ہیں۔ ان کو اپنی کیفیات و احساسات قلم بند کرنا انہیں اچھا تو لگتا ہے لیکن ان کو سامنے لانے کے لیے حوصلہ چاہیے ۔ عورت کو تو مو ضوع سخن بنتے دیر نہیں لگتی ۔

میں نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ بعض وجوہات کی بنا پر ایک ہاسٹل میں گزارا۔ میری روم میٹ ایک ایسی لڑکی تھی جس کی پہلی شادی ناکام ہوچکی تھی ۔اس کی ماں نے اسے گھر سے نکال دیا تھا ۔ اسے ایک  شادی شدہ بندے نے نکاح کے بعد ہاسٹل میں رکھا۔ وہ کبھی ڈائری اور کبھی پیپرز پر کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی تھی ۔میری اس کے ساتھ بڑی دوستی تھی لیکن جو نہی میں کمرے میں آتی ۔وہ ان کو چھپا دیتی ۔ اس نے مجھے کبھی انہیں پڑھنے نہیں دیا ۔ تو بس عورت کے مسائل اور تکالیف بہت ہیں جن سے وہ ہمیشہ نبر د آزما رہتی ہے۔ خطوط کو لکھنے کے لیے وہ اپنی صلاحیتوںکومجتمع نہیں کر پاتی مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر خواتین ادیب خطوط پر توجہ دیں تو بہت اچھا ادبی سرمایہ ہمارے سامنے آسکتا ہے ۔ خطوط کے ضمن میں ہم جانثار اختر کی بیوی صفیہ اختر کا نام بہت فخر و مسرت سے لے سکتے ہیں۔ ان کے خطوط میں ان کی ازدواجی اور جذباتی زندگی کا گہرا عکس ملتا ہے ۔وہ ہندوستان کے متوسط طبقے کی خواتین کے جذبات کی نمائندہ ہیں۔ ایک استانی اور ایک گھریلو عورت معاشی ،  نفسیاتی اور گھریلو مسائل سے دوچار مختلف ذہنی کیفیات سے گزرتی ہے ۔ وہ ان تمام محاذوں پر بڑی جرائت مندی کے ساتھ کھڑی ہو کر انہیں للکارتی ہے ۔صفیہ احمد کے خطوط کو ادبی سطح پر بہت سراہا گیا ۔انہیں آج بھی دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے ۔

سارہ شگفتہ کے خطوط کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ایک تھی سارہ ، میں ہمیں ایک ایسی دکھی روح ملتی ہےجسے پڑھنے کے بعد نرم دل انسان کا اپنے آنسوو ئو ں پر قابو نہیں رہتا ۔ اپنی خود کشی سے پانچ دن پہلے سارہ نے اپنے شوہر سعید کو جو تین خطوط لکھے ، ان میں اس کی بھر پور محبت اور وفا جھلکتی ہے ۔سارہ شگفتہ نے اپنی زندگی میں ہونے والی ہر بات کو امرتا پریتیم کے خط میں لکھا۔ جنہیں سارہ کی خود کشی کے بعد امرتا نے مرتب کرکے ہم تک پہنچایا ۔

موجودہ دور میں خط لکھنے کا سلسلہ تو ویسے ہی متروک ہو چکا ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ خواتین ادیب کو اپنے جذبات و حساسات کو ضرور احاطہ تحریر میں لانا چاہیے ۔ان کی کاوشوں سے خطوط کی دنیا میں ان کا ایک معتبر مقام بن سکتا ہے ۔وہ یہ کمی پوری کرنے کی بدرجہ اتم صلاحیت رکھتی ہیں۔آج کی خواتین تو سیاسی و سماجی اور ہر سطح پر ماضی کی خواتین سے زیادہ فہم وادراک کی مالک ہیں۔ اگر وہ قلم اٹھائیں تو ہر پہلو کو موثر اندازسے ادبیت کے سانچے میں ڈھال کر پیش کر سکتی ہیں۔ آپ کے اس سوال نے مجھے خط لکھنے کی تحریک دی ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ جیسے جو میں کسی سے نہیں کہہ پاتی مگر کہنا چاہتی ہوں ۔وہ سب مجھے اپنے خطوط کے ذریعے کہہ دینا چاہیے ۔اس کے لیے ضروری نہیں کہ میرے پاس امرتا ہو، میں یہ سب اپنی ہمزاد کو بھی لکھ سکتی ہوں۔ کوئی تو ہوگا تو میرے مرنے کے بعد ان کو شائع کرنے کا سوچے گا۔ ایک تھی صبا ، کے دل میں کیا ہے ۔ وہ کیا سوچتی ہے اور کیا چاہتی ہے۔ اسے بھی تو سامنے آنا چاہیے ۔ میں تو ایک تنہا روح ہوں جو اپنے کرب کو بانٹ بھی نہیں سکتی کیونکہ مجھے عادت بھی نہیں اور کسی کو میری باتیں سننے سے دلچسپی بھی نہیں ۔یہاں ہر کوئی اپنی باتیں کرنا چاہتا ہے۔کسی دوسرے کو سننا اور سمجھنا ہمیں اچھا نہیں لگتا ۔قلم کاغذ سے دوستی بچپن سے رہی ہے ۔ ان دوستوںکو میں اپنے سب احساسات بیان کر سکتی ہوں ۔ زندگی نے مہلت دی تو شائد میں صفیہ اور سارہ کے اس قافلے میں شامل ہو جائوں۔

سوال :  اگر آپ کی بیٹی قلم کار بننا چاہے تو آپ اسے اجازت دیں گی ۔

جواب: میرے خیال میں قلم کار فطری ہوتا ہے ۔۔ فطری صلاحیتوںکو نکھارنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ خدادا دصلاحیت جب نکھر کر سامنے آئے تو پھر شاہکار تحریریں تخلیق ہوتی ہیں۔ اگر اس کے اندر اللہ نے فطری طور پر رکھی ہے تو وہ ضرور قلم کا ر بنے ورنہ بے کار کے شغل سے کوئی فائدہ نہیں۔ بہرحال قلم کار بننا بھی ایک اضافی خوبی ہے اور اسے اضافی وقت میں ہی کرنا چاہیے ۔جب کوئی چیز شعر و افسانہ ایک اچھے دماغ میں نمو پاتا ہے تو پھر یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ سامنے نہ آئے ۔ اس لیے قلم کار کا قلم کبھی رکتا نہیںاور نہ ہی کوئی شعبہ اس کے اس شوق میں رکاوٹ بنتا ہے ۔ زندگی کا اولین مقصد اچھا معاش اور روزگار ہے جس کے لیے کسی ڈیمانڈنگ شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے ۔زندگی کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں ۔ ضروریات ہی ہماری ترجیحات کا تعین کرتی ہیں۔

مجھے اچھا لگے گا اگر میری بیٹی بھی قلم کار بنے ۔ وہ مجھ سے آگے بڑھ کر کام کرے اور بہترین نام کمائے ۔میں جواپنی مجبوریوں کے سبب نہ کرسکی ،وہ ان سے آزاد ہوکر پوری دل جمعی سے کام کرے اور تخلیق کی دنیا میں ایک روشن ستارہ بن کر سامنے آئے ۔

بہت نوازش۔آپ کا یہ انٹرویوذوق میں شایع ہو گا۔

آخر میں ذوق انتظامیہ کی شکر گزار ہوں کہ مجھ نا چیز کو اس قابل سمجھا۔۔بہت عمدہ سوالات تھے جن کا جواب دینے کا مزا آیا۔ذوق کے عمدہ معیار کی قائل ہوں۔بہت عمدہ سوالات تھے جن کا جواب دینے کا مزا آیا۔ذوق کے عمدہ معیار کی قائل ہوں۔ اس نے بہت کم عرصے میں اپنا نام بنایا اور سرفہرست جرائد میں شمار ہونے لگا؛ایسا صرف آپ کی اور ارشد سیماب ملک کی محنت کے سبب ہے

تحریریں

ایم فل
پروفیسر اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

کراچی کا بازار حسن ( Red Light Area of Karachi)

منگل مارچ 9 , 2021
اصل بات یہ تھی کہ ان لڑکیوں میں سے جس نے سر پر دوپٹہ جما رکھا تھا وہ اداکارہ بابرہ شریف تھیں جو اپنی خالہ سے عید ملنے آئی تھیں۔
Red Light Area of Karachi

مزید دلچسپ تحریریں