“ہم تو چپ چاپ گئے تھے ملنے۔۔۔”

“ہم تو چپ چاپ گئے تھے ملنے۔۔۔”

Dubai Naama

“ہم تو چپ چاپ گئے تھے ملنے۔۔۔”

سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے 6ججز کے خط نے ملکی سیاسی بحث و تمحیص کی تاریخ میں ایک ہنگامہ سا برپا کر دیا ہے۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا، کہا اور سنا جا رہا ہے جو کسی بھی ملک کی عدلیہ کے فیصلوں اور عام معمولات کی عدالتی کارروائیوں اور انصاف کے آزادانہ تقاضوں کے بلکل برعکس ہے کہ ججز سے مرضی کے فیصلے لکھوانے کے لیئے ان پر ریاستی دباوُ ڈالا جائے۔ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ پہلے ہی بہت بدنام ہے اور اعلی عدلیہ کے لیئے بدنامی کا باعث ہے۔سپریم کورٹ میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی آئینی درخواست پر سماعت کے دوران تیرہ رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے بھی کہا تھا: “خدارا ہمیں مولوی تمیز الدین کیس کا حوالہ نہ دیں یہ ہمارے لئے طعنہ بن چکا ہے۔” اس وقت بھی دنیا میں عدالتی انصاف میں پاکستان کا نظام عدل 130ویں نمبر پر کھڑا ہے اور ایشیا کے 6بڑے عدالتی نظاموں میں ہم 5ویں نمبر پر ہیں۔ انہی نشستوں میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ ہماری عدالتوں کو یہ کہہ کر محاورتا گالی دی جاتی ہے کہ: “عدالتیں امیروں کی داشتائیں ہیں” (Courts are bitches of riches) کہ مولوی تمیزالدین کیس میں جسٹس منیر کے متنازعہ فیصلے اور بھٹو کی پھانسی میں جسٹس مولوی مشتاق کے ذاتی عناد اور متعصبانہ کردار سے لے کر جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس عطا بندیال کے زبان زد عام فیصلوں تک پہلے ہی ہم اپنے انصاف پسندانہ معیار کے سامنے سخت شرمندہ ہیں۔ بھٹو کی پھانسی کو عوام میں عموما “عدالتی قتل” کہا جاتا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف صدر آصف علی زرداری نے سنہ 2011ء میں ریفرنس دائر کیا تھا۔ صدارتی ریفرنس میں دیئے گئے سوالوں پر عدالتی رائے میں جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ بھٹو ٹرائل میں فیئر ٹرائل کے بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا تھا اور فیصلہ عدالتی نظیر ہے یا نہیں اس سوال میں قانونی اصول کو واضح نہیں کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے یہ ریمارکس ایک ریفرنس کیس ہے کہ ماضی میں ہماری عدالتوں سے فیصلہ سازی میں واقعی سنگین غلطیاں ہوتی رہی ہیں۔ جیسا کہ ضیاءالحق نے بھی سنہ 1977ء کے مارشل لاء کی عدلیہ سے توثیق حاصل کر لی تھی۔ اب شاید ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ انصاف کی بالادستی کے لئے بیرونی دباوُ کے خلاف عدلیہ کے اندر سے آواز اٹھی ہے۔ کچھ کالم نویسوں نے تو پردہ داری سے کام لیا ہے اور یا پھر انہوں نے ایک پارٹی کی وکالت کرتے ہوئے ان 6ججز کے اس اقدام پر تجاہل عارفانہ طرز کی تنقید بھی کی ہے۔ ان کے بقول یہ 6 ججز نون لیگ کی اعلی قیادت کے خلاف مثلا سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف (جو کہ اس وقت پنجاب کی وزیر اعلی ہیں) کے خلاف فیصلے دیتے رہے ہیں۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چایئے کہ قلم کی حرمت کا ایک اپنا ہی تقدس اور مقام ہوتا ہے۔ ایک معاصر اخبار کے کالم نویس کے بقول ان 6ججز نے اداروں کی عدلیہ میں مداخلت پر اعتراض اٹھایا ہے۔ اب معلوم نہیں کہ ہائی کورٹ کے 6ججز کے خط کا مکمل متن کیا ہے مگر اطلاعات کے مطابق ان ججز صاحبان نے واضح طور پر انٹیلیجنس اداروں جس میں انٹرسروسز انٹیلیجنس (ISI) بھی شامل ہے پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ان کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔

جوڈیشل کونسل ججوں کے احتساب کا ایک آزاد ادارہ ہے اور کوئی عدالت اس کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی ہے۔ 26مارچ کو جونہی اس خط کا معاملہ منظر عام پر آیا وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ میں جا کر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب سے ملاقات کی۔ ملاقات کا ایجنڈا کیا تھا یا اس ملاقات میں کیا معاملہ طے کیا گیا اس کے بارے کسی کو کچھ معلوم نہیں مگر یہ سب جانتے ہیں کہ پہلے عزت مآب چیف جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب نے اس معاملہ کی پوچھ گچھ کے لیئے 6ججز کے مقابلے میں ایک رکنی بنچ تشکیل دیا تھا اور جب سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ان 6ججز کے کیس پر تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی سے معذرت کی تو جناب چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے سات رکنی بنچ بنا دیا جو ان ججوں کے خط کے معاملے کی تحقیقات کرے گا۔ جیسا کہ آپ سب کو اندازہ ہے کہ اس ہائی پروفائل بنچ میں بھی جسٹس منیب اختر یا جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید وغیرہ میں سے کسی کو شامل نہیں کیا گیا تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ بنچ میں قاضی صاحب کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم افغان شامل ہیں۔
محترم المقام جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب جب چیف جسٹس نہیں بنے تھے تو انہیں ہمیشہ سابق چیف جسٹس عطا بندیال سے یہ شکوہ تھا۔بدقسمتی یہ ہے کہ جب سے وہ خود چیف جسٹس بنے ہیں، انہوں نے کسی بھی اہم بنچ میں ان فاضل جج صاحبان کو شامل کرنے سے گریز کیا ہے جن کی آراء اور فیصلہ جات قاضی فائز عیسیٰ صاحب سے عموما مختلف ہوتے ہیں۔

کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس بنچ میں جسٹس منیب اختر کو بھی شامل کر لیا جاتا، اس سے سپریم کورٹ کے چاروں سینئر جج صاحبان اس تحقیقاتی کمیشن میں شامل ہو جاتے۔ عین ممکن ہے اس کی کوئی ٹیکنیکل وجہ ہو، لیکن وزیراعظم شہباز شریف کا سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی سے جا کر ملاقات کرنا بہت سے مشکوک سوالات کو جنم دیتا ہے۔

اس کے باوجود اس فل بنچ میں ایک خیر کا پہلو یہ ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ کو اس بنچ میں شامل کیا گیا ہے جنہوں نے سائفر کیس میں عمران خان کی ضمانت دی تھی اور بڑا جرات مندانہ تفصیلی نوٹ لکھا تھا۔ بہرحال اس میں سینئر ترین جج منصور علی شاہ بھی شامل ہیں اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی ہیں جو اپنی مختلف اور منفرد آرا کی وجہ سے اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ سات رکنی بنچ اس معاملےکو اچھے اور منصفانہ انداز سے نمٹائے گا اور عدلیہ کے معاملے میں انتظامیہ یا مختلف محکموں کی مداخلت ختم ہو گی اور جنہوں نے ایسا کیا ان کے خلاف کارروائی بھی ہو سکے گی۔

یہ بنچ دراصل عزت مآب چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ ایک وقت تھا جب نون لیگ نے اسی سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا آج اسی نون لیگ کے وزیراعظم شہباز شریف صاحب نے سپریم کورٹ میں جا کر چیف جسٹس سے ملاقات کی۔ بدقسمتی سے مثالی شہرت کے باوجود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنی مدت میں ابھی تک ایک بڑے حلقے کو شدید مایوس کیا جب نواز شریف کی ضمانت کے لیئے عدلیہ کے عملے کو ائیر پورٹ بھیجا گیا۔
جناب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے پرانے مقدمات میں تو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے، مگر جو آج کے کیسز اور اصل مسائل ہیں، ان میں وہ حیران کن حد تک دفاعی اور کمزور پوزیشن میں نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے کچھ فیصلے وکلاء اور قانونی ماہرین کے حلقوں میں متنازع اور قابل اعتراض رہے ہیں۔
ان مجوزہ 6ججز نے انٹیلیجنس اداروں کی مداخلت کے بارے اعتراض کیا ہے۔ اللہ کرے اس کمیشن کے کچھ ایسے نتائج آئیں کہ انٹیلیجنس اداروں کی مداخلت سے عدلیہ بچی رہے اور سیاسی مداخلت سے بھی۔ اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اب نون لیگ سپریم کورٹ پر حملہ کر کے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی بجائے سپریم کا طواف کر کے وہی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اگر ان 6ججز صاحبان کو آئی ایس آئی کی فوجی مداخلت پسند نہیں تو میری رائے میں کمیشن کو نرم خو سیاسی مداخلت کو بھی سختی سے رد کر دینا چایئے تاکہ عدلیہ اپنا کھویا ہوا وقار بحال کر سکے:

غنچۂ شوق لگا ہے کھلنے،
پھر تجھے یاد کیا ہے دل نے۔

انجمن انجمن آرائش ہے،
آج ہر چاک لگا ہے سلنے۔

آج گوہر سے صَدف کی رُوداد،
نئے عنواں سے کہی ساحل نے۔

داستانیں ہیں لبِ عالم پر،
ہم تو چپ چاپ گئے تھے ملنے۔

Title Image by Ulrich B. from Pixabay

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

تدوینِ دیوانِ غالب کی ایک ما بہ الامتیاز کوشش !

بدھ اپریل 3 , 2024
جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو اپنے اردو کے استاد محمد احمد نقوی صاحب سے ایک شعر سنا طاعت میں تارہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
تدوینِ دیوانِ غالب کی ایک ما بہ الامتیاز کوشش !

مزید دلچسپ تحریریں