آخر 2024 آ ہی گیا

آخر 2024 آ ہی گیا

تحریر محمد ذیشان بٹ
بدلنا ہے تو دل بدلو بدلتے کیوں ہو ہندسے کو
مہینے وہی ہوں گے سنا ہےسال بدلا ہے
پوری دنیا میں ایک بلا وجہ کا واویلا تھا کہ سال تبدیل ہو رہا ہے ۔ جیسے پہلی دفعہ ہو رہا ہو۔ یورپی اقوام اس میں سر فہرست ہیں اور پھر ہمارے کالے انگریزوں نے تو اپنے مغربی آقاؤں کی نقل تو کرنی ہی ہے2023 کو جانا تھا وہ چلا گیا الحمدللہ اسی طرح 2024 کو آنا تھا وہ آگیا الحمدللہ ۔ دنوں مہینوں سالوں کا تبدیل ہونا یہ امر الہی ہے انسان کے اختیار میں نہیں ہے انہوں نے تبدیل ہونا ہی ہے اور وہ ہو کر رہتے ہیں آپ ایک سال خوشی کی بجاے ماتم کر کے دیکھ لیں یہ تب بھی تبدیل ہونگے آپ کی خوشی یا ماتم ان کو روک نہیں سکتے جیسے سورج کا نکلنا وہ انسان کے اختیار میں نہیں اس کو نکلنا ہی ہوتا ہے اسی طرح سورج کا ڈوبنا ، موسموں کا بدلنا یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے ۔ سال کے بدلنے سے ہمیں یہ بھی سیکھنا ہے کہ ہمیں اختیار تو حاصل ہے مگر مکمل طور پر اختیار نہیں دیا گیا یعنی اگر ایک ٹیم میں ایک کپتان کو 15 کھلاڑیوں میں سے 11 کھلانے کا اختیار ہوتا ہے ان میں سے وہ جو چاہے 15 میں سے 11 کو کھلا سکتا ہے لیکن ایک دفعہ جو 11 کھلاڑیوں کو وہ گراؤنڈ میں اتار لیتا ہے پھر ان کو بدلنا اس کے اختیار میں نہیں ہوتا اسی طرح اللہ تعالی نے انسان کو دنیا میں اختیار تو دیا ہے نیکی اور بدی دونوں کا راستہ دکھا کے اس کو موقع ضرور دیا ہے لیکن یہ اتنا اختیار نہیں دیا کہ وہ خود اپنی موت ، زندگی کے فیصلے طے کرے کہ کب تک اس نے دنیا میں رہنا ہے کب جانا ہے ؟ آخرت پر ایمان رکھنے کا عقیدہ ہی انسان کو دنیا میں رہنے کا سلیقہ سکھاتا ہے یعنی اگر انسان کا یہ یقین ہے کہ اس نے مرنے کے بعد جی اٹھنا ہے اور جینے کے بعد اپنے خالق کو جا کر اپنے دنیا میں کیے گئے اعمال کا حساب دینا ہے جہاں اچھوں کی جزا ملے گی بروں کی سزا ملے گی تو وہ دنیا میں طریقے سے زندگی گزارے گا ۔ سال کے بدلنے کو تو ہم روک نہیں سکتے بہرحال ہاں انسان جو کر سکتا ہے وہ خود کو بدل سکتا ہے اور زندہ قومیں ہمیشہ یہی کرتی ہیں کہ سالوں کے تبدیل ہونے پر وہ نیا عزم کرتے ہیں کہ جو پرانی غلطیوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ پچھلے سال ان سے چاہتے نہ چاہتے کون سی غلطیاں ہوئی ۔ کتنے لوگوں کا دل دکھایا ، کتنے غلط کام کیے، کتنے اچھے کام کیے ۔ پھر وہ ایک نئے عزم کے ساتھ اپنے اچھے کاموں کو جاری رکھتے ہیں ان میں مزید بہتری لاتے ہیں برے کاموں سے اجتناب کرتے ہیں ایسے رشتہ دار ، دوست جن سے تعلق اس سال خراب ہو گئے ان سے تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہمارے ہاں چونکہ پڑھائی کا رواج صرف ٹیکسٹ بک تک ہی ہے، ہم نے پڑھائی کو صرف سلیبس اور نمبروں تک ہی محدود کر دیا ہے وگرنہ زندہ اقوام ہمیشہ اپنا جائزہ لے کر اپنے آپ میں بہتری لاتی ہیں ہم کوئی آپ سے یہ نہیں کہہ رہے کہ سال کی تبدیلی پر بلا وجہ کا واویلہ مچائے ، آتش بازی کریں ، کوئی غیر قانونی کام کریں بہرحال آپ اپنے آپ کو بدل سکتے ہیں اگر اپ نے اس سال 2023 کے بعد 2024 میں اپنے اپ کو بدل لیا تو سب سے بڑی تبدیلی یہی ہوگی تو آپ کامیاب ہیں اگر آپ نے اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھ لیا اور اپنے اچھے کاموں میں مزید بہتری لائے تو 2023 سے 2024 میں بدلنے کا آپ کو فائدہ ہوگا ورنہ سال اسی طرح 24 سے 25 اور 26 اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا اپ ویسے کہ ویسے ہی رہیں گے آپ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بہرحال سال کو بدلنے کے بعد جواب نہیں دینا لیکن انسان کو اپنی آخری زندگی میں جا کر جواب ضرور دینا ہے اور اس سے بھی اہم اپنے پیچھے جو اپ اپنے لوگ چھوڑ کے جائیں گے سال تو بدلتے ہی رہیں گے اور وہ بھی آپ کی طرح آپ کی اولاد ہوں گے نہیں بدلیں گے تو ان کا کیا دھرا بھی اپ کے ذمے ہی پڑے گا
ایک اور اہم بات اپنے اپ کو بدلنے کے لیے سال کے بدلنے کا انتظار کرنے کی بھی ضرورت نہیں انسان کو ہر وقت تیار رہنا چاہیے کیونکہ سال نے تو ہمیشہ دسمبر کے بعد ہی بدلنا ہوتا ہے لیکن انسان کب زندہ سے مردہ بن جائے اور چلتے پھرتے حاجی ،چوہدری اور ملک سے ایک مردہ بن جاے اور میت کہلاے اس کی پہچان اس کی ایک سانس کی محتاج ہے جیسے ہی وہ سانس نکلے گی اس کی اپنی پہچان ختم ہو جائے گی اور آپ کا کیا دھرا اپ کی ساری حاصلات آپ کے پچھلوں کے لیے رہ جائے گی ۔ جس مال کو آپ جمع کرتے رہے بچا بچا کے رکھتے رہیں نہ اپنے لیے مناسب خرچ کیا، نہ اللہ کے دین پہ مناسب خرچ کیا۔ آپ کی اولاد نے اس کو پھر اپ کے پیچھے آپ کے لے نہیں خرچ کرنا وہ بلکہ خود اس کو استعمال کریں اس لیے اپنا احتساب روزانہ کی بنیاد پہ کریں روزانہ رات کو سوتے وقت اپنا جائزہ لیں کہ کیا اچھے اپنے کام کیے ہیں ان پہ الحمدللہ کہیں کیا غلطیاں ہو گئیں ان پہ استغفار کریں ندامت کا اظہار کریں اور ایک مستقل مزاجی کی کیفیت اپنائیں تاکہ اپ معاشرے کے ایک مفید شہری بن سکیں اسلام اپ کے کردار سے نظر ائے پھر اپ کو تبلیغ کی ضرورت نہیں پڑے گی ایسی اقوام جو اخلاقی طور پر بہت بہتر ہیں ہم کیسے ان کو اسلام کی طرف لے کر ائیں گے ؟ کب تک ان کو اپنے روشن ماضی کا حال سناتے رہیں گے اگر وہ ہم سے یہ سوال پوچھ لیں کہ اپنے حال کا تذکرہ بھی کرو کتنے بے عمل لوگ ہیں ہم اس لیے ہمیں بدلنے کی ضرورت ہے سال نے تو ویسے بھی بدل جانا ہے غور ضرور کیجئے گا

Title Image by Annette Meyer from Pixabay

تحریریں

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

میرے استاد

پیر جنوری 1 , 2024
آج میں اس ہستی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ جن کی شفقت اور محنت سے مجھ ناچیز کو نعت لکھنے کا ہنر نصیب ہوا
میرے استاد

مزید دلچسپ تحریریں