اک چراغ جو مشعل راہ تھا

حضرت اظہارؔ وارثی :اک چراغ جو مشعل راہ تھا
جنید احمد نور
ایک کمرے میں کرسی رکھی ہوئی ہے جس کے بغل میں ایک ٹہنی رکھی ہوئی ہے اور کرسی پر ایک دبلے پتلے سے بزرگ انسان لنگی اور کرتا پہنے ہوئے ،سر پر کپڑے کی ٹوپی ، آنکھوں پر کبھی کالا چشمہ لگائے ہوئے کرسی کے بغل میں میز پر دوائے اور کچھ رسالے رکھے ہوئے ساتھ میں ہی ایک سیمسنگ کا اسکرین ٹچ والا بہترین موبائل رکھا ہوا ہےجس سے آپ اپنے دوستوں احباب کو واٹس اپ اور فون کے ذریعہ رابطہ کرتے ، کمرے کی ایک دیوار پر کچھ اسناد فریم کی ہوئی لگی ہیں۔ملنے آنے والوں کے لئے کرسی کا انتظام ہیں۔یہاں بیٹھنے والے بزرگ شخص کوئی معمولی شخص نہیں بلکہ وہ شہر بہرائچ کے عظیم الشان شاعر جناب اظہار وارثی صاحب تھے۔
اظہار ؔ صاحب کی پیدائش صوبہ اتر پردیش کے علاقہ اودھ کے تاریخی شہر بہرائچ میں ۲۱؍ نومبر ۱۹۴۰ء کو حکیم محمد اظہرؔ وارثی کے یہاں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام حکیم اظہرؔ وارثی اور والدہ کا نام کنیز سکینہ تھا۔آپ کے والد مولانا ابو کلام آزادؔ اور مولانا حسرتؔ موہانی کے شاگرد تھے۔ اظہار ؔصاحب کے دادا حکیم مظہر علی کے بڑے بھائی حکیم صفدرعلی وارثی صفاؔ اور والد حکیم اظہرؔ وارثی شہر کے مشہور معالجین میں شمار ہوتے تھے۔ حکیم صفدر علی وارثی صفاؔ صاحب حاجی وارث علی شاہ ؒ کے مرید تھے اور حاجی وارث علی شاہ ؒ پر ایک کتاب لکھی جس کا نام جلوۂ وارث ہے۔ یہ کتاب اردو میں ہے اور نایاب ہے۔ یہ کتاب کتب خانہ درگاہ شریف بہرائچ میں موجود ہے۔ اظہار ؔ صاحب کے والد حکیم اظہرؔ استاد شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ اظہار ؔ صاحب سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے تھے۔آپ کی ایک خاص بات تھیں کہ آپ صرف شعر لکھتےتھے کسی مشاعرہ میں پڑھنے نہیں جاتے تھے۔آپ ایک اعلیٰ درجے کے شاعرتھے۔ آپ اردو شاعری میں نئے نئے تجربات کرنے کے لیے مشہور اور معروف تھے۔ آپ نے اردو شاعری کی تمام اصناف میں اپنے کلام کا جادو بکھیرا اورکئی نئی قسمیں ایجاد کیں۔ آپ نے 11 اصناف میں شاعری کی ہے۔ (۱) غزل (۲) نظم، نظم کی مشہورقسمیں ہیں (ا) پابند نظم (ب) آزاد نظم (ج) معرا نظم (د) نثری نظم۔ (۳) رباعی (۴) قطعات (۵) ثلاثی (۶) ماہئے (۷) ہائکو (۸) دوہے (۹) بروے(اردو میں بروے اور چھند کو رائج کیا) (۱۰).سانیٹ (۱۴مصرعوں کی نظم انگرزی میں ہوتی ہے۔) (۱۱) ترایلے (یہ فرانسیسی زبان میں ۸ مصرعوں کی ہوتی ہے)۔اس کے علاوہ مہتابی غزل اور لوک غزل کا ایجاد بھی آپ نے کیا ۔

Izhar warsi
حضرت اظہارؔ وارثی


پروفیسر مغنی تبسم اظہار ؔ وارثی کے بارے میں لکھتے ہیں :
اظہارؔ وارثی جدید دور کے ایک اہم نمائندہ شاعر ہیں۔انہوں نے نظم ،غزل،رباعی،قطعہ،دوہا،ماہیا،ثلاثی،ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور ان میں سے ہرصنف کو کامیابی سے برتا ہے اور اس کا حق ادا کیا ہے۔اظہار وارثی ایک باشعور اور حساس فن کار ہیں۔اپنے ملک کے سماجی اور سیاسی حالات کے علاوہ عالمی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ان حالات اور مسائل پر کبھی بہ راہِراست اور کبھی استعاروں اور کنایوں میں اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔جن نظموں میں بہ راہِ راست خیالات اور جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ان کو احساس کی شدت نے اثر انگیز بنا دیا ہے۔ اظہار وارثی کی اس نوع کی نظموں میں ’سوچ‘،’دشمنی کیوں‘،’دیوار‘،’جڑواں نظمیں ‘،’وعدوں کاموسم‘،اور ’میں نہیں جانتا‘،’بچے مفلس‘کے قابل ذکر ہیں۔
آپ نے پانچ کتابیں تصنیف کی جو اس طرح ہیں :
(۱) کبوتر سبز گنبد کے (۲) کشتِ خیال (۳) سونچ کی آنچ (۴) بوند بوند شبنم(۵) شبِ تنہائی کا چاند
اس کے علاوہ ایک کتاب آپ کی شخصیت پراظہارؔ وارثی شخصیت اور فن کے نام سے جناب شارق ؔ ربانی نے ۲۰۱۷ ء میں مرتب کیا۔
اردو اکادمی اترپردیش، انجمن ترقی پسند مصنفین نے آپ کو اعزازات اور اسناد سے سرفراز کیا ہے۔ ڈی۔ایم۔بہرائچ اور دیگر ادبی تنظیموں نے بھی آپ کو اعزازات اور سند سے سرفراز کیاہے۔ آپ کا جشن بھی منایا گیا، ۹؍ جون ۱۹۷۹ءکو نگر پالیکا بہرائچ کے ہال میں جس میں ہندوستان کے نامور شعراء نے شرکت کی تھی۔ خاص مہمانوں میں حسرت ؔجے پوری، غلام ربانی تاباںؔ، خمارؔ بارہ بنکوی، معین احسن جذبیؔ، ناظر ؔخیامی، ہلالؔ سیوہاروی، ایم.کوٹہوری راہی ؔاور بیگم بانو دراب وفاء ؔوغیرہ تھے۔
اپنے بچپن کے دوست حضرت اظہار وارثی کے بارے میں پروفیسر طاہر محمود صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ اظہارؔ وارثی کا پورا کلام ہم نے پڑھا ہے، بار بار پڑھا ہے اور انکی خیال آفرینی کو دل سے سراہا ہے۔ انکے درج ذیل اشعا ر نے جو انھوں نے علّامہ اقبالؔ کے مشہور زمانہ شعر ’’باغ بہشت سے مجھے حکم سفر ہواتھا کیوں، کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر‘‘ کے حوالے سے لکھے تھے ہمیں بے حد متاثر کیا تھا:
کسی سے تم اذن سفر لے کے آئے ہو
کار جہاں کی درازی کو یکسر بھلاکر
نئے دیس میں صرف سانسیں گنواکر کہاں تک رہوگے
تمہیں اپنے ہونے کی توثیق کرنے کی خاطر
زمیں کی تہوں میں اترنا بھی ہے
آسمانوں کو مٹّھی میں بھرنا بھی ہے
اس سے پہلے کہ گھر سے کوئی آکے کہہ دے چلو گھر چلو
زندگی کے مختلف ادوار میں اظہار وارثیؔنے اپنے مختلف الاصناف کلام کے تین مختصر مجموعے شائع کروائے تھے جن میں ’’کبوتر سبز گنبد کے‘‘ حمدو نعت پر مشتمل ہے، ’’کشت خیال‘‘ میں غزلیں اور نظمیں وغیرہ شامل ہیں اور ’’سوچ کی آننچ ‘‘ میں ثلاثی، ماہئیے اور دوہے۔ اب سے کئی سال پہلے جبکہ وہ متعدّد بیماریوں میں مبتلا ہو چکے تھے انھوں نے ایک دن فون پر ہمیں بتایا کہ انکا باقی ماندہ کلام ’’شب تنہائی کا چاند‘‘ کے عنوان سے مرتّب کیا گیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے ’’رسوخ ‘‘کا استعمال کرکے اسکی اشاعت کیلئے کسی ادارے سے مالی اعانت کا انتظام کردادیں ۔ اب رسوخ وسوخ ہمارے پاس کہا ں دھرے تھے، مسودہ منگواکے خاموشی سے ایڈیٹ کیا، پیش لفظ لکھا اور اپنی طرف سے چھپوادیا کہ شائد اس طرح نصف صدی سے زائد کی دوستی کا حق کسی قدر ادا ہوجائے۔ کتاب کے نسخے پہونچے تو بے انتہا خوشی کا اظہار کیا اور ہمیں لکھا کہ اسکی بدولت بیماری کی شدّت میں قدرے کمی آنے لگی ہے۔ لیکن انکی یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی اور چند ماہ بعد ہی پرانے عارضوں نے مزید ترقّی کر کے انھیں صاحب فراش کردیا مگر پھر بھی ان سے ہر ہفتے فون پر بات ہوتی رہتی تھی۔ ایک دن چند روز کے بیرونی سفر سے واپس آکر ہم نے فون کیا تو نقاہت بھری آواز میں بولے کہ ’’ہمارا آخری سلام لے لو آئندہ شاید ہم بات کرنے کے قابل نہ رہیں‘‘۔ اسکے دو ہفتے بعد ۲۱؍اگست ۲۰۱۸ء کو اظہارؔ میاں چل دئیے ،وہاں جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔(ْقصّہ چہار درویش از طاہر محمود ،صفحۃ ۷)
لیکن آج افسوس اس بات کا بہرائچ کی سرزمین پر اس نایاب ہیرے کو وہ مقام نہیں ملا جس کا وہ حقدار تھے۔اظہار ؔ وارثی صاحب صحت خراب ہونے کے باوجود اپنے گھر پر ہر روز تین گھنٹہ کے لئے گھر کے باہری کمرہ میں بیٹھتے تھے ۔ جہاں آپ ملنے والوں سے ملاقاتے کرتے تھے۔راقم الحروف نے اظہار ؔ صاحب سے ان گنت ملاقاتیں کیں۔ اظہار ؔ صاحب راقم الحروف کو بہرائچ کے تاریخ پر ایک کتاب لکھنے کو کہا تھا جس پر راقم کام انکی حیات میں ہی تقریباً مکمل کر لیا تھا اور اظہار ؔ صاحب کے نیک مشوروں سے آراستہ بھی ہیں۔ انشاء اللہ وہ کتابی شکل میں منظر عام پر ہوگی ،لیکن افسوس اس پر نظر ثانی کرنے کے لئے اظہار صاحب نہیں ہونگے۔ اظہار صاحب اکثر یہ شعر کہا کرتے تھے ؎
ہر نفس صبر آزما ہے اور میں
زندگی کی کربلا ہے اور میں
یاد ماضی، آج کا غم، کل کے خواب
سوچ کا اک سلسلہ ہے، اور میں

اظہار ؔ صاحب کی وفات ۲۱؍ اگست ۲۰۱۸ء کو ہوئی تھی آپ کی نماز جنازہ مسجد چھوٹی تکیہ بہرائچ میں بروز بدھ ۱۰ ذی الحجه ۱۴۳۹ھ مطابق۲۲ اگست ۲۰۱۸ء کو بعد نماز عید الضحیٰ پڑھی گی اور تدفین تکیہ کرم علی شاہ المعروف چھوٹی تکیہ میں ہوئی تھی۔
غزل
لمحہ لمحہ دستک دے کر تڑپاتا ہے جانے کون
رات گئے من دروازے پر آ جاتا ہے جانے کون
اپنی سانسوں کی خوشبو کو گھول کے میری سانسوں میں
میرا سونا جیون آنگن مہکاتا ہے جانے کون
اک انجانے ہاتھ کو اکثر شانے پر محسوس کروں
مجھ سے دور ہی رہ کر مجھ کو اپناتا ہے جانے کون
آنکھیں تو پربت کے پیچھے چھپتے چاند کو دیکھیں بس
اس منظر کی اوٹ میں لیکن شرماتا ہے جانے کون
دھوپ میں دشت تنہائی کی میرے جلتے ہونٹوں کو
لمس اپنے گلبرگ لب کا دے جاتا ہے جانے کون
اپنے پرائے چھوٹ گئے سب آس کھلونے ٹوٹ گئے
پھر بھی ضدی من بالک کو بہلاتا ہے جانے کون
یکساں تیور یکساں چہرے سب ہی دکھ دینے والے
لیکن اس بستی میں بھی اک سکھ داتا ہے جانے کون

Juned

جنید احمد نور

بہرائچ، اترپردیش

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

نوجوانوں سے اقبالؒ کی اُمیدیں

پیر نومبر 22 , 2021
ہماری قوم کو بدلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ نو جوان طبقے کو فکر ِاقبالؒ سے روشنا س کرا یا جائے ۔
Iqbal

مزید دلچسپ تحریریں