دو ملاؤں کے درمیان ‘مرغی’ حرام!

دو ملاؤں کے درمیان ‘مرغی’ حرام!

dubai naama

ملاؤں کے درمیان

تحریر: جوسف علی

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب کی اپیل پر چیف جسٹس سے اظہار یکجہتی کے لئے ہفتہ کے روز لاہور اور مردان میں نکالی گئی ریلیوں میں دو افسوسناک واقعات پیش آئے۔ اس میں ایک واقعہ خاتون کے ‘ٹ ا پ ل ی س’ ہو کر رقص کرنے کا ہے، اور دوسرا واقعہ مردان میں ایک مولوی کے قتل کا ہے۔ ان واقعات کو سوشل میڈیا پر کافی کوریج مل رہی ہے۔ یہ دونوں واقعات کسی سانحہ سے کم نہیں کہ ایک طرف رقص ہوا اور دوسری طرف قتل ہوا۔ اسی کو ہی تو ‘مرڈر آن ڈانس فلور’ کہا جاتا ہے۔ اس مولوی کو ریلی کے اختتام پر دعا کے بعد بے دردی سے ہجوم نے قتل کیا۔ یہ واقعہ تب رونما ہوا جب موصوف مولوی سے سٹیج پر آ کر دعا کروانے کی التجا کی گئی تو وہ سٹیج پر آ کر پی ٹی آئی کے ایک ٹاپ عہدیدار کی تعریف کرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گیا۔ “نقل کفر، کفر نہ باشد”۔ مولوی صاحب کہنے لگے کہ، “یہ بندہ اگرچہ۔۔۔تو نہیں لیکن۔۔۔سے کم بھی نہیں ہے!!” اللہ اکبر!!! اس بات پر اس سے مائک چھین لیا گیا، اور بعد میں جلوس میں موجود وہی مولوی ہجوم کے ہتھے چڑھ گیا جسے قتل کر دیا گیا۔

یہ المناک واقعہ ‘توہین’ کے ضمرے میں آتا یے جسے بنیاد بنا کر ہجوم نے مولوی کو قتل کیا۔ ہجوم کی جو نفسیات ہوتی ہے (جسے mob mentality کہتے ہیں) وہ بے قابو ہو جائے تو پھر خود لیڈر بھی اسے کنٹرول نہیں کر سکتا۔ خان صاحب نے 14 مئی تک مسلسل ریلیاں نکالنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ہجوم کے زیر اثر ایسے ناخوشگوار واقعات مزید بھی پیش آ سکتے ہیں۔ جمہوریت کی یہ شکل جمہوریت ہرگز نہیں ہو سکتی۔ جمہوریت کی تعریف کے مطابق یہ طرز حکومت عوام سے اور عوام کے لئے ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو معاملہ بلکل الٹ ہے۔ بقول اقبال بندوں کو گننا اور تولنا تو پھر ایک بات یے۔ یہاں تو نمبر پورے کرنے کے لئے بندوں ہی کو مار دیا جاتا ہے۔ متحدہ حکومت، پی ٹی آئی اور عدلیہ کو ایسے امکانی واقعات کو روکنے کے لئے پیش بندی سے کام لینے کی اشد ضرورت ہے۔

سماعت کے دوران 6 مئی کو چیف جسٹس صاحب نے جو ریمارکس دیئے، وہ بہت قابل غور اور معنی خیز تھے۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ، “معاشی، سیاسی، معاشرتی اور سیکورٹی کے ساتھ آئینی بحران بھی ہے، کل بھی 8 لوگ شہید ہوئے، بڑی بڑی جنگوں اور ترکی میں زلزلے کے دوران انتخابات ہوئے۔” اس کا مطلب ہے کہ چیف جسٹس صاحب کو مکمل ادراک ہے کہ پارلیمان، عدلیہ، اداروں اور سڑکوں پر جو آئینی و سیاسی کشمکش کا ہنگامہ جاری ہے اس سے نہ صرف معیشت پر شدید برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، بلکہ اس سے سماج میں فسطائی سوچ بھی جنم لے رہی ہے، اور شہری بھی ہلاک ہو رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو چیف جسٹس صاحب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا استحقاق قائم کریں اور اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے حکومت اور پی ٹی دونوں کو انتخابات کی تاریخ کا ‘مناسب’ فیصلہ دیں کہ یہ ‘جنگ’ گلی کوچوں میں جانے سے رک جائے۔ 14 مئی ہی کو پنجاب میں انتخابات کروانا ایک تو اب ناممکن ہے اور دوسرا اس تاریخ پر انتخابات کروانا ان مسائل کا حل نہیں، جن کا چیف جسٹس صاحب نے ذکر کیا ہے، کیونکہ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات ہو بھی جائیں تو ملک بھر میں آئین اور قانون کے مطابق ستمبر میں ایک ہی روز (جس پر حکومت اور پی ٹی آئ نے اتفاق بھی کر لیا ہے) قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے جنرل انتخابات کروانے کے لئے پنجاب اسمبلی کو 4 ماہ بعد پھر توڑنا پڑے گا۔

دوسری طرف عوام سے حکومت کے اخلاص کا اندازہ لگائیں کہ پارلیمانی ممبران نے چیف جسٹس کو ایک طرف ریکارڈ طلبی پر پارلیمنٹ میں بلانے پر زور دیا ہے دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظرثانی کا بل سینیٹ سے بھی منظور کروا لیا ہے تاکہ میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کو اپنی سزاؤں کے خلاف اپیل کا حق مل جائے، کیونکہ وہ ‘کیسز’ کے بعد ان کی نااہلی ختم کرنا چاہتی ہے۔

دراصل، فسطائی سوچ کا مطلب یہی ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر “میں نہ مانوں” والی ضد کے تحت دوسرے کسی کی نہ سنی جائے۔ عوام کے مفادات سے منحرف عقل کی بڑی حد تک ایک قدر مشترک اسی “لٹرلسٹ” اپروچ کا ہونا ہے۔۔!! چنانچہ وہ مذہب ہو، فلسفہ ہو یا سیاست ہو اس کے پیروکار عوام کو محض لفظی اکھاڑ پچھاڑ اور نعروں میں الجھاتے ہیں اور خود کو پہلوانی کے ایسے سنگھاسن پر بٹھا لیتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو لتاڑتے بچھاڑتے رہنے کو بھی ‘آئین’ اور ‘اخلاقیات’ کا نام دیتے ہیں۔

غور کریں کہ حالیہ شدید ترین آئینی اور سیاسی بحران اس سے مختلف نہیں کہ حکومت، اپوزیشن، علیہ اور الیکشن کمیشن کی اس ‘پہلوانی’ میں نقصان صرف ملک و قوم کا ہو رہا ہے۔ اگلا بجٹ حکومت پیش کر سکے گی یا نہیں، مہنگائی اور بے روزگاری رکے گی یا نہیں، ملک دیوالیہ ہونے سے بچے گا یا نہیں، یہ کسی کو معلوم نہیں، کیونکہ عدلیہ، اپوزیشن اور حکومت کی اس دھینگا مشتی میں عوام کے مفادات کی کسی کو پرواہ نہیں، ان ریلیوں میں عوام کی کتنی جانیں مزید ضائع ہونگی، اس کا کسی کو درد نہیں! اب پی ٹی آئی سے زیادہ حکومت اور عدلیہ آمنے سامنے ہیں اور “دو ملاؤں کے درمیان مرغی حرام” کی طرح پس عوام رہی ہے۔۔۔!! سوچنے کی بات یے کہ جس حد تک حالات کو گزشتہ دھرنے میں عمران خان صاحب لے گئے تھے اور میاں نواز شریف کو کرسی سے اتارا تھا، اگر اب وہ عدلیہ اور “ریلیوں” سے شہباز شریف کو بھی ہٹانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کیا ن لیگ منہ پر پٹی باندھ کر گھر بیٹھ جائے گی یا پیپلزپارٹی پارٹی عدلیہ کا یہ وار بھی ٹھنڈے سانسوں برداشت کر لے گی جس کے ایک وزیراعظم کو عدلیہ نے پھانسی پر چڑھایا تھا اور دوسرے کو کرسی سے اتارا تھا۔ حالات انتہائی گھمبیر ہیں، جو سب کو نظر آ رہے ہیں، نظر نہیں آ رہے تو ان کو نہیں آ رہے جنہوں نے اپنی اپنی آنکھوں پر ضد اور انا کی عینک لگا رکھی ہے۔۔۔!!!

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

“حرف حرف روشنی” میری نظر میں

اتوار مئی 7 , 2023
“حرف حرف روشنی” کے ہر لفظ سے پھوٹنے والی روشنی معلومات اور بصیرت کی دنیائیں قارئین کے سامنے وا کر دیتی ہیں
“حرف حرف روشنی” میری نظر میں

مزید دلچسپ تحریریں