دیسی گھی سے ڈالڈا تک

کیا آپ جانتے ہیں ؟

( ڈالڈا  Dalda , 

بناسپتی  Banaspati  ,

وناسپتی  Vanaspati ,

اور باسمتی Basmati ,

 کے نام سب نے سنے ہیں لیکن یہ نام کہاں سے آئے اور ان کا مطلب کیا ہے . آئیے ہم بتاتے ہیں )

تحقیق و تحریر :

سیدزادہ سخاوت بخاری

برصغیر پاک و ہند ، بنگلہ دیش ، سری لنکا ، نیپال اور بھوٹان وغیرہ کے ممالک میں آباد لوگ  ، ایک تو ازل سے روزی روٹی کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں اوپر سے سیاستدانوں اور مذہبی فتنہ گروں نے انہیں ،  سیاست اور مذہبی بحثوں میں اس قدر  الجھا رکھا ہے  کہ اس سے آگے پیچھے کسی بات پر دھیان نہیں دے پاتے ۔ روزی روٹی پوری کریں ، سیاسی اور مذہبی جلسے جلوسوں میں شرکت کریں یا حصول علم پر توجہ دیں ۔

کہتے ہیں تعلیم عام ہوگئی ہے ۔ اسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں بن گئیں ہیں ۔  یہ بات کسی حد تک درست ہے ۔ ڈگری ہولڈرز کے ہجوم ضرور نظر آتے ہیں لیکن علم نہ دارد ۔

وجہ یہ ، کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں علم نہیں بلکہ ڈگریاں بانٹی جاتی ہیں ۔  جب میں دو دو تین تین ڈگریاں رکھنے والوں سے ملتا ہوں ، ان کی گفتگو سنتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے ۔ یقین جانئیے آج کا ڈگری ہولڈر اپنے مضمون کے بارے تو ضرور کچھ نہ کچھ جانتا ہے لیکن اگر اس سے ہٹ کر بات کی جائے تو

ان کے پلے کچھ نظر نہیں آتا ۔

ہمارے زمانے تک کے لوگ ڈگری کے ساتھ ساتھ علم کے حصول پہ بھی توجہ دیتے تھے لیکن اب طالب علم ہی نہیں خود والدین اس خواہش اور امید پر بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں کہ ” منڈا ” دس جماعت پاس کرکے بابو بن جائے اور گھر کا چولھا جل سکے ۔

اس ساری ٹریجڈی یا بدنصیبی کی بنیادی وجہ ، ہمارے حکمرانوں کی خود غرضیاں اور غلط پالیسیاں ہیں جن کے نتیجے میں ، اونچ نیچ کا نظام وجود میں آیا ، امیر ، امیر تر ہوتا گیا لیکن  عام آدمی

جہد للبقاء ( Survival ) یعنی صرف زندگی بچانے کی تگ و دو میں اپنی ساری عمر کاٹ دیتا ہے ۔ اسے فکر معاش ہی سے فرصت نہیں ملتی ، حصول علم پر کب اور کیونکر توجہ  دے پائیگا ۔

اس ساری بحث سے مراد فقط یہ ،  کہ ہم تیسری دنیاء کے باسی ، کولہو کے بیل کی طرح غیر شعوری زندگی گزار رہے ہیں ۔ کیا کھایا جارہا ہے  کیا پی رہے ہیں ، کچھ علم نہیں ، مقصد صرف پیٹ کی آگ بجھانا اور زندگی کے تسلسل کو قائم رکھنا ہے ۔ اب اگر اس تناظر میں  کسی سے پوچھا جائے کہ ڈالڈا کسے کہتے ہیں تو جواب آئیگا ، پراٹھہ پکانے والا گھی ۔ باسمتی کسے کہتے ہیں ، جواب ملیگا ، بریانی والے چاول ۔

iattock
Image by Balu G from Pixabay

کہتے ہیں ایک بھوکا شخص چاندنی رات میں کہیں جارہا تھا ۔ راستے میں کسی نے چودھویں کے چاند کی طرف اشارہ کرکے کہا ، دیکھو چاند کتنا پیارا لگ رہا ہے ۔ بھوکے شخص نے جواب دیا ، جی ہاں بالکل مکئی کی روٹی جیسا سفید اور گول ہے ۔  غورکریں بھوک اور مفلسی کس طرح  ، سوچ کے پیمانے تک بدل دیتی ہے اور چودھویں کا چاند بھی مکئی کی روٹی نظر آنے لگتا ہے ۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا ، اگر کسی سے پوچھو ڈالڈا کسے کہتے ہیں تو اسے پراٹھے نظر آنے لگیں گے اور اگر باسمتی کا نام لیں تو اس کی آنکھوں کے سامنے بریانی کی دیگ گھومنے لگے گی ۔ سچ بات تو یہ کہ عام آدمی ہی کیا ، آج کل کے خواص کو بھی پراٹھے ، مٹن کڑاہی اور بریانی کھانے سے غرض ہے وہ ان چکروں میں کیوں پڑیں  کہ ڈالڈا ،  بناسپتی ، وناسپتی اور باسمتی کسے کہتے ہیں ۔ یقینا ایسا ہی ہے لیکن معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کے پاس ، اگرچہ اتنی لمبی چوڑی تحقیق کا وقت تو نہیں لیکن اگر کوئی دوسرا ان کے لئے کہیں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر کوئی علمی تحقیقی بات لے آئے تو پڑھ اور جان کر خوش ضرور ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی افراد کو ذہن میں رکھ کر آج کے موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ آئیے اب چلتے ہیں اوپر دئے گئے ناموں ، ان کے معانی اور پس منظر کی طرف تاکہ آپ کے علم میں اضافہ ہو. 

ڈالڈا  DALDA

قارئین کرام ، ہم سب بچپن سے اس پراڈکٹ کا نام سنتے ،  اس میں تلی اور پکائی گئی ہانڈیاں اور پراٹھے نوش جان کرتے آرہے ہیں لیکن میرے خیال سے ایک فی صد افراد بھی اس بات سے آگاہ نہ ہونگے کہ اس کھانے کے تیل کو ڈالڈا  DALDA  کا نام کیوں دیا گیا ۔

 آگے بڑھنے سے پہلے یہ بھی جان لیں کہ جسے ہم ڈالڈا گھی کہتے ہیں یہ گھی نہیں بلکہ نباتی یا پودوں سے حاصل کیا گیا تیل ہے اس لئے اسے خوردنی تیل ( Cooking Oil ) کہا جاتا ہے ۔ گھی صرف اس چکنائی کو کہ سکتے ہیں کہ جو دودھ دینے والے جانوروں کے دودھ سے کشید کیا جاتا ہے ۔

Desi Ghee to Dalda Cooking Oil

 دراصل ہوا یوں کہ نباتی تیل کی دریافت یا آمد سے پہلے برصغیر بلکہ دنیاء کے اکثر حصوں میں لوگ دودھ سے حاصل کردہ گھی استعمال کرتے تھے اور اسی نام سے آشناء تھے  لیکن جب کوکنگ آئل کے تاجر نباتی تیل لیکر بازار میں آئے تو اسے عرف عام میں گھی کہ کر بیچنا شروع کردیا تاکہ صارفین یا استعمال کرنے والے اسے گھی ہی سمجھ کر خریدیں لھذا اس طرح معاشرے میں یہ خوردنی تیل بھی گھی کی حیثیت اور عرفیت حاصل کرگیا جبکہ یہ گھی نہیں تیل ہے ۔

ڈالڈا کی وجہ تسمیہ :

چلیں گوروں نے تیل کو گھی تو بنادیا لیکن یہ ڈالڈا کا نام کہاں سے آیا ۔ میں نے اس بات کو سمجھنے کے لئے درجنوں ڈکشنریاں چھان ماریں لیکن مجھے یہ لفظ کہیں نظر نہیں آیا ۔ سوچتا تھا ، یہ کسی شخص ، جگہ ، جڑی بوٹی یا کیمیکل کا نام ہوگا جو اس پراڈکٹ کو دیا گیا اور اگر ایسا ہوتا تو کہیں نہ کہیں کسی لغت میں مل جاتا لیکن کہیں نہ ملا ۔ آخر کار ذہن میں خیال آیا کہ ہندوستان میں کوکنگ آئل کی آمد اور اس کی تاریخ پڑھ کر دیکھی جائے شاید کہیں اس کی وجہ تسمیہ یعنی ڈالڈا کے معنی معلوم ہوسکیں ۔

میرا یہ خیال درست اور کوشش کامیاب ثابت ہوئی اور بالآخر ڈالڈا کا پورا خاندان ، ماں باپ اور نام رکھنے والے پکڑے گئے ۔ چونکہ یہ ایک من گھڑت یا ضرورت کے تحت گھڑا گیا نام ہے اس لئے کسی زبان کی لغت میں نہیں پایا جاتا ۔

ہوا یوں کہ ، شروع کے زمانے میں  ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، برصغیر پاک و ہند میں دیسی گھی استعمال ہوتا تھا لیکن معاشرے میں غربت کی وجہ سے عام لوگ اسے خرید نہیں سکتے تھے لھذا متبادل کے طور پر سرسوں کا تیل وغیرہ استعمال کرلیتے ۔

ان حالات میں  مغربی دنیاء کے تاجر ،  کہ جنہیں ہم کافر کہتے اور سمجھتے ہیں ، کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی کہ یہاں گھی کے سستے متبادل کی ضرورت ہے لھذا 1930 ء کے لگ بھگ ایک ولندیزی/ ہالینڈ کے تاجر  ڈاڈا اینڈ کمپنی Dada & Co

نے پھل پھول اور نباتات سے بنا خوردنی تیل ہندوستان درآمد کرنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ بازار پر قبضہ جما لیا ۔

چونکہ ہندوستان میں اس وقت تاج برطانیہ کی حکومت تھی ، اسلئے انگریزوں  کے کان کھڑے ہوگئے کہ ہالینڈ کے تاجر ہماری کالونی میں آکر خوردنی تیل کی تجارت سے پیسہ بنارہے ہیں ۔ اس خیال کے پیش نظر انہوں نے برطانیہ کی ایک بڑی تجارتی کمپنی  لیور برادرز ( Lever Brothers ) کی ذیلی کمپنی ہندوستان وناسپتی مینوفیکچرنگ کمپنی کو چابی دیکر آگے کیا تاکہ منافع میں حصہ دار بن سکیں ۔

چنانچہ حکومت برطانیہ کہ شہ پر لیور برادرز نے ڈاڈا اینڈ کمپنی سے کہا کہ آپ خام تیل ہمیں دیں ہم خود ہندوستان میں پراسیسنگ کرکے اسے مارکیٹ تک لیکر جائینگے ۔ یاد رہے خوردنی تیل نباتات سے نچوڑنے کے بعد ایک پلانٹ میں کیمیاوی عمل سے گزار کر کھانے کے قابل بنایا جاتا ہے جسے ہائیڈروجونائزیشن ( Hydrogenization ) کہتے ہیں ۔

قصہ کوتاہ 1937ء میں ہالینڈ کی ڈاڈا اینڈ کمپنی نے اپنے حقوق لیور برادرز کی ذیلی شاخ کو تفویض کردئے لیکن ساتھ ہی شرط لگائی کہ برانڈ نام ہمارا ہی ہوگا یعنی پیکنگ پر  ڈاڈا  DADA لکھ کر بیچا جائیگا۔ یہ شرط لیور برادرز کے لئے قابل قبول نہ تھی ، اسلئے ایک عرصے تک اس مسئلے پر بات چیت ہوتی رہی ۔ جب دونوں فریق کوئی فیصلہ نہ کرسکے تو ایک تیسرے فریق نے مداخلت کرکے تجویز دی کہ

ڈاڈا DADA کے درمیان لیور برادرز کے نام کا پہلا حرف  L  کا اضافہ کرکے ( DA  – L – DA )

ڈاڈا اور لیور دونوں کو نمائندگی دے دی جائے . یہ ہے وہ مقام جہاں سے لفظ ڈالڈا  da L da کا جنم ہوا ۔ اس طرح ڈالڈا کے باپ کا نام ڈاڈا Dada جس کا تعلق ہالینڈ سے تھا ،  ماں کا نام ہندوستان وناسپتی /لیور برادرز ،  جائے پیدائیش بمبئی اور سن پیدائیش 1937 (برطانیہ راج) ہے۔

وناستی / بناسپتی

مسٹر ڈالڈا کی اس کہانی کے بعد اب آجائیے اس طرف کہ یہ وناسپتی یا بناسپتی کس بلاء کا نام ہے ۔

چونکہ یہ خوردنی تیل ، پھلوں ، پھولوں ، پودوں ، بیجوں اور دیگر نباتات کو نچوڑ کر حاصل کیا جاتا ہے اس لئے اس کا تعلق نباتات ( Herbal ) کے خاندان سے ہے ۔ سنسکرت اور ہندی میں بناسپتی کا مصدر ( Origin )

بناسپت ہے ، جس کا مطلب ہے ، سبزی ، پودا ، درخت ، پتے ، جنگل کا بادشاہ پودا یا درخت وغیرہ ۔ اسی مناسبت سے اسے وناسپتی یا بناسپتی کہا جاتا ہے ۔

قارئین !

ڈالڈا اور وناسپتی یا بناسپتی کے بعد آئیے اب آپ کو چاول کی ایک قسم باسمتی ( Basmati ) کے متعلق بھی بتاتا چلوں ۔ اتفاق سے یہ نام بھی ہندی زبان سے لیا گیا ۔ باس یا باشنا ہندی میں خوشبو کو کہتے ہیں اور متی کا ایک معنی ” ملکہ ” ( Queen ) ہوتا ہے اس لحاظ سے اس کا مطلب ہے خوشبوء کی ملکہ ۔

چونکہ پنجاب میں پیدا ہونیوالے چاول کی ایک قسم انتہائی خوشبودار ہوتی ہے اس لئے اسے باس متی کا نام دیدیا گیا ۔

سیّدزادہ سخاوت بخاری

سیّدزادہ سخاوت بخاری

سرپرست اٹک ای میگزین

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مسعود چشتی کی خوشبو خوشبو

منگل جولائی 6 , 2021
نعتیہ کتاب ایک خوبصورت ردیف خوشبو کی مفید دنیائے بسیط کے شستہ مناظر کی تصویر کشی کرتی ہے مسعود چشتی کے نعتیہ کلام ان کی فکری نظافت اور وجدانِ قلب کی روداد ہیں
مسعود چشتی کی خوشبو خوشبو

مزید دلچسپ تحریریں