سئیں صادق حسنی سے گفتگو

سئیں صادق حسنی ،لیہ

انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات ، لیہ

انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان

سئیں صادق حسنی ، لیہ کے معروف سرائیکی اور اردو شاعر ہیں ۔ تعارف کچھ اس طرح سے ہے کہ
مصر میں آباد آج بھی ان کی ذات مٹاوا یعنی وہ مٹی جو پانی کےساتھ جڑی ہوئی ہو – کے لوگ مصر کے دوسرے بڑے شہر الاسکندریہ میں آباد ہیں اور عربی بولتے ہیں اورکچھ لوگ وہاں سے حجاز مقدس میں آباد ہوئے اور پھر وہاں سے ایک قافلہ محمد بن قاسم کے ساتھ سندھ میں پہنچ کر وہاں آباد ہوگئے اور کچھ لوگ وہاں سے گجرات( انڈیا) میں منتقل ہوئے اور ان کا خاندان مرشد دائرہ دین پناہ کے ساتھ ضلع مظفرگڑھ میں مقیم رہا آپ کے وصال کے بعد تحصیل و ضلع لیہ زیر سایہ حضرت سخی شاہ حبیب رح چک 149b TDA چاہ مٹاوا والا میں آباد ہیں 1964ء عیسوی میں شیر محمد مٹاوا کے گھر پیدا ہوئے ۔ تعلیم پرائمری اسکول بستی حضرت سخی شاہ حبیب اور لیہ گورنمٹ ہائی اسکول میں میٹرک پاس کیا پھر والد بہت بیمار ہوگئے تھے ۔ جس کی وجہ سےآگے تعلیم حاصل نہ کر سکے ان کے والد نے 1986ء میں اِن کی جلدی شادی کر دی ان کے ابو 1988ءمیں وفات پاگئے اللہ کریم ان کےوالدکےدرجادبلندکرےآمین اللّٰہ کریم نے اولاد جیسی نعمت سے نوازا 2 بیٹے اور 2 بیٹیاں رونق صحن ہیں ۔
گزشتہ دنوں ان سے ملاقات کرنے کی سعادت نصیب ہوئی جو علمی و ادبی حوالے سے گفتگو ہوئی وہ نذر قارئین ہے ۔
سوال : آپ کو اشعار کہنے کا خیال کیسے آیا ۔؟
جواب : میں بچپن سے جو گانا سنتا وہ مجھے یاد ہو جاتا اور میں اسے خوب گاتا رہتا ایک دن ہمارے گھر محترم عدیم سراتی مرحوم تشریف لائے جو اردو اور سرائیکی کے بہت بڑے شاعر تھے ۔ میرے والد کے دوست تھے ۔ میں نے پوچھا انکل آپ کیا کرتے ہیں ۔ اس نےکہا بچوں کو اسکول میں پڑھاتا ہوں اور شاعری بھی کرتا ہوں مجھے ایک غزل سنائی میں نے ان کی وہ غزل ترنم کے ساتھ گنگنائی تو وہ بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے یار تمہارے اندر شاعر اور موسیقار چھپا ہوا ہے بس پھر میں طبع آزمائی کرنےلگ گیا ۔ پھر نادر سرائیکی سنگت کا ممبر بن گیا ستاد محترم واصف حسین واصف قریشی کا شاگرد بن گیا ۔

سئیں صادق حسنی سے گفتگو


سوال : آپ کا شعری میدان کیا ہے ۔؟
جواب : محمد و آل محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی مداح سرائی کرنا
سوال : آپ کا شعری مجموعہ “جاگدیاں اکھیں” حال ہی میں آیا ہے اور بہت شہرت حاصل کررہا ہے آپ کیا کہیں گے ۔؟
جواب : یہ میرے اللّٰہ پاک کا کرم ہے جو بندہء ناچیز کا پہلے بھی اردو اور سرائیکی کلام رسالوں اخباروں اور انتخاب کتاب بزمِ جانا میں چھپا لوگوں نے بہت پسند کیا اور کتاب “جاگدیاں اکھیں “کو ایوارڈز سے نوزا گیا ہے-
اے جو کُچھ حسنی لکھ باہندے کرم سئیں دا عطا سئیں دی ۔
سوال : آپ کے اشعار کار نکتہء نظر کیا ہے ۔؟
جواب : میرے اشعار معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں جس میں مذہبی ثقافتی اور معاشرے کی اصلاح پر مبنی پیغام ہوتا ہے ۔
سوال : آپ موسیقار اور طرزنگار بھی ہیں ۔ اس پر قارئین کو آگاہ کریں ۔؟
جواب : ذکی صاحب کیونکہ بچپن سے ہی موسیقی سے لگاؤ تھا اور میرے والد محترم بھی ایک اعلیٰ نعت خوان تھے ۔ جس کی وجہ سے میں جو بھی شاعری کرتا گنگنا کر کرتا پھر میرے استاد محترم مرحوم بابا لعل خان صاحب سے میں نے موسیقی کی تعلیم حاصل کی ان کا آبائی تعلق انڈیا سے تھا ۔ وہ بہت نامور موسیقار اور طرز نگار تھے ۔ اسلئے اب جو بھی کلام میرے سامنے ہو اس کی طرز نگاری میں مجھے دقت پیش نہیں آتی ۔
سوال : آپ کے نام سے ایک بزمِ ہے وہ کیسے وجود میں آئی اور اس کے منشور کیا کیا ہے ۔؟
جواب : ادب کو فروغ دینے کے لیے اور ادب سے لگاؤ رکھنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے “بزمِ حسنی” کے نام سے ایک بزم بنائی، اس بزم کو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے دنیا کے بہت سے ممالک میں پذیرائی ملی اور اس طرح ادب سے منسلک لوگوں کو ایک بہترین پلیٹ فارم ملا ۔
سوال : آپ اپنے استاد واصف حسین واصف قریشی کے بارے میں کچھ کہنا پسند کریں گے ۔ ؟
جواب : میرے استاد محترم پرخلوص سچے پیار کرنے والے عظیم انسان تھے اور کتب کثیرہ کے مصنف تھے ہمارے لیہ میں سرائیکی ادب کو روشناس کرانے والی عظیم شخصیت تھے ۔ میرا کریم اللّٰہ میرے استاد محترم کے عالم برزخ کے منازل آسان فرمائے آمین ۔
سوال : سوشل میڈیا کا ادب کے حوالے سے کیا کردار ہے ۔؟
جواب : ذکی صاحب سوشل میڈیا ایک بہت اچھا پلیٹ فارم ہے مگر افسوس کی بات ہےکہ آج کی نوجوان نسل نے ادب کا مذاق بنایا ہوا ہے کسی شاعر کی شاعری چرا کر اپنے نام لگا دیتے ہیں جو انتہائی قابل مذمت عمل ہے ۔ اگر انسان سچی لگن سے اپنی تخلیق کو اس پلیٹ فارم سے دنیا کو روشناس کرانے کا ذریعہ بنے تو اس سے بہتر پلیٹ فارم اور کوئی نہیں ہے ۔
سوال : فنون ِ لطیفہ میں آپ کی زیادہ دلچسپی کس میں ہے ۔؟
جواب : مقبول ذکی صاحب ! فنون لطیفہ کی اقسام تو کافی ساری ہیں مگر میرا موسیقی اور شاعری سے زیادہ تعلق ہے ۔
سوال : سر سنگیت اور الفاظ کا آپس میں کیا رشتہ ہے ۔؟
جواب : الفاظ احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں اور سنگیت ان احساسات کو روشناس کراتا ہے ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔
سوال : ادب کو آپ نے کیسا پایا ۔؟
جواب : ادب نے ہمیشہ انسان کو سنوارہ ہے ادب ہی آداب کی منازل طے کراتا ہے ۔ ادب ہمارے کلچر کا ورثہ ہے ۔
سوال : لفظوں کا کھیل کیسا لگا ۔؟
جواب : الفاظ ذہن کی تخلیق ہیں اور ذہن کے اندر یہ ایسے مچلتے ہیں جیسے خوشبو کا پھول سے تعلق ہے الفاظ ایسے ہی ذہن سے جڑے رہتے ہیں اور جب الہامی کیفیت ہوتی ہے تو شاعر کے اندر کے احساسات الفاظ بن کر لشکر کی مانند شاعر کی زبان سے جاری ہوتے ہیں ۔
سوال : کیا ادب واقعی تسکین کا سامان فراہم کرتا ہے ۔؟
جواب : آپ نے بجا فرمایا ہے ادب قلب کی تسکین اور روح کو پاک کو پاک کرتا ہے ۔
سوال : آپ ادب کو کیسا لیتے ہیں ۔؟
جواب : یہی ادب تو ہے جو آداب سکھاتا ہے آپ ایسی شاعری تخلیق کریں جس پرخود بھی عمل کرتے ہوں اور جو ہمیں اپنے دین کو بھولنےنہ دے جس میں اللّٰہ تعالیٰ اور ہمارے آخری نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے احکامات کو اپنا نےکا ذریعہ بنے شاعری کے اندر پیغام ہو فکر ہو سچائی ہو جو اپنی تہذیب کو اجاگر کرے اور جس میں آخرت کی فکر ہو ایسی شاعری سے پرہیز کریں جو ہماری موجودہ اور آنے والی نسل کو بگاڑ دے اللّٰہ کریم دشمن کی سازشوں سے محفوظ رکھے آمین
سوال : اس فورم سے قارئین کو کیا پیغام دیں گے ۔؟
جواب : دوستوں زندگی کا بھروسہ نہیں ایسےکام کر جاؤ جو اللّٰہ اور اس کا رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم راضی ہو جائے ۔ ہم بھولتے جارہے ہیں ہم نےکیا کرنا تھا اور کیا کر رہے ہیں ذرا اپنے اندر جھانک کر دیکھ لینا کیا ہم سہی سمت جارہے ہیں ۔ بس یہ التجاہے فنا ہی فنا ہے ۔

maqbool

مقبول ذکی مقبول

بھکر، پنجاب، پاکستان

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اٹک کتاب میلہ2022 کی تیاریاں

جمعرات دسمبر 8 , 2022
بلدیہ اٹک کے زیر اہتمام دوسرے سالانہ کتاب میلہ کا انعقاد 18 دسمبر بروز اتوار بلدیہ لان اٹک میں کیا جا رہا ہے
اٹک کتاب میلہ2022 کی تیاریاں

مزید دلچسپ تحریریں