پروفیسر امجد بابر سے مکالمہ

پروفیسر امجد بابر

انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات ، ٹوبہ ٹیک سنگھ

انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان

پروفیسر امجد بابر کا خاندانی نام محمد امجد علی بابر ہے ۔ والد کا نام محمد اقبال ہے ان کی پیدائش 1973ء کو گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہوئی ہے ان کے تایا حکیم صفدر علی نے ان کا نام تجویز کیا تھا ۔ تعلیم ایم سی ہائی اسکول گوجرہ سے میٹرک پاس کیا ۔ گورنمنٹ کالج گوجرہ سے گریجویشن کے دوران کالج میگزین” رنگ سحر” کا مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو ایل ایل بی کیا جب کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم اے ایجوکیشن کی ڈگری حاصل کر لی ہے ۔ چند روز قبل ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے جو گفتگو ہوئی ہے وہ نذر قارئین ہے ۔

پروفیسر امجد بابر سے مکالمہ


سوال : آپ شعر و ادب کی طرف کیسے راغب ہو ئے ۔؟
جواب : آٹھویں کلاس میں بچوں کے رسائل بالخصوص شیخ چلی ، عمرو عیار کی کہانیوں سے ادبی ذوق کی ابتداء ہوئی ۔ اسی زمانے میں الف لیلی ، الہ دین کا چراغ اور علی بابا چالیس چور” کی کہانیوں سے لطف اٹھایا ۔ کلاس نہم میں طبقاتی کش مکش کے حوالے سے نظم لکھی جسے کلاس کے سامنے مانیٹر نے سنایا ۔ بیالوجی کے استاد محترم طفیل صاحب نے کہا ” تم شاعر ہو” حالانکہ میری دلچسپی تو کہانی میں تھی ۔ بچوں کا” سعادت “بچوں کا “امروز” میں چھپنے لگا ۔ اس زمانے میں بہت سی کہانیاں مضامین اور نظمیں لکھیں ۔ بی اے میں روزنامہ” سعادت” کے ادبی ایڈیشن”بساط ادب” میں شاعری اور افسانے لکھے ۔ شہر میں ہونے والے مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگا ۔طاہر اقبال طاہر اور ندیم محبوب سے دوستی اسی زمانے میں ہوئی ۔ افسوس کہ میں یہ سب تحریریں حادثات زمانے کے باعث گم کر بیٹھا ہوں ۔
سوال : آپ کے پسندیدہ شعراء ۔؟
جواب : ابتداء میں ساغر صدیقی پسند تھے ۔ کالج کے زمانے میں عدنان بیگ پسند تھے ۔ شعر و ادب میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد میرا واحد پسندیدہ شاعر ظفر اقبال ہے
سوال : آپ کا ادبی سرمایہ ۔؟
جواب : میری تین کتب شائع ہو چکی ہیں ۔
“دریافت” (2017ء)
“میں نے نظم تخلیق کی”(2017ء)
“خیال کی شطرنج”(2021ء)

books


سوال : ادب میں ادبی تنظیموں کے کردار پہ آپ کیا کہتے ہیں ۔؟
جواب : ادبی تنظیموں کا کردار لائق تحسین ہے ۔ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے ۔ بعض تنظیمیں ایوارڈ پروگرام بھی کرواتی ہیں لیکن ادبی تنظیم کا اصل کام ادیب کی ذہنی و تخلیقی نشوونما بھی ہے ۔ جونیئر اہل قلم کی قدر افزائی بھی ہے ۔ ہمارے ہاں تو رسالہ تنظیم سیلف پروجیکشن کے لئے استعمال کیئے جاتے ہیں ۔
سوال : نثری نظم میں نثر اور نظم۔۔۔ کیا یہ تضاد نہیں ۔؟
جواب : دیکھیں شاعری میں غزل اور نظم کی باہمی کوئی لڑائی اس لیے نہیں کہ یہ دونوں مختلف اصناف ہیں ۔ نظم کا سفر پابند معری آزاد سے نثری نظم تک آیا ۔ شاعری میں بات نثری یا نظم کی نہیں شعریت کی ہے ۔ کیا غزل میں ٹریش موجود نہیں ۔؟
آہنگ کے بیرونی مصنوعی سہارے کی بیساکھی کو گرا کر بھی شاعری ہو سکتی ہے ۔ نثری نظم اتنی طاقت ور صنف ہے کہ بہت سے غزل کے شعراء نثری نظم لکھ رہے ہیں ۔ میرے نزدیک کسی شاعر کی معراج یہ ہے کہ وہ نثری نظم لکھے ۔
سوال : ادب کے حوالے سے آپ آگے کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔؟
اور ادب کے حوالے سے مزید کیا کرنا چاہتے ہیں ۔ ؟
جواب : اللّٰہ کریم کی توفیق اور ذاتی محنت سے مزید کام کرنے کی تمنا ہے ۔ شاعری کے علاوہ فکشن میں بھی لکھنے کی تمنا ہے ۔
سوال : آپ”نثری نظم”ہی کیوں لکھ رہے ہیں ۔؟
جواب :
پسند اپنی اپنی۔۔۔۔نثری نظم پہ میری دو کتب ہیں ۔ میرے نزدیک یہ صنف میرا فطری اظہار ہے ۔ جو بات میں کہنا چاہتا ہوں اسے فنی قالب میں ڈھال کر لکھ دیتا ہوں ۔
سوال : آپ نے کار تدریس کو کیسا پایا ۔؟
جواب : میرے نزدیک تدریس عبادت ہے ۔ میں نے کبھی اسے پیشہ خیال نہیں کیا ۔ تدریس کارخیر ہے ۔ نسل نو کی تعلیم و تربیت کا اہم فریضہ ہے ۔
سوال : نظم کہتے ھوئے آپ پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے ۔؟
جواب : میں باقاعدہ پلاننگ سے نہیں لکھتا ۔ جب بھی کوئی خیال بات مجھے مونو لاگ کے قریب لاتی ہے اور میں لاتعلقی کی گرفت میں آ کر گرد و پیش سے بے نیاز ہو کر لکھنے میں منہمک ہوتا ہوں ۔ تبھی نظم خود رو پودے کی طرح آگے بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ بعد میں کانٹ چھانٹ بھی کرتا ہوں ۔ تخلیق کار کے اندر بھی نقاد موجود ہوتا ہے جو اس کی راہ نمائی کرتا ہے
سوال : ادب انسان کو کیا دیتا ہے ۔؟
جواب : ادب تخلیق سرشاری کے باعث حقیقی خوشی دیتا ہے ۔ آدمی ادبی تعلیم سے عزت رزق کما سکتا ہے ۔ حلقہ احباب وسیع ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ ادب نفس ذات کی تطہیر کرتا ہے ۔ جمالیاتی حس کی بیداری کے علاوہ ذہنی شعور میں بالیدگی کا باعث ہے ۔
سوال : مطالعہ ادب کس حد تک ضروری ہے ۔؟
جواب : مقبول ذکی صاحب! ادب بنیادی طور”پڑھنے لکھنے” کا مشغلہ ہے ۔ یہ ٹونٹی ٹونٹی کی بجائے میرا تھن ریس کی طرح ہے ۔ آسان لفظوں میں زندگی بھر کا کھیل ہے ۔ وقتی شہرت پیسہ کمانا ایک سچے شاعر ادیب کا مطمع نظر نہیں ہو سکتا ۔ مطالعہ تو نہایت لازم ہے کیونکہ ادب بنیادی طور پر الفاظ کی ترتیب سے نمو پاتا ہے اور خیالات سے آگاہی مطالعہ سے ہی ممکن ہے ۔
سوال : شعبہ ادب میں آپ کے دوست ۔؟
جواب : جہاں تک شناسائی کا تعلق ہے وہ تو بہت سے احباب سے ہے لیکن میں حفیظ تبسم گل فراز کو اپنا دوست کہہ سکتا ہوں ۔
سوال : آپ کون سے ادبی رسائل میں لکھ رہے ہیں ۔ ؟
جواب : میری تحاریر ادبیات” ماہ نو” تخلیق” بیاض کے علاوہ مختلف رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ اس کے علاوہ آن لائن ادبی” تنقیدی پروگراموں میں بھی شریک ہوتا ہوں ۔
سوال : نئے لکھنے والوں کے نام پیغام ۔؟
جواب : نئے لکھنے والے دن دگنی رات چوگنی شہرت کی خواہش میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ اصل میں انھیں پہلے فن تحریر کو سیکھنا اور سمجھنا چاہیے ۔ وہ کیا لکھنا چاہتے ہیں اور کیوں لکھنا چاہتے ہیں ” یہ انھیں معلوم ہو” وہ کس صنف میں اپنا بہترین اظہار کر سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر سینئرز کی عزت اور جونیئر کی حوصلہ افزائی نہایت ضروری ہے ۔

مقبول ذکی مقبول

بھکر، پنجاب، پاکستان

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

بولیانوال کے لیئے کروڑوں روپے کے فنڈز

پیر جنوری 2 , 2023
سیّد یاور بخاری کی طرف سے یو سی بولیانوال کے لیئے کروڑوں روپے کے فنڈز جاری
بولیانوال کے لیئے کروڑوں روپے کے فنڈز

مزید دلچسپ تحریریں