تحریر:
سیدزادہ سخاوت بخاری
چوتھی قسط میں ، ہم چھوئی روڈ کی جنوبی سمت کی آبادی کے تذکرے میں ریلوے پھاٹک سے ماڑی موڑ تک پہنچے تھے کہ موضوع سخن ھریالی اور شادابی کے نوحے پہ ختم ہوا ۔ فقط نوحہ ہی نہیں ، میرا جی تو ماتم کرنے کو چاھتا ہے ۔ چند ٹکوں کی خاطر اس علاقے کے ھزاروں درخت کاٹ دئے گئے تاکہ پلاٹ بیچ کر دولت جمع کی جاسکے ، سرسبز و شاداب کھیتوں کو صفحہ ھستی سے مٹادیا گیا ، زیر زمین میٹھے پانی کے جھرنوں کا نہ صرف گلا گھونٹا گیا بلکہ ، ان کی لاشوں کے اوپر ، گندے پانی کے نالے بنا دئے گئے ۔ محلہ امین آباد سے سیدھے ، شاہ آباد اور وھاں سے آگے محلہ بشیراعوان سے بائیں جانب والی گلی سے گزر کر باھر نکلیں تو سرور روڈ ، ڈھوک فتح سے گزر کر پنڈ غلام خان کے بعد کچی شکل میں ماڑی گاوں کی طرف رواں ہے لیکن ابھی اسے پختہ ہونے میں وقت لگے گا ۔ یہاں ایک مسجد اور کچھ گھر تعمیر ہوچکے ہیں ۔ اس کے بالکل سامنے جانب جنوب کبھی شھر کا معروف دھوبی گھاٹ تھا ، یہاں پر پانی کے قدرتی چشموں سے بلامعاوضہ فیضیاب ہوکر ، شھر کے دھوبی کپڑے دھویا کرتے تھے ، شھد جیسا میٹھا پانی ، پینے ، نہانے اور کپڑے دھونے کے کام آتا تھا ۔ اسی دھوبی گھاٹ کے قریب کم و بیش 20 فٹ اونچے ٹیلے سے ایک آبشار فوارے کی شکل میں ہر وقت رواں رہتی ، شھر بھر کے لڑکے ، گرمیوں میں اس سے لطف اندوز ہوتے ۔
نئی نسل کے لئے یہ تاریخی حقیقتیں پڑھ کر یقین کرنا آسان نہ ہوگا لیکن یہی اصلی اور سچی تصویر ہے میرے کیمبل پور کی ، جہاں ہمارا بچپن ، لڑکپن اور جوانی پروان چڑھی ، جس کی صاف ستھری فضاء میں ہم کھیلے ، کودے ، دوڑے بھاگے ، شرارتیں کیں ، تعلیم کے مدارج طے کئے ، اتنا پرامن اور صاف ستھرا شھر ، پاکستان میں شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔

چلئے ماڑی موڑ سے آگے بڑھتے ہیں ۔ یہاں سے لیکر سڑک کی چڑھائی کے آخری سرے تک میدان تھا ۔ مدرسہ اشاعت الاسلام ، مسجد اور اس کے آس پاس کی آبادی موجود نہ تھی ۔ جہاں چڑھائی ختم ہوتی ہے اس جگہ پر ریگل نام کا سینما ، شھر کی ابتداء سے برلب سڑک موجود تھا ۔ آپ نے شاید ریگل کا نام نہ سنا ہو ، جی ھاں ، جسے بعد میں محمود محل کا نام دیا گیا ، اس کا اصلی نام ریگل تھا ۔ جب نیلام ہوا تو بھی ریگل تھا ، قصور کے شیخ خاندان نے خریدا اور فلمیں چلانا شروع کیں ۔ ایک رات حضرو کے ایک فلم بین کی سینما کے مالک شیخ محمود سے کسی بات پہ تکرار ہوگئی ، تو تو میں میں سے بات ھاتھا پائی تک پہنچی اور باالآخر فلم بین نے محمودکو چھری ماردی ، محمود موقع پہ جاں بحق ہوگیا ۔ اس کی یاد میں سینماء کا نام ریگل سے محمود محل ہوا لیکن یہ تاریخی عمارت وقت کے تھپیڑے کھا کھا کر باالآخر زمیں بوس ہوگئی ، اب ایک قطعہ زمین ہے جہاں پر کسی تاجر نے اینٹ بجری اور سیمنٹ کا یارڈ کھول رکھا ہے ۔ یہاں بتاتا چلوں کہ کیمبل پور میں 3 سینماء ھاوس تھے ۔ ایک ریگل ، جس کا ذکر ہوا اور جو اب فوت ہوچکا ہے ، دوسرا کینٹ ایریا میں کامل پور سیداں کے اس پار ، کارنر پر آج بھی ، ناگفتہ بہ اور ناقابل استعمال حالت میں ، اپنے ماتھے پر برائے فروخت کا سھرا سجائے ایستادہ ہے ۔
اس کا بھی خاندانی اور ابتدائی نام لینسیڈاون تھا جسے بعد میں ناز کردیا گیا ۔ تیسرا اور آخری سینماء آرٹلری سینٹر کے اندر تھا ، جسے بعد میں مسجد کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ، اب خدا جانے وھاں نماذ ادا ہوتی ہے یا جوانی پھر نہیں آنی کا شو چل رہا ہے کیونکہ اس کا استعمال کئی مرتبہ بدلا ۔ سینما سے مسجد اور مسجد سے سینماء ۔
بات ہورہی تھی محمود محل کی تو اس سے آگے برلب سڑک گیدڑ موڑ تک پرانے گھر اور چند دوکانیں موجود تھیں ۔ البتہ سینماء سے لیکر گیدڑ موڑ تک سڑک کنارے گھروں کے عقب میں کھلا میدان اور کھیت تھے ۔ اس بیچ بجلی گھر موڑ آتا ہے ، یہ سڑک تقسیم سے پہلے کی ہے کیونکہ اسے بجلی گھر اور اس سے آگے محلہ امین آباد کے اختتام پہ واقع ھندووں کے شمشان گھاٹ تک لیجایا گیا تھا ۔ اس شمشان گھاٹ کا ذکر میں اس سے پہلے کرچکا ہوں ۔ بجلی گھر روڈ کی مغربی سمت پر چھوئی روڈ کے عقب سے لیکر امین آباد تک کھیت تھے اور ہمارے لڑکپن تک ان میں گندم بوئی جاتی تھی ۔ مشرقی سمت اکا دکا پرانے گھر موجود تھے ۔ یہاں ھندوں کے ایک اسکول کا ذکر بے جاء نہ ہوگا ۔
جب آپ بجلی گھر روڈ پہ سفر کرتے ہیں تو بجلی گھر سے قبل ، روڈ کے ساتھ جانب شرق گلی بلال مسجد کے آغاذ میں ، ایک مستطیل نماء قطع اراضی کہ جس پر غلاظت کے انبار لگے ہوئے ہیں اور اب تو ایک کباڑیا بھی اس پہ قابض ہے ، یہاں ھندوں نے اسکول تعمیر کرنا شروع کیا تھا کہ انہیں ھجرت کرنا پڑی ۔ اس پورے پلاٹ پر ایک بہترین مکمل عمارت کھڑی تھی جسے اس شھر کے اولیں لٹیروں نے جڑوں تک اکھاڑ ڈالا ۔ آج کے دور میں اس کی تعمیر پہ 30 سے 40 کروڑ لاگت آسکتی ہے ۔ پہلے چھتیں اکھاڑی گئیں پھر ایک ایک اینٹ اکھاڑ کرلے گئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ یہ آنکھوں دیکھا حال ہے کوئی سنی سنائی بات نہیں ۔
(جاری ہے )

سیّدزادہ سخاوت بخاری
سرپرست اعلی
اٹک ویب میگزین