کیمبل پور سے اٹک تک – 14

تحریر:

سیدزادہ سخاوت بخاری

عاشق کلیم کی برطرفی کے بعد ملک حاکمین خان پنجاب کے وزیرجیل خانہ جات مقرر ہوئے ۔ محکمہ جیل کا قلم دان ان کا اپنا انتخاب تھا ۔ ہوا کچھ اسطرح کہ ایک زمانے میں کھنڈہ کے ملک الہ یارخان مرحوم وزیر جیل خانہ جات تھے اور ملک حاکمین خان کو ان سے قربت حاصل تھی ۔ ملک الہ یارخان ، ملک حاکمین کی دعوت پر شین باغ بھی تشریف لائے اور اسطرح ان کا آپسی تعلق بڑھتا گیا ۔ اس قربت نے ملک صاحب کے دل میں امنگ پیدا کی کہ اگر موقع ملا تو میں بھی جیلوں کا وزیر بنوں گا۔ اب جب اللہ نے موقع دیدیا تو وہ اپنی دیرینہ خواہش پوری کرتے ہوئے ، وزیر جیل خانہ جات بن گئے ۔

کیا شان تھی ، کیا ٹھاٹھ باٹھ تھے ملک صاحب کے ،  کیمبل پور کے دورے پہ آئے، ہر طرف ہٹو بچو کی صدائیں ، آگے پیچھے گاڑیاں ، مبارک بادیں ، غرضیکہ ایک شادی کا سا سماں تھا ۔ اچانک اعلان کیا کہ ڈسٹرکٹ جیل کا دورہ کرنا ہے ۔ صبح کے وقت کاروان تیار ہوا ، ہم بھی ساتھ تھے ، جیل کے دروازے پہ پہنچے تو مین گیٹ کھول دیا گیا ۔ ملک صاحب نے مختلف بیرکس کا معائنہ کیا اور قیدیوں سے ملے ۔

اس زمانے میں سرگودھا کا معروف بدمعاش اور خوف کی علامت چراغ بالی کیمبل پور جیل میں بند تھا ۔ جیلر نے ملک صاحب کو بتایا کہ چراغ بالی ہمیں بہت تنگ کرتا ہے ۔ ملک صاحب اس کے سیل کی طرف گئے ، وہ سلاخوں کے پیچھے کھڑا تھا ، اس سے مخاطب ہوکر کہا ، اوئے سیدھے ہوجاو ورنہ ٹھیک نہیں ہوگا ، وہ خاموش کھڑا رہا ۔ ملک صاحب نے دو چار ڈائیلاگ اور بولے اور آگے بڑھ گئے ۔ 

jail
Image by Ben Kerckx from Pixabay

یادرہے ، پیپلز پارٹی کی حکومت نےسانحہ مشرقی پاکستان کی کوکھ سے جنم لیا تھا ۔ ہمارے تقریبا نوے ہزار قیدی بھارت کی قید میں تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو ، کسی طرح بھارت سے معاہدہ کرکے اپنی کھوئی ہوئی زمین اور ان قیدیوں کو واپس لانا چاھتے تھے لھذا طے پایا کہ مختلف شہروں میں عوامی ریلیاں منعقد کرکے ، عوام کی طرف سے مطالبہ کیا جائے کہ ہمارے قیدی واپس لاؤ ۔ اصل مقصد تو بھارت سے معاہدہ تھا، جنگی قیدی ہتھیار کے طور پر استعمال کئے گئے ۔

فوجی علاقوں ، جہلم ، چکوال ، گجرات اور کیمبل پور کے ممبران اسمبلی سے کہا گیا کہ لوگوں کو بسوں اور ٹرکوں میں بھر کر راولپنڈی لایا جائے اور کمیٹی چوک سے صدر تک ریلی کے شرکاء ” ہمارے قیدی واپس لاو “

کے نعرے لگائیں ۔

ملک صاحب کیمبل پور آئے ، سب کو جمع کیا اور بتایا کہ کل ہم نے پنڈی جاکر ریلی میں شریک ہونا ہے ۔ بسوں اور ٹرکوں کا انتظام کیا گیا اور اس طرح ایک بہت بڑا کاروان وقت مقررہ پہ راولپنڈی پہنچ گیا ۔

مری روڈ پر ریلی منظم کی گئی ، سب سے آگے ایک ٹرک کے اوپر ، ملک حاکمین خان ، خورشید حسن میر ، کرنل حبیب ، جاوید حکیم قریشی اور یہ فقیر سوار تھے ۔ ٹرک پر لاوڈ اسپیکر نصب تھا ، ہمارے قیدی واپس لاو اور دیگر نعرے لگوانا میری ذمہ داری تھی ، ہم نعرے لگاتے ہوئے جہاں سے گزرتے ، لوگ تالیاں بجاکر ہمارا استقبال کرتے ، ان بے چاروں کو کیا پتہ کہ یہ جلوس حکومت نے خود منظم کیا ہے ۔

ملک صاحب کے ساتھ میری بہت ساری خوشگوار یادیں ہیں لیکن کچھ یاد رہیں کچھ بھول گئیں ۔

ملک حاکمین خان سے پہلے کیمبل پور شہر سے عاشق کلیم ، ان سے بہت پہلے لیاقت علی خان کی کابینہ میں سردار ممتاز علی خان اور سید میر احمد شاہ ایڈووکیٹ وزیر اور مشیر رہ چکے ہیں ۔ حالیہ برسوں میں شیخ آفتاب احمد صاحب کیمبل پور شہر سےوزارت پہ فائز رہے  ۔ ان میں سے پہلے دو حضرات سے مجھے قربت حاصل رہی جبکہ باقی سب سے فقط ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ ایک اور صاحب جو محلہ امین آباد میں میرے پڑوسی بھی ہیں یعنی لیفٹینینٹ جنرل جاوید اشرف قاضی ، سابق ڈی جی

آئی ایس آئی ، مشرف دور میں ، وفاقی وزیر ریلوے ، مواصلات اور تعلیم رہ چکے ہیں اس طرح انہوں نے بھی بحیثیت وزیر کیمبل پور شہر کی نمائیندگی کا شرف حاصل کیا

جاری ہے

SAS Bukhari

سیّدزادہ سخاوت بخاری

مسقط، سلطنت عمان

تحریریں

شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مقامی رنگ و روپ کا حقیقی شاعر

منگل اگست 3 , 2021
وسنا رہوے گراں“کی شعریات کی فکری و فنی سے کہیں زیادہ لسانی اہمیت واضح ہے۔انہوں نے ٹھیٹھ مقامی لفظیات سے نہ صرف نئی نسل کو متعارف کرایا
Professor Ghulam Rabbani Frogh

مزید دلچسپ تحریریں