فطرت کا رنگ و نور جب الہام کے سمندر میں گُھلتا ہے تو لاکھوں آوازیں صوتی ترنگ کے ساتھ سماعتوں میں ریشمی تبسم کی طرح رس گھول دیتی ہیں جو آس کی “آواز”بن کر سخن شناس دلوں پر حسن و رعنائی کے دریچے کھولتی ہے اور صدائے واہ واہ فضاوں میں شاعر کا درد جانے بنا بلند ہوتا ہے
دنیائے سخن میں ہزاروں ستم رسیدہ سخن دان آئے اور صدائے دل سنا کر وحدت کے پردوں میں غائب ہو گئے جن کی صدا ہر کرب اور ہر خوشی میں گونجتی رہی ایسی صدائیں کبھی مسرتوں کا روپ دھارتی ہیں تو کبھی غموں میں ہلکی ہلکی سسکیوں کا ۔ ابتدائے آفرِینِش سے ہی اظہار کے اسلوب وضع ہو گئے تھے بس اس کے رنگ مختلف تھے لیکن یہ طے ہے کہ سب رنگ ہی دھنک رنگ تھے صوتی ترنگ کے انہی دھنک رنگوں میں سعادت حسن آس کی ” آواز ” نے بھی فطرت کے رنگ کشید کیے جن میں سلاست و وارفتگی اور تنوع کی برکھا رت نظر آتی ہے اگرچہ سعادت حسن آس نعت گو شاعر ہیں لیکن ان کے قلم کو قدرت نے سارے رنگوں سے مہمیز کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی غزل بھی آفاقی حسن رکھتی ہے آج ان کی کتاب “آواز” سے کچھ اشعار کی رفعتیں اور نکہتیں پرکھتے ہیں ایک اچھا شاعر چہرہ شناس بھی ہوتا ہے وہ چہروں کی تحریریں پڑھ پڑھ کر اپنی چہرہ شناس فکر جب قرطاس پر بکھیرتا ہے تو یوں اظہار کرتا ہے:۔
کتابوں کی طرح چہرے ہیں سارے
جسے کھولا اسی پر کچھ لکھا ہے
خوشی میں آس وہ ملتا نہیں ہے
جو غم کو سہہ کے جینے کا مزہ ہے
نیرنگیء سخن جب سر چڑھ کر بولتا ہے تو قاری یا سامع کی فہم و ادراک پر ایک گہرا اثر ڈالتا ہے چاہے یہ سخن اس کے دکھوں اور سسکیوں سے منسلک ہو ، چاہے اس کی مسرتوں کے جشن استوار کرے چاہتوں کے سفر میں محبوب چراغ کی طرح ہوتا ہے جس کی روشنی سے دوسری چیزیں روشن نظر آتی ہیں سعادت حسن آس محبوب کی لو کے ساتھ جل کر دوسری نظروں پر محبت رنگ عیاں کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنی ذات کے پندار سے نکل نہیں پاتے ان کے دل کی کیفیت شعر میں یوں ڈھلتی ہے:۔
میں اپنی ذات کے پندار سے نکل نہ سکا
وہ اک چراغ تھا میں اس کے ساتھ جل نہ سکا
ہجوم شہر کا دستور ہی نرالا تھا
جو ایک بار گرا گر کے سنبھل نہ سکا
سعادت حسن آس زندگی کی تیرہ شبی میں بھی ایک درخشندہ سحر کے منتظر رہے ایسی سحر جس میں امید کی کرنیں روشن ہوں جہاں زندگی بندے کو نہ گزارے بلکہ زندگی کو بندہ اپنی منشا کے مطابق بسر کرے جہاں زندگی کے ترنم کے گیت گائے جائیں جہاں ایک پالکی میں محبوب کے ساتھ بیٹھ کر پھولوں کے حسین مناظر کا نظارہ کیا جائے لیکن جب زندگی کی تلخیاں ہی ماتھے پر لکھ دی جائیں تو تیرہ شبی میں سحر ایک خواب کی طرح بن جاتی ہے جس پر اختیار نہیں ہوتا اور یہ خواب صرف اپنی مرضی سے ہی آتا ہے لیکن آس کی آس اب بھی قائم ہے اور وہ ظلمتوں میں ایک تاباں سحر کے منتظر ہیں ایسی سحر جو شبنم کی شگفتہ بوندیں لے کر گلابوں کو تر و تازہ کرتی ہے سلگتی زندگی میں آس کے لبوں پر امیدیں یوں رقصِ جمیل کرتی ہیں:۔
تا عمر بھٹکے رہے جس تیرہ شبی میں
رخشندہ سحر اس کو بنانے لگا کوئی
جس آگ میں ہم آس سلگتے رہے برسوں
اس آگ کو گلزار بنانے لگا کوئی
سرابِ زندگی جب بڑھتا چلا جائے تو امیدیں دم توڑ دیتی ہیں اور بندہ بکھرتا چلا جاتا ہے وہ سفر مکمل کرنے کی سعی تو کرتا ہے لیکن تھک کر ٹوٹ جاتا ہے سعادت حسن آس بھی زندگی سمیٹتے سمیٹتے خود بکھر گئے ہیں بچپن میں والدین نہ رہے زندگی دیکھ کر مسکراتی رہی اور آس زندگی کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے رہے لیکن امید کی چنگاری من میں روشن تھی اسی چنگاری نے آس کو بہت بڑا شاعر بنا دیا جن کا حوالہ یہ دنیا نعت گو کے مبارک نام سے جانتی ہے۔ لیکن زندگی کی بے اعتنائی کو شاعر کب جانے دیتے ہیں آس بھی زندگی بھر کا کھیل اس خوب صورت ردیف میں یوں ڈھالتے ہیں:۔
لاکھ کیں کوششیں پر سمٹ نہ سکے
ہم بکھرتے رہے کھیل ہی کھیل میں
آس دامن وہی اب چھڑانے لگے
جن پہ مرتے رہے کھیل ہی کھیل میں
محبوب کے حسن کو بیان کرنا بہت مشکل کام ہے جہاں استعارے بھی دم توڑ جاتے ہیں جہاں قلم اپنی نوک کو پہلے حسنِ تخیل سے رنگین کرتا ہے اور پھر قرطاس کے خوب صورت سینے پر ایسا رقصِ رعنائی کرتا ہے جس سے استعارے قلم کی نوک سے سرخرو ہونے کے لیے مسکراتے چلے آتے ہیں اور مہک افروز الفاظ قلم کی زباں سے تخلیق ہوتے جاتے ہیں محبوب کی تعریف لکھنے کے لیے قلم کبھی زلف چومتا ہے اور کبھی آنکھوں کی جھیل میں گوہرِ وفا تلاش کرتا ہے کبھی شرابی ہونٹوں کی یاقوتی ڈلیاں تو کبھی شگفتہ رخساروں کی رعنائی بیان کرتا ہے کبھی صراحی دار گردن تو کبھی محبوب کے گلابی آنچل سے صبا کی سرگوشاں سنتا ہے سعادت حسن آس نے بھی محبوب کی آنکھیں غزل کے رنگ سے رنگی ہیں :۔
کائناتِ حسن میں تیرا بدل کوئی نہیں
جس پہ میں لکھوں غزل جانِ غزل کوئی نہیں
نیلے نیلے پانیوں میں یوں تو ہیں لاکھوں کنول
تیرے نینوں سے مگر ان میں کنول کوئی نہیں
قید خانہ میں خاموشی کا درد وہی محسوس کرتا ہے جو قفس میں تڑپتا رہا ہو یا اتنا حساس ہو کہ اسے قید تنہائی کی سسکیاں آہیں اور ہچکیاں سنائی دیتی ہوں تنہائی کے کرب ناب لمحے بھی جبرِ مسلسل کے سانپ کی طرح ڈستے ہیں اور اس کا زہر رگِ جاں میں سرایت کرتا چلا جاتا ہے سعادت حسن آس نے “راستہ کوئی نہیں ” کی عمیق ردیف کو کتنی خوب صورتی کے ساتھ نبھایا ہے ان اشعار میں شاعر کا حسنِ تخیل کیسے رقص کرتا ہے ملاحظہ کیجیے:۔
رات کی گہری خموشی قید خانوں کی طرح
موت دستک دے رہی ہے راستہ کوئی نہیں
مفلسی سے جنگ کر کر کے تھکی ہاری ہوئی
ایک دو شیزہ کھڑی ہے راستہ کوئی نہیں
رودادِ عشق دو لفظوں میں بیان کرنا انتہائے سخن ہوتا ہے اور قدرت یہ عطیہ کسی کسی شاعر کی جھولی میں ڈالتی ہے سخن شناس لوگ ان دو لفظوں سے پوری کہانی کی لذت محسوس کر کے شاعر کی زندگی پر لکھ دیتے ہیں سعادت حسن آس وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ خوبی و کمال بھی عطا کیا ہے زیرِ نظر اشعار میں یہ روداد دل و نگاہ میں کیسے موتی بکھرتی ہے ملاحظہ فرمائیے:۔
سرسری سی تیری اک آدھ ملاقات کے بعد
کوئی نظروں میں سمایا نہ تیری ذات کے بعد
ہمنشیں یاد تیری روح میں ایسی پھیلی
جیسے ہلکی سی مہک اٹھتی ہے برسات کے بعد
میں ذاتی طور پر سعادت حسن آس کی فنی اور تکنیکی صلاحیتوں کا معترف ہوں ان کے کلام میں کلاسیکی روایت سلاست اور بلاغت کے ساتھ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں آسان لفظوں میں بہت بڑی بات بہت خوب صورتی سے ادا کر جاتے ہیں ۔ان کے قریب رہ کر میں نے ان کو جتنا حساس پایا ہے اتنا کوئی اور کہاں ہو گا آس شیشے کا دل رکھنے والے انسان ہیں اور دنیا تو ہاتھوں میں سنگ لیے شیشہ صفات انسان کو کرچی کرچی کرنے کے لیے بے تاب بیٹھی ہوتی ہے لیکن سعادت حسن آس نے الفاظ کو ڈھال بنا کر اپنا دفاع کرنا سیکھ لیا ہے۔ اس غزل میں ردیف ” پتھروں کے شہر میں” کا استعمال اُن کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے لیجیے آپ بھی نظریں سیراب کیجیے:۔
ایک شیشے کا مکاں ہے پتھروں کے شہر میں
اور دشمن سب جہاں ہے پتھروں کے شہر میں
سسکیاں لے لے کے ساری آرزوئیں سو گئیں
کوئی سنتا ہی کہاں ہے پتھروں کے شہر میں
آخر میں دعا کرتا ہوں کہ سعادت حسن آس کا سایہ اردو ادب پر ہمیشہ قائم رہے اور وہ اسی طرح علم و ادب کے موتی بانٹتے رہیں۔ آمین
سیّد حبدار قائم
اٹک
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔