مستقبل کا صہیونی کیٹاکومب
مردہ انسانوں کے جسم کا تصور دماغ میں خوف پیدا کرتا ہے مگر کیٹاکومبز زیر زمین ایسے عجائب گھر نما قبرستان ہیں جن کو دیکھ کر سیاح محظوظ ہوتے ہیں۔ “کیٹاکومب” (Catacomb) انگریزی زبان کا لفظ ہے جو مردہ انسانوں کی ان سرنگوں کی تشریح کرتا ہے جن کی اندرونی دیواروں پر انسانوں کی خشک و سوختہ ہڈیاں اور کھوپڑیاں لگی ہوتی ہیں. دنیا میں پائے جانے والے ان کیٹاکومبز کی سیاحت کے لیئے روزانہ ہزاروں زندہ انسان ان سرنگوں میں اترتے ہیں، انہیں دیکھتے ہیں، چھوتے ہیں، اور ان کے ساتھ تصاویر وغیرہ بناتے ہیں۔ہیں۔
یوں تو دنیا میں بہت سارے کیٹاکومب موجود ہیں لیکن پیرس کا کیٹاکومب کافی مشہور ہے۔ جہاں سیاح اس سرنگ میں نیچے اتر کر اس کا جائزہ لے سکتے ہیں اور ان مردہ لوگوں کی ہڈیوں کے ساتھ اپنی تصاویر وغیرہ بنا سکتے ہیں۔
اس کیٹا کومب میں کم و بیش 70لاکھ مُردے موجود ہیں اس سرنگ میں بہت سے غار نما گڑھے ہیں جن کی مجموعی لمبائی 200 کلومیٹر کے قریب ہے۔ ان غاروں کی دیواروں میں چنی ہوئی انسانی ہڈیاں اور سوختہ کھوپڑیاں ہیں۔ پیرس کا کیٹا کومب ایک زندہ قبرستان ہے جس کی دیواریں انسانی ہڈیوں اور کھوپڑیوں سے بنی ہوئی ہیں، سیاح ہڈیوں کو چھو کر دیکھ سکتے ہیں۔ آپ جس طرف دیکھیں ہڈیوں کے ڈھیر نظر آتے ہیں اور ان پر موت کے لرزتے سائے دکھائی دیتے ہیں اور ان سایوں کے درمیان میلوں لمبے غار ہیں یہ دنیا کا دوسرا بڑا کیٹا کومب یعنی زیر زمین قبرستان ہے۔
پہلی بار “کیٹا کومب” کا تصور یہودیوں سے آیا اور یہودیوں نے یہ آرٹ مصری فرعونوں سے سیکھا، مصر کے قدیم باشندے مُردوں کو دفن نہیں کرتے تھے، وہ زمین میں غار تلاش کرتے تھے اور اپنے مُردوں کو ان غاروں میں چھوڑ آتے تھے، اہرام مصر بھی کیٹا کومب تھے۔ یہ شاہی مُردہ خانے تھے، بادشاہ عام لوگوں کے ساتھ دفن ہونا اپنی توہین سمجھتے تھے چنانچہ یہ اپنے لئے الگ غار تلاش کرتے تھے اور اس غار پر اہرام تعمیر کرا دیتے تھے جبکہ عام لوگ عام غاروں میں دفن ہوتے تھے، عیسائی عقیدے کے مطابق عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی صلیب سے اتار کر ایک غار ہی میں چھوڑ دیا تھا اور ان کا جسم اطہر بعد ازاں اس غار سے غائب ہو گیا تھا، عیسائی زائرین آج بھی المقدس (یروشلم) کے اس غار کی زیارت کیلئے جاتے ہیں۔ یوروشلم شہر کے نیچے میلوں لمبا کیٹا کومب ہے اور اس زیر زمین قبرستان میں لاکھوں لوگوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں پڑی ہیں۔
دنیا کا سب سے بڑا کیٹا کومب روم شہر کے نیچے ہے۔ یہ 6ہزار سال پرانا ہے اور یہ 375 میل لمبا ہے اور یہاں 80 سے 90 لاکھ لوگوں کی باقیات رکھی ہیں۔
تیسرا بڑا کیٹا کومب مصر کے شہر سکندریہ کے نیچے ہے، یہ تین منزلہ ہے اور ان تین منزلوں میں درجوں کے مطابق مُردے دفن ہیں، امیر اور بارسوخ لوگ پہلی منزل پر پڑے ہیں، دوسرے درجے میں، دوسرے درجے کے مُردے ہیں اور تیسرے درجے میں تیسرے درجے کے مُردے حشر کا انتظار کر رہے ہیں یہ کیٹا کومب 1900ء میں اس وقت دریافت ہوا جب ایک گدھا گڑھے میں گر گیا، لوگ گدھے کو نکالنے کیلئے گڑھے میں اترے اور پھر اس شہر میں نکل گئے جس میں لاکھوں لوگوں کی ہڈیاں ان کی منتظر تھیں۔
چوتھا سب سے بڑا کیٹا کومب گاڈ فادر سسلی کے شہر پولرمو میں ہے۔ یہ 16ویں صدی میں دریافت ہوا اور اس میں ہزارہا لوگوں کی ہڈیاں پڑی ہیں۔
اسی طرح مالٹا میں چوتھی سے نویں صدی کا کیٹا کومب بھی موجود ہے۔ ویانا شہر کے سینٹ سٹیفن کیتھڈرل کے نیچے بھی میلوں لمبا کیٹا کومب ہے اور چیک ری پبلک کے شہر برونو میں دنیا کا ساتواں بڑا کیٹا کومب ہے، اس میں 50 ہزار مُردے اپنے حساب کا انتظار کر رہے ہیں۔
یوکرائن کے شہر اوڈیسا کے نیچے اڑھائی ہزار کلومیٹر لمبے غار ہیں اور ان غاروں میں بھی کئی کیٹا کومب موجود ہیں یہ فاصلہ کتنا طویل ہے، آپ اس کا اندازہ اوڈیسا سے پیرس کے فاصلے سے لگا لیجئے، پیرس اوڈیسا سے 2138 کلو میٹر دور ہے جبکہ اوڈیسا شہر کے نیچے 2500 کلو میٹر لمبا کیٹا کومب ہے، یوکرائن کی حکومت نے 1995ء میں چند لوگ ان غاروں میں اتارے، یہ لوگ مسلسل 27 گھنٹے چلتے رہے اور انہوں نے صرف 40 کلو میٹر سفر طے کیا۔
2005 ء میں چند نوجوانوں نے اسی کیٹا کومب میں نیو ائیر پارٹی کا بندوبست کیا، پارٹی کے دوران ماشا نام کی ایک لڑکی راستہ بھٹک گئی اور ناجانے کہاں غائب ہو گئی پولیس کو اس کی لاش تلاش کرنے کیلئے دو سال لگ گئے۔ یوکرائن کے کیٹا کومب کا درجہ حرارت انتہائی کم ہوتا ہے چنانچہ وہاں آج بھی سینکڑوں سال پرانی لاشیں اصل حالت میں موجود ہیں اور سائنس دان تحقیق کیلئے عموماً یہاں سے نمونے حاصل کرتے رہتے ہیں لیکن پیرس کا کیٹا کومب ان تمام کیٹا کومبز کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ یہ سیاحوں کیلئے کھلا ہے۔ حکومت نے لوگوں کو بھٹکنے سے بچانے کیلئے غاروں پر سلاخیں بھی لگا رکھی ہیں، آپ ممنوعہ علاقے میں داخل نہیں ہو سکتے، سیاحوں کی باقاعدہ کاؤنٹنگ بھی کی جاتی ہے۔ ایک وقت میں بیس سے زیادہ لوگوں کو غاروں میں نہیں جانے دیا جاتا اور دوسری وجہ آرٹ ورک ہے، کیٹا کومب میں ہڈیاں اور کھوپڑیاں ایک مصورانہ ترتیب سے رکھی ہوئی ہیں، آپ انہیں دیکھ کر خوفزدہ نہیں ہوتے بلکہ آپ انہیں آرٹ ورک سمجھ کر داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
انسانی کی فطرت سے درندگی نہیں گئی، وہ اپنے جیسے خشک اور مردہ انسانوں کو دیکھ کر لرز جانے کی بجائے اس میں “آرٹ” ڈھونڈتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ اس کی حالیہ مثال اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی ہے۔ اس تماشے کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے مگر لرزہ بر اندام نہیں ہے۔
یہودیوں کو آدھی سے زیادہ دنیا “صہیونی” کہتی ہے۔ چونکہ کیٹاکومب کی ابتداء انہی صہیونیوں نے کی تھی اور اگلا بڑا کیٹاکومب بنانے کی جدوجہد بھی یہی صہیونی کر رہے ہیں۔ اگر جلد جنگ بندی نہ ہوئی تو یہ کیٹاکومب اس لحاظ سے دنیا کا منفرد ترین “کیٹاکومب” ہو گا کیونکہ اس میں دنیا کی صرف ایک قوم کی بریدہ اور سوختہ ہڈیاں ہونگی، جو فلسطینی قوم کی ہونگی۔ مستقبل قریب میں مسلمانوں سمیت دنیا بھر کے سیاح اس کیٹاکومب کو دیکھیں گے اور بے شرمی سے خوش بھی ہونگے، اور وہ یہودیوں کی طاقت اور آرٹ کی داد دیئے بغیر بھی نہیں رہ سکیں گے۔ الاامان الحفیظ!!!
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔