تصوف اور عشق حقیقی کے اسرارورموز پر لکھاگیا بہترین ناول”دھندلے عکس”

تصوف اور عشق حقیقی کے اسرارورموز پر لکھاگیا بہترین ناول”دھندلے عکس”


تبصرہ نگار : کنیز باھو

کچھ دن پہلے ڈاک کے ذریعے پریس فارپیس فاؤنڈیشن  ٹیم کی وساطت سےپیاری دوست کرن عباس کرن کا  یہ محبت بھرا تحفہ ناول
 ” دھندلے عکس “ موصول ہوا۔
 میں نے پہلے اس ناول کے چند اقتباسات  فیس بک سے پڑھ رکھے تھے ،جن کی وجہ سے مصنفہ سے اور ناول سے انسیت پیدا ہوگئی پھر جنگ نیوز پیپر سے ناول کی چند اقساط پڑھیں میری خوش نصیبی ہے کہ یہ ناول آج مجھ تک پہنچایاگیا۔ ناول میں عشق حقیقی کے جذبات کو انتہائی لطیف پیرائے میں قلمبند کیاگیا۔
کرن عباس کرن صاحبہ کا یہ پہلاناول ہے اتنی کم عمری میں شاہکار تخلیق تخلیق کار پر مالک کے خصوصی کرم کی نشاندہی کرتاہے ۔

تصوف اور عشق حقیقی کے اسرارورموز پر لکھاگیا بہترین ناول”دھندلے عکس”

ناول کا نام” دھندلے عکس “ اپنے مفہوم میں بے پناہ وسعت رکھتا ہے۔  انسان جب یہ سوچتا ہے کہ اللہ کی چاہت کیا ہے تو وہ غوروفکر کے بعد اس نقطے پر پہنچتا ہے کہ اللہ کی چاہت یہ ہے کہ انسان اسے پہچانے۔
جیسا کہ حدیث قدسی میں بیان ہوا ہے ۔
ﮐﻨﺖ ﮐﻨﺰﺍً ﻣﺨﻔﯿﺎً ﻓﺄﺣﺒﺒﺖ ﺃﻥ ﺍُﻋﺮﻑ ﻓﺨﻠﻘﺖُ ﺍﻟﺨﻠﻖ ﻟﮑَﯽ ﺍُﻋﺮﻑ ..
_____””ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﭙﺎ ﮨﻮﺍ ﺧﺰﺍﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﭽﺎﻧﺎ ﺟﺎﺅﮞ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ۔”
پس ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﮨﮯ۔ جب ہمارے دل پر چھائی  دوست ،رشتہ دار ،مال ودولت بشمول تمام دھندلے عکوس کی گرد چھٹتی ہے تو آئینہ ہ دل شفاف ہوجاتا ہے ۔ شفاف دل نگاہ مرشد کامل کی عنایت سے خانہ خدا بن جاتا ہے۔
حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف عین الفقر میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرماتے ہیں۔
” نقش جب نقاش میں ڈھل جاتا ہے تو
 رازپنہانی ظاہر ہوتا ہے۔“
علامہ اقبال کا شعر ہے
”اگرچہ بت ہے جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم آذاں لاالہ الااللہ “
یہ ناول غفلت کی گرد میں اٹے شعور کی اندھیرنگری میں دی گئی وہ آذاں ہے جو روح کو بیداری کا درس دے کر اسے روزالست کا نغمہ سناتی ہے۔
قرآن پاک کی آیت مبارکہ ”وتبتل الیہ تبتیلا “
سب سے ٹوٹ کراسی کے ہورہو ہمیں انہی دھندلے عکوس سے منہ موڑکراپنارخ حقیقت کی طرف کرنے کا حکم دیتی ہے اور حقیقت ذات مصطفی ﷺ ہے ۔یہی کامل ایمان کا تقاضا ہے جیسا کہ
 حدیث پاک کا مفہوم ہے حضرت سیدنا عبداللہ بن ہشامؓ کہتےہیں کہ ہم ایک مرتبہ نبی کریمﷺ کے ساتھ تھے اور آپ سیدنا عمر بن الخطابؓ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ سیدناعمر ؓ نے عرض کیا *یارسول اللہﷺ!* یقینا آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے میرے نفس کے اس پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
     ” نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے یہاں تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہارے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہوجاؤں۔” یعنی اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔زبانِ رسالتؐ سے یہ بات سننی تھی کہ سیدنا عمر ؓ نے عرض کیا ” ہاں! اللہ کی قسم ، اب آپ مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔”
    *رسول اللہﷺ* نے ارشاد فرمایا ” ہاں اب اے عمررضی اللہ عنہ ۔”  یعنی اب تمہارا ایمان مکمل ہوا _(صحیح بخاری)_
  یہ رویت اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ہر بندۂ مومن کو *رسول اللہﷺ* شدید محبت ہونی چاہیئے اور یہ محبت دنیا کی تمام محبوب چیزوں  سے حتیٰ کہ اپنی عزیز جان سے بھی بڑھ کر ہونی چاہئے۔ جب تک کوئی شخص اس معیار پر پورا نہ اترے، اس کا ایمان بھی مکمل نہیں ہوسکتا۔
ناول کے نام کا کہانی سے تعلق ، کرداروں کا کہانی سے تعلق ، اتنا مربوط ہے جیسے لفظ معانی کے سمندر میں ضم ہونے کے بعد ایک ہی مفہوم اختیار کرلیتے ہیں۔ اگرچہ پلاٹ سازی میں مختلف تکنیکس کااستعمال کیا گیا کہانی کو تین ادوار میں مختلف کرداروں کے درمیان منقسم کیاگیاہے لیکن اس کے باوجود جہاں سے بھی پڑھا ایسا محسوس ہوا کہ کہانی مکمل ہے۔
مصنفہ نے کردارنگاری میں کمال مہارت کا مظاہرہ کیا ہے کردار وہ چنے جن  سے وہ تخلیق کاری کے جوہر،فنکاری کی نفسیات ، فن اور ذات کے تعلق کااظہار احسن انداز میں کرسکیں جیسے رسیم مصور ،اسرإ ،نایاب غادہ ۔
بابا محمد علی مرشدکا کردار ہے جو اپنی جستجو میں الجھی ہوٸی اسراء کی شخصیت کو درست سمت دکھا کر  اس کا رخ معرفت حقیقی کی طرف موڑ دیتا ہے ۔ وہاں سے چند اقتباس شئیر کرنا چاہوں گی۔
   “راضی بہ رضا لوگ وہ خوش قسمت ہوتے ہیں جو دنیا کے ساتھ اسے بھی پا لیتے ہیں ۔وہ خدا سے خدا نہیں اس کی رضا طلب کرتے ہیں،مگر خدا انھیں خود چُن لیتا ہے۔ “
”معرفت کی پہلی سیڑھی طلب ہے اور طلب کا اوّلین قرینہ سپردگی، مکمل سپردگی۔ اپنی انا، علم، اقتدار کا ہر چوغہ اتار کر محض طالب بن جانا سپردگی ہے۔ مطلوب جو عطا کرے، اُسے قیمتی موتی کی طرح مضبوطی سے تھام لو۔ کیوں کہ قبولیت سپردگی کا پہلہ زینہ ہے۔ یہ تربیت دنیا ترک کرنے سے حاصل نہیں ہوتی۔ زندگی کو جی کر، دنیا میں رہ کر حاصل ہوتی ہے۔ ان سب مراحل سے گزر کر انسان کا حقیقی روپ ظاہر سے ہم آہنگ ہونے لگتا ہے۔ یہ ہم آہنگی وہ سُکون ہے، جس کے ہم سب متلاشی ہیں۔‘‘
(اقتباس )
کرن عباس کرن کی نثر میں مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ کی شاعری کی جھلک ہے۔ جیسے مصنفہ مولانارومی کی شاعری سے گہری انسیت رکھتی ہیں۔
ناول کا ہرجملہ اپنے اندر مختصر اور جامع مفہوم سموۓ ہوۓ ہے۔
 ”جب کسی شے کی طلب بڑھتی ہے تو اس کے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں۔“
مولانا رومی نے اپنی شاعری میں اسی نقطے کی طرف اشارہ کیا ہے ”پانی نہ ڈھونڈ پیاس پیداکر“
اگر آپ کی ذات بھی الجھاٶ کاشکار ہے جاننا چاہتے ہیں کہ
*ذندگی کا مقصد کیا ہے ۔؟
*باطنی تربیت کیسے ہوتی ہے۔؟
*روحانی بیداری کیوں ضروری ہے ۔؟
*سب سے بڑا عالمی مسئلہ” باطنی انتشار“ ہے۔اس کا حل کیا ہے ۔؟
*تخلیق سے تخلیق کار کا عکس دیکھنے والی نگاہ کیسے کھلتی ہے جس سے تمام دھندلے عکس صاف دکھاٸی دیتے ہیں۔؟انسان کی حقیقت کیا ہے ۔؟
*تو کرن عباس کرن کاناول ”دھندلے عکس “* پڑھیے ۔
دعا ہے مالک پاک اس کی تاثیر اسے پڑھنے والے ہر قاری کے دل میں اتار کر دل کو حقیقی قرب سے آشنا فرما ئیں۔ آمین!
کرن عباس کرن اور پریس فار پیس فاؤنڈیشن کی ایک بار پھر مشکور ہوں ۔مالک پاک کامیابیوں کا سلسلہ دراز فرما ئیں  آمین

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

بے بے، چاچا، لالہ، کاکا رشتےداریاں

ہفتہ اکتوبر 21 , 2023
دروغ بر گردن راوی ایک چیک پوسٹ پر بہت سختی تھی کہ کوئی بی بی بغیر محرم کے سفر نہ کرے
بے بے، چاچا، لالہ، کاکا رشتےداریاں

مزید دلچسپ تحریریں