ابن انشاء کی نظم “یہ بچہ کس کا ہے؟” کا فنی و فکری مطالعہ

ابن انشاء کی نظم “یہ بچہ کس کا ہے؟” کا فنی و فکری مطالعہ

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

ابن انشاء کی شہرہ آفاق نظم “یہ بچہ کس کا ہے؟” میں بنجر صحرا میں ایک نظر انداز بچے کی حالت زار کو دکھایا گیا ہے۔ آپ کے اشعار بچے کی بدحالی کو سامنے لاتی ہیں، جس میں خوشحالی کی دنیا اور بچے کی تلخ حقیقت کے درمیان بالکل واضح فرق کو دکھایا گیا ہے۔
شاعری کا مرکزی موضوع تفاوت اور ہمدردی کے گرد گھومتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ابن انشا نے ہر بچے کی فلاح و بہبود کے لیے مشترکہ ذمہ داری پر زور دیتے ہوئے دنیا میں پائی جانے والی عدم مساوات کو اجاگر کیا ہے۔ نظم معاشرتی ڈھانچے اور انسانی ہمدردی کے بارے میں سوالات اٹھاتی ہے۔

ابن انشاء کی نظم “یہ بچہ کس کا ہے؟” کا فنی و فکری مطالعہ


ابن انشاء کی نظم کی ساخت اور تھیم کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ نظم سات بندوں پر مشتمل ہے، ہر ایک مختلف پہلوؤں کو مخاطب کرتی ہے۔ پہلے دو بند بچے کی حالت زار پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جب کہ تیسرا ماحول – بھوک اور موت کے بارے میں ہے۔ اشعار چار اور پانچ متضاد جہانوں کا تعارف کراتے ہیں۔ چھٹا حصہ مداخلت پر زور دیتا ہے اور آخری حصہ مشترکہ ملکیت اور ذمہ داری پر زور دیتا ہے۔
ابن انشاء نے “بھوک کا صحرا” اور “موت کا صحرا” جیسے استعارے استعمال کرتے ہوئے جذبات کو ابھارنے کے لیے واضح تصویر کشی کی ہے۔ سوال کی تکرار “یہ بچہ کس کا ہے؟” اجتماعی ذمہ داری پر زور دیتے ہوئے ایک بیان بازی کے آلے کے طور پر کام کرتا ہے۔ اور دنیا کے مختلف حصوں کے درمیان تضاد بیانیہ میں تہوں کا اضافہ کرتا ہے۔
نظم بچے کی جسمانی حالت کو بیان کرنے سے لے کر سماجی و اقتصادی تفاوتوں کی گہرائی میں تحقیق کرنے تک مہارت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ ابن انشاء قارئین کو سماجی ڈھانچے، دولت کی تقسیم، اور انسانیت کے عالمگیر بھائی چارے پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ نظم کا آخری اشعار کی انتہا اجتماعی ملکیت اور ہمدردی کے خیال کو تقویت دیتی ہے۔
ابن انشا نے مہارت کے ساتھ ایک پُرجوش داستان بیان کی ہے جو بچے کے مخصوص حالات سے بالاتر ہے، شاعر قارئین کو عدم مساوات اور مشترکہ انسانیت کے وسیع تر مسائل پر غور کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ “یہ بچہ کس کا ہے؟” خود شناسی کی دعوت دیتا ہے، اسے ایک لازوال ٹکڑا بناتا ہے جو تمام ثقافتوں کے قارئین کو پسند آئے گا، یہ نظم مجھے عبید رضا بھائی کے توسط سے ملی ہے اس کے شکرئیے کے ساتھ یہ نظم اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے پیش خدمت ہے۔
**”


یہ بچہ کس کا بچہ ہے (نظم)


یہ بچہ کس کا بچہ ہے
یہ بچہ کالا کالا سا
یہ کالا سا مٹیالا سا
یہ بچہ بھوکا بھوکا سا
یہ بچہ سوکھا سوکھا سا

یہ بچہ کس کا بچہ ہے
یہ بچہ کیسا بچہ ہے
جو ریت پہ تنہا بیٹھا ہے
نا اس کے پیٹ میں روٹی ہے
نا اس کے تن پر کپڑا ہے
نا اس کے سر پر ٹوپی ہے
نا اس کے پیر میں جوتا ہے
نا اس کے پاس کھلونوں میں
کوئی بھالو ہے، کوئی گھوڑا ہے
نا اس کا جی بہلانے کو
کوئی لوری ہے، کوئی جھولا ہے
نا اس کی جیب میں دھیلا ہے
نا اس کے ہاتھ میں پیسا ہے
نا اس کے امی ابو ہیں
نا اس کی آپا خالا ہے
یہ سارے جگ میں تنہا ہے
یہ بچہ کیسا بچہ ہے

یہ صحرا کیسا صحرا ہے
نا اس صحرا میں بادل ہے
نا اس صحرا میں برکھا ہے
نا اس صحرا میں بالی ہے
نا اس صحرا میں خوشا ہے
نا اس صحرا میں سبزہ ہے
نا اس صحرا میں سایا ہے

یہ صحرا بھوک کا صحرا ہے
یہ صحرا موت کا صحرا ہے

یہ بچہ کیسے بیٹھا ہے
یہ بچہ کب سے بیٹھا ہے
یہ بچہ کیا کچھ پوچھتا ہے
یہ بچہ کیا کچھ کہتا ہے
یہ دنیا کیسی دنیا ہے
یہ دنیا کس کی دنیا ہے

اس دنیا کے کچھ ٹکڑوں میں
کہیں پھول کھلے کہیں سبزہ ہے
کہیں بادل گھر گھر آتے ہیں
کہیں چشمہ ہے، کہیں دریا ہے
کہیں اونچے محل اٹاریاں ہیں
کہیں محفل ہے، کہیں میلا ہے
کہیں کپڑوں کے بازار سجے
یہ ریشم ہے، یہ دیبا ہے
کہیں غلے کے انبار لگے
سب گیہوں دھان مہیا ہے
کہیں دولت کے صندوق بھرے
ہاں تانبا، سونا، روپا ہے
تم جو مانگو سو حاضر ہے
تم جو چاہو سو ملتا ہے

اس بھوک کے دکھ کی دنیا میں
یہ کیسا سکھ کا سپنا ہے؟
وہ کس دھرتی کے ٹکڑے ہیں؟
یہ کس دنیا کا حصہ ہے؟

ہم جس آدم کے بیٹے ہیں
یہ اس آدم کا بیٹا ہے
یہ آدم ایک ہی آدم ہے
یہ گورا ہے یا کالا ہے
یہ دھرتی ایک ہی دھرتی ہے
یہ دنیا ایک ہی دنیا ہے
سب اک داتا کے بندے ہیں
سب بندوں کا اک داتا ہے
کچھ پورب پچھم فرق نہیں
اس دھرتی پر حق سب کا ہے

یہ تنہا بچہ بے چارہ
یہ بچہ جو یہاں بیٹھا ہے

اس بچے کی کہیں بھوک مٹے
(کیا مشکل ہے، ہو سکتا ہے)
اس بچے کو کہیں دودھ ملے
(ہاں دودھ یہاں بہتیرا ہے)
اس بچے کا کوئی تن ڈھانکے
(کیا کپڑوں کا یہاں توڑا ہے)
اس بچے کو کوئی گود میں لے
(انسان جو اب تک زندہ ہے)

پھر دیکھے کیسا بچہ ہے
یہ کتنا پیارا بچہ ہے!

اس جگ میں سب کچھ رب کا ہے
جو رب کا ہے وہ سب کا ہے
سب اپنے ہیں کوئی غیر نہیں
ہر چیز میں سب کا ساجھا ہے
جو بڑھتا ہے، جو اگتا ہے
وہ دانا ہے، یا میوہ ہے
جو کپڑا ہے، جو کمبل ہے
جو چاندی ہے، جو سونا ہے
وہ سارا ہے اس بچے کا
جو تیرا ہے، جو میرا ہے

یہ بچہ کس کا بچہ ہے؟
یہ بچہ سب کا بچہ ہے!

[email protected] | تحریریں

رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ''کافرستان''، اردو سفرنامہ ''ہندوکش سے ہمالیہ تک''، افسانہ ''تلاش'' خودنوشت سوانح عمری ''چترال کہانی''، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ریاست الینوائس میں پنجابی زبان کے مہینے کا اعلان

پیر فروری 5 , 2024
ریاست الینوائس میں پنجابی زبان کا مہینہ قرار دینے کا حالیہ اعلان ریاست کی جانب سے دنیا بھر میں پنجابی زبان کی بھرپور ثقافت
ریاست الینوائس میں پنجابی زبان کے مہینے کا اعلان

مزید دلچسپ تحریریں