آغاز بحث (اپنی بات سے)

کتاب حقیقت کی تلاش

                                                عرصہ ہوا سوچ رہا تھا کہ اپنے خیالات جو رہ رہ کر ذہن میں اٹھتے ہیں انھیں تحریر میں لاؤں اب جب کہ زندگی کے چوالیس (44) سالوں کے طلوع و غروب دیکھ چکا ہوں، جوانی بیت گئی ادھیڑ عمر آئی اور بڑھاپے کی طرف برق رفتاری سے جا رہا ہوں نہ جانے زندگی کی کتنی سانسیں باقی ہیں۔ کب ہارٹ اٹیک، کوئی اچانک حادثہ، بیماری، صدمہ یا المیہ زندگی کا خاتمہ کر دے یا عضو معطل بنا دے، ضروری ہے کہ جو پڑھا، سمجھا، جانا یا میرے دل میں جو رب ِ کریم نے علم و آگہی ڈالی اسے تحریر کر دوں۔شاید اس میں بنی نوع انسان کے لیے کوئی کام کی بات نکل آئے۔ مجھے اپنے عالم ہونے یا دانش ور ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں ہے میری تحریروں میں املا کی غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں، زباندانی میں سقم ہوں گے، علمی ٹھوکریں بھی ہوں گی،کچھ باتوں سے نابلد بھی ہوں گا۔ غرض پڑھنے والے اپنے اپنے غور و فکر اور قابلیت کے مطابق بے شمار طعن کر سکیں گے اور میرے اندر سو ہزار نقائص نکال سکیں گے مجھے اپنی بے شمار کوتاہیوں، کمزوریوں، نالائقیوں، جہالتوں اور حماقتوں کا اقرار ہے۔ اس لیے پڑھنے والے بجائے اس تنقید پر اپنا وقت ضائع کرنے کے اس میں سے کام کی باتیں ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ سمجھیں میری تحریر کباڑ ہے جس میں سے آپ نے کام کی چیزیں چھانٹ کر الگ کرنا ہیں، ریت سے موتی ڈھونڈنے ہیں یا جنگل میں دبا ہواخزانہ تلاش کرنا ہے۔ مجھے یقین ہے خدا نہ ملا نہ ملا اس کے نشانات ضرور ملیں گے۔

حقیقت کی تلاش

ایک احساس:

                                                اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کیوں بچپن ہی سے ایک عجیب احساس میرے دل میں گھر کر گیا ہے میں اسے لاکھ جھٹکنا چاہتا ہوں اور حقیقت کی طرف خود کو مائل کرنا چاہتا ہوں لیکن یہ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ چلیں آج اس کا اظہار آپ کے سامنے بھی کرتا ہوں۔ مجھے شروع عمر سے ہی احساس بلکہ یہ یقین کی حدود ں کو پہنچا ہوا احساس ہے کہ میں اس دنیا میں کوئی (ان شاء اللہ) بہت بڑا کام کرنے کے لیے پیدا ہوا ہوں اور یہ کہ میں نے اس دنیا کے لیے بفضل تعالیٰ کوئی بہت بڑا کام کرنا ہے۔معاف کیجیے گا یہ کوئی خودستائش اور دعویٰ نہیں ہے یہ ایک احساس ہے جو یقین کو نہ جانے کیوں پہنچا ہوا ہے۔جبکہ میں حقیقت میں ایک بہت معمولی سا اور عام سا آدمی ہوں۔

میری سوچ کے زاویے:

                                                میں شروع سے خود پر اور اس وسیع و عریض کائنات پر غور کرتا رہتا ہوں۔ میں کیا ہوں؟ یہ دنیا کیا شے ہے؟ یہ کائنات کیا ہے اس کی حقیقت، آغاز و انجام اور حدود کیا ہیں؟ یہ کیسے وجود میں آگئی؟ اس سے پہلے کیا تھا؟ اس کے بعد کیا ہو گا؟ علم کیا ہے؟ حقیقت کسے کہتے ہیں؟   اللہ پاک کی ہستی کیا ہے؟ ہم اسے کیسے جان اور پہچان سکتے ہیں؟ اللہ کے رسول ؑ کون لوگ ہوتے ہیں؟ یہ بے شمار مخلوقات کیا ہیں؟ ان کی الگ الگ دنیائیں کیسی ہیں کیا ہیں؟ ان کے کیا احساسات ہیں؟ دنیا میں امن کیوں ناممکن ہے؟ مذہب کیا شے ہے؟جب سب مذاہب اللہ کی جانب سے ہیں تو کیوں یہودی، عیسائی، مسلمان اور دیگر بے شمار مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹتے نہیں تھکتے؟ گناہ و ثواب کیا ہے؟ سچائی کسے کہتے ہیں؟

حسن کیا شے ہے؟ محبت کیا ہے اور عشق کس جذبے کا نام ہے؟ کیا میں بے شمار انسانوں کی طرح پانی کا بلبلہ ہوں اور میری زندگی بس یہی ہے گنتی کے سانس اور گنے ہوئے ماہ و سال اور طلوع و غروب یا اس کے علاوہ بھی میری کوئی حقیقت ہے؟ میں جب سے باشعور ہوا ہوں مجھے یہی فکر دامن گیر ہے کہ میری زندگی کتنی تیزی سے گزر رہی ہے میں کل تو بچہ تھا، ابھی کل تو میں جوان تھا یہ ایک دم سے میں (44)کی عمر پر کیسے آ گیا ہوں میں تو اسی تیزی سے بوڑھا ہو کر مر جاؤں گا۔ تو پھر آخر میں اس دنیا میں آیا ہی کیوں؟ پیدا ہونا، کھانا پینا، بڑا ہونا، بوڑھا ہونا، پھر مر جانا، کیا یہی زندگی ہے؟ اگر یہی زندگی ہے تو پھر اس کی تو کوئی حقیقت نہ ہوئی، اس بے مقصد زندگی سے تو نہ ہونا بہتر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے!  ترجمہ ”ہم نے یہ زندگی (دنیا) یوں ہی کھیل تماشا کے طور پر پیدا نہیں فرمائی“۔ جب یہ کھیل تماشا بھی نہیں ہے تو پھر یہ کیا ہے؟ ہمیں یہ معلوم کرنا پڑے گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آسمانی صحائف کے ذریعے بتاتا ہے کہ زندگی کیسے گزارو۔ جب ہم اس طرح سے زندگی گزارتے ہیں تو یقینا فساد ختم ہو جاتا ہے زندگی پر سکون اور حسین ہو جاتی ہے لیکن جب زندگی پر سکون ہو جاتی ہے، رواں ہو جاتی ہے بے امنی اور فساد نہیں

رہتا تو پھر اس وقت زندگی کا مقصد کیا ہے یہ سوچنا پڑتا ہے۔ ہاں یہاں یہ قرآن پاک رہنمائی فرماتا ہے کہ آسمان و زمین کے درمیان جو کچھ ہے اسے تسخیر کرو، یہ تمہارے لیے ہے اس پر غور و فکر کرو۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی (نشانیاں) آیات ہیں، کلمات ہیں جن کا عشر عشیر بھی تمہیں معلوم نہیں ان پر غور کرو انھیں معلوم کرو۔ پھر جس نے صالح زندگی گزار ی اور اپنی صلاحیتوں کو ٹھیک سمت لگایا یا بھٹکا اس کے لیے جزاء و سزا ہے۔

                                                سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ مادی کائنات جسے ہم اپنے پانچ حواس سے محسوس کر سکتے ہیں یہ بہت زیادہ وسیع و عریض ہے۔ اس خلائے بسیط میں کروڑوں نہیں اربوں ستارے ہیں۔ جو درحقیقت ہر ستارہ ایک سورج ہے اس کا اپنا نظام شمسی ہے یعنی ہر سورج کے گرد اس کے سیارے ہمارے سورج کے 9سیاروں کی طرح مختلف تعداد میں موجود ہین اور حرکت کر رہے ہیں۔ کروڑوں ستاروں پر مشتمل ایک ایک کہکشاں ہے اور کروڑوں کہکشائیں ہیں جو ایک دوسرے سے لاکھوں کروڑوں میل دور ہیں۔ ہر ستارہ (سورج) ایک دوسرے سے کروڑوں میل دور ہے ہر ستارے (سورج) کے گرد حرکت کرنے والے سیارے ایک دوسرے سے لاکھوں میل کے فاصلے پر ہیں۔ اگر ہم روشنی کی رفتار سے سفر کریں تو ایک ایک ستارے (سورج) تک پہنچنے کے لیے کئی سال یا سینکڑوں سال یا شاید ہزاروں نوری سال لگ جائیں۔ اللہ! تیری قدرت! یہ کائنات اتنی زیادہ وسیع و عریض ہے تو پھر زمین بے چاری کی اس میں حیثیت ہی کیا ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے سمندر میں ایک قطرے کی یا صحرا میں ایک ذرہ ریت کی۔ واہ ربّا! اگر یہ حیثیت زمین کی ہے تو آج ہم جس رفتار سے زمین کے خزائن معلوم کرنے میں لگے ہوئے ہیں (صرف غیر مسلم اقوام، مسلمان تو سوئے ہوئے ہیں) صرف زمین پر تحقیقات و تلاش کے لیے کئی دہائیاں بلکہ صدیاں درکار ہیں ابھی تو ہم نے سارے عناصر بھی معلوم نہیں کیے۔ ہم نہیں جانتے کہ حشرات الارض کی کل تعداد کیا ہے ان کے کام کیا کیا ہیں ان میں Life Chainمیں کیا کردار ہے، حیوانات، پرندے، درندے، وائرس اور جراثیم وغیرہ کے متعلق ہم نے گو کہ کافی زیادہ ترقی کی ہے لیکن ہم ان کی بہت کم حقیقت جانتے ہیں۔ ہر سال نئی نئی بیماریاں حملہ کر دیتی ہیں ظاہر ہے یہ نئی قسم کے وائرس یا جاندار مخلوقات ہوتی ہیں۔

جب زمین سے متعلق ہماری جانکاری اور ترقی ء علم کی رفتار یہ ہے تو کائنات پر غور و تدبّر کس مقام پر ہو گا اس کااندازہ خودفرما لیجیے۔

جاری ہے ….

مدیرہ | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ہم جینے کیوں نہیں دیتے؟

بدھ دسمبر 30 , 2020
ہمارا معاشرہ ہندو معاشرے سے بے حد متاثر ہے ذات پات اور اونچ نیچ نے جہاں معاشی تنگی پیدا کی
ہم جینے کیوں نہیں دیتے؟

مزید دلچسپ تحریریں