رابرٹ اٹینگر اور انسانی انجمادیات

رابرٹ اٹینگر اور انسانی انجمادیات

Dubai Naama

رابرٹ اٹینگر اور انسانی انجمادیات

اگر کبھی مرے ہوئے لوگوں کو ٹیکنالوجی کے ذریعے دوبارہ  زندہ کرنے کا دور آیا تو امریکی سائنس دان اور فلاسفر رابرٹ  اٹینگر کو ضرور یاد رکھا جائے گا۔

رابرٹ اٹینگر نے پہلی بار لمبی زندگی کے بارے معلومات سائنس فکشن کی کہانیوں سے 1931ء میں حاصل کیں جو جیمسن نامی مصنف نے ایک میگزین کے لئے لکھی تھیں۔ 1948 میں رابرٹ نے کرائیوجینکس کے بارے “پینٹولٹیمیٹ ٹرمپ” کے عنوان سے ایک تفصیلی مضمون لکھا۔ اسی سال ایون کوپر نے بھی زندگی کے لافانی ہونے کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جس میں اس نے دائمی زندگی حاصل کرنے کے سائنسی طریقوں پر بحث کی اور دسمبر 1963 میں دنیا کی پہلی “زندگی کی توسیع” کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا مقصد پوری دنیا میں دائم زندگی کے حصول کا ایک نیٹ ورک قائم کرنا تھا۔ لیکن اسے اپنے مقصد میں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی، وہ مایوس ہو گیا اور  بدقسمتی سے وہ جلد ہی ایک سمندری سفر میں وفات پا گیا۔ لیکن اس کی یہ جدوجہد رنگ لائی اور اس کی  روح رابرٹ اٹینگر میں حلول کر گئی۔ 1962ء میں پہلی دفعہ رابرٹ نے ہمیشگی زندگی کے امکانات اور طریقوں کے بارے از سرنو “کرائیوجینکس” کی عقلی تشریح پر مبنی ایک کتاب لکھی جسے اس نے 200امیر امریکیوں کو بھیجا۔ 27 جون 1967 کو رابرٹ اٹینگر نے پانچ دیگر لوکل شخصیات سے مل کر “لافانی سوسائٹی” کی بنیاد رکھی جو اس سے پہلے “کرائیوجینکس مشی گن” کے نام سے منسوب کی جاتی تھی۔ یہ ایک خیراتی تنظیم تھی جس کا مقصد کرائیونکس پر تحقیق و تعلیم اور زندگی کو بقا دینے کے طریقوں کی آگاہی فراہم کرنا تھا۔

رابرٹ اٹینگر نے 1976ء میں  کرائیوجینکس  کے ذریعے قانون طور پر مردہ انسانی جسموں کو مائع نائیٹروجن کے ذریعے ایلومینیم کے سلنڈروں میں سالہا سال تک منجمد رکھنے کا طریقہ متعارف کروایا تاکہ وقت آنے پر انہیں بیالوجیکلی طور پر دوبارہ زندہ کیا جا سکے۔ ہمیشہ زندہ رہنا انسان کا قدیم ترین خواب ہے جسے انسانی دماغ میں سب سے پہلے ‘الہامی مذاہب’ نے پیوست کیا تھا۔ اسلام “حیات بعد از موت” اور مردوں کے زندہ کیئے جانے کا سب سے بڑا “داعی” ہے۔ رابرٹ اٹینگر یہودی النسل تھا مگر بعد میں اس نے اپنے اسی خواب کی تعمیر کی خاطر مذہب کو خیرباد کہا اور “لادین” ہو گیا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ شائد مذہب اس کے خواب کی تعبیر حاصل کرنے میں ایک رکاوٹ ہے۔  

رابرٹ اٹینگر اور انسانی انجمادیات
Image by patrick Blaise from Pixabay

آج میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب خون کو جما کر حتی کہ انسانی بیضے کو منجمد کر کے کئی سالوں بعد دوبارہ زندگی لانے کے قابل بنایا جا سکتا ہے یعنی اسے Fertile کیا جا سکتا ہے۔ 2015ء میں چوہے اور خرگوش کے دل اور دماغوں کو کرائیو طریقے سے منجمد کر کے دوبارہ زندہ کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی گئی۔ جبکہ 2018ء میں چینی سائنسدانوں نے دو ماہ قبل پھیپھڑوں کے کینسر سے ہلاک ہو جانے والی ژیان نامی عورت کو “کرائیوجینکس” کے زریعے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی۔ چینی سائنسدانوں اور ڈاکٹروں نے خاتون کو مائع نائٹروجن کے محلول میں منفی 180ڈگری درجہ حرارت پر منجمد کیا تھا۔ اس پروجیکٹ کو ’’لائف پریزرویشن پروجیکٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جس پر ایک امریکی ادارے ’’ایل کور لائف ایکس ٹینشن فائونڈیشن‘‘ نے سرمایہ کاری کی اور تکنیکی معاونت بھی فراہم کی۔ چینی میڈیا سے کی جانے والی گفتگو میں منجمد خاتون ژیان کے شوہر گوئی کا اصرار تھا کہ ان کی بیوی مری نہیں بلکہ وہ سو رہی ہے اور اسے پوری اُمید ہے کہ اس کی بیوی جلد نیند سے بیدار ہو جائے گی! اس واقعہ کو برطانوی جریدے “ڈیلی اسٹار” نے بھی رپورٹ کیا تھا جس کے مطابق اس چینی خاتون کے پُرامید شوہر کا دعویٰ تھا کہ وہ 110% پرامید ہے کہ اس کی بیوی دوبارہ زندہ ہو جائے گی اور اس بار وہ ایسی کیفیت میں حیات پائے گی کہ وہ پہلے سے زیادہ، جوان، خوبصورت اور صحت مند ہو گی۔

رابرٹ اٹینگر کے انسانی انجمادیات کے ذریعے زندہ کئے جانے اور اسلام کے خوبصورت اور جواں سالی کی شکل میں مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے عقیدہ میں از سرنو زندگی حاصل کرنے کے صرف طریقہ کار کا فرق ہے۔ روسی برفانی علاقوں سے ماہرین آثار قدیمہ کو برف میں ڈھکی چند لاکھ سال پرانی انسانی ممیاں ملی ہیں۔ 3500 سال قبل مصری فرعون کی پرانی لاش کو بھی شائد دوبارہ  زندہ ہونے کی امید پر حنوط کیا گیا تھا۔ اب دنیا بھر میں لوگ کرائیو ٹیکنالوجی میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے فروغ کے تین ادارے امریکہ اور ایک ادارہ روس میں ہے۔ جبکہ کنیڈا، انگلینڈ، سپین، انڈیا، جنوبی کوریا اور برازیل وغیرہ میں بھی ان اداروں کے دفاتر ہیں جہاں کرائیو سامان تیار کرنے کی فیکٹریاں بھی قائم کی گئی ہیں۔

رابرٹ ایٹنگر 30سال تک دنیا کو زندگی سے محبت کرنے پر قائل کرتا رہا اور 2011ء میں 92سال کی عمر میں جب وہ مرا تو اسکی وصیت کے مطابق اسکے شاگردوں نے اس کی لاش سے سارا خون نکالا، جسم میں کرائیو مائع بھرا، نائٹروجن کے زریعے اسے منفی 196درجہ حرارت پر منجمد کیا اور اسے اگلے 100 سال کے لئے ایلومینیم کے ایک سلنڈر میں محفوظ کر دیا۔

اس وقت دنیا بھر میں 500مردہ انسانی جسم کرائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے محفوظ کیئے جا چکے ہیں۔ جبکہ 1500 افراد نے خود کو کرائیو پریزرو کروانے کے لئے رقوم جمع کروا رکھی ہیں۔ اس وقت کرائیو امورٹل سوسائٹی Cryo Immortal Society کے دنیا بھر میں 30ہزار سے زیادہ ممبر ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس سوسائٹی کی ممبر شپ لینے کے انتظار میں ہیں۔ کرائیو منجمدیات کو باقاعدہ سائنس اور کاروبار کا درجہ حاصل ہے اور اسے امریکی سٹاک ایکسچینج میں بھی رجسٹر کر لیا گیا ہے۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اپنی دھرتی اپنے لوگ،محمد آصف رشید رحمانی

بدھ ستمبر 27 , 2023
لیاقت پور کے سخن فہم و ادب نواز معروف قانون دان محمد آصف رشید رحمانی ایڈووکیٹ 22 مارچ 1964ء کو لیاقت پور (ضلع رحیم یار خان) میں پیدا ہوئے۔
اپنی دھرتی اپنے لوگ،محمد آصف رشید رحمانی

مزید دلچسپ تحریریں