نامور محقق و مترجم ….سیّد محمد فارو ق القادری

نامور محقق و مترجم ….سیّد محمد فارو ق القادری
تحریر : سعدیہ وحید ( خان پور )
معاون مدیرہ (اعزازی) : مجلہ شعوروادراک /بچے من کے سچے ( خان پور )
نامور عالمِ دین ، محقق ، ادیب وشاعر ، مترجم اور انشاء پرداز علامہ سیّد محمد فاروق القادری رحمتہ اللہ علیہ کی ہمہ جہت شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ چالیس سے زائد کتابوں کے مصنف ، مقرر ، مدبر ، اور دانش وَر ۔ علم و ادب ، تعلیم و تعلم اور راست گوئی کی عمدہ علامت ۔ فخر المحققین ، ذی شان و ذی وقار اور جواہرِ ادب کا منبع ، خطیب ِ دل نواز ، فرزندِ سید سیف الدین شاہ مغفور القادری ‘علامہ سیّد محمد فاروق القادری بلاشبہ ہمارے خطے کے لیے نہایت عمدہ ، معتبر اور قابلِ فخر شخصیت ہیں ۔
نامور ادیب و مترجم سیّد محمد فاروق القادری کے فن و شخصیت کے حوالے سے پہلا خصوصی گوشہ علمی و ادبی مجلہ ’’ شعوروادراک ‘‘ کے شمارہ نمبر ۵ (جنوری تا مارچ ۲۰۲۱ء ) میں شائع کیا گیا ہے ۔ جو یقینا صاحبانِ علم و ادب، محققین اور باذوق قارئین کے لیے ایک عمدہ علمی و ادبی کاوش ہے ۔ خصوصی گو شہ میں سیّد محمدفاروق القادری کی باوقار شخصیت اور علمیت کے جملہ موضوعات پر پاکستان بھر کے عمدہ قلم کاروں کی تخلیقات، یادیں اورباتیں شامل ہیں ۔

farooq qadri


علامہ سیّد محمد فاروق القادری ریاست بہاول پور کے معروف تاریخی قصبہ گڑھی اختیارخان،تحصیل خان پور میں 25 ستمبر 1947ء کو سلسلہ قادریہ سہروردیہ کے معروف بزرگ، جید عالم دین،تحریکِ پاکستان کے نامور رہنما،محقق و مصنف،صوفی شاعر اور بخاری سادات گھرانے کی معروف شخصیت سیّد سیف الدین شاہ مغفورالقادری (1390ھ- 1326 ھ)کے ہاں پیدا ہوئے ۔ گڑھی اختیار خان کے اس معزز و محترم بخاری سادات خاندان میں علم و عمل،فقرو روحانیت اور ملتِ اسلامیہ کی قیادت و سیادت کی روایت سالہا سال سے بطورِ وراثت خاندان میں چلی آرہی تھی۔اس خاندان کے اکابرین اوچ شریف سے سندھ کے علاقے شکار پور میں بغرض اشاعت و ترویج ِاسلام کے لیے رہائش پزیرہوئے۔ سید محمد فاروق القادری ؒ کے پر دادا سیّد جعفرشاہ ؒ جو سلسلہ سہروردیہ کے معروف بزرگ تھے۔ ان کو گڑھی اختیارخان کے عباسی رئیس خاندان نے یہاں سکونت پر رضامندکیا۔ جن کا مزار آج بھی گڑھی اختیارخان میں موجود ہے۔سیّد محمد فاروق القادری ؒ کے دادا سیّد سردار احمد شاہ بانی خانقاہ عالیہ قادریہ شاہ آباد شریف گڑھی اختیارخان نے ابتدائی تعلیم اور دورہ حدیث کی تکمیل مقامی طور پر فرماکر مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ جہاں پر آپ نے مولانا عبدالباقی لکھنوی سے’’فصوص الحکم‘‘ پڑھی اور سات سالہ قیام کے دوران میں کئی عرب شیوخ نے آپ سے درس اکتساب حاصل کیا اور عرب میں شیخ احمد کے نام سے معروف ہوئے۔ برصغیر کے معروف عالم دین مولانا شاہ احمدرضا خان بریلوی کے ساتھ مدینہ منورہ میں سنگت و قربت رہی جو بعد میں خط کتابت کی صورت میں قائم رہی۔ گڑھی اختیارخان میں واپسی کے بعد آپ سیّدسرداراحمد بطرف مغرب ایک فرلانگ کے فاصلہ پر ایک ویرانے میں عبادات اور مراقبہ میں مشغول رہتے۔جہاں پر اکثر نبی اکرم ؐ کی زیارت سے شرف یاب ہوتے۔چنانچہ اسی ویرانے میں موجود جگہ کو آپ نے اپنے مدفن کے لیے پسند فرمایا ،جہاں بعد میں آپ کا ہشت پہلو روضہ مرجع خلائق عام ہے ، وہیں پر آپ نے ایک بار خواب میں ایک چشمہ دیکھا اور ساتھ نبی اکر مؐ کی زیارت بھی ہوئی اور اس جگہ کنوئیں کی تعمیر کا حکم بھی ہواجس کی تکمیل میں سیّد محمد فاروق القادری ؒ نے چشمہ شریف کے نام سے عمارت بنوائی اور وہاں ایک الیکٹرک کولر نصب فرمایا۔ سیّد سردار احمد کا وصال 1350ھ میں ہوا۔ آپ عربی،فارسی،اردو،سندھی اور سرائیکی کے شاعربھی تھے۔سیّد محمد فاروق القادری ؒکے والد سیّد سیف الدین شاہ مغفورالقادری ؒجید عالم دین،محقق و مصنف، صاحب علم و معرفت اور صاحب دیوان شاعر بھی تھے۔ آپ نے اسلام کی ترویج و اشاعت اور قیام ِپاکستان کی منزل کو پانے کے لیے’’احیائے اسلام‘‘ کے نام سے جماعت بنائی اور’’الجماعتہ‘‘کے نام سے اخبار بھی جاری کیا۔شاعرِمشرق علامہ اقبالؒ کی صحبت و عنائیت کا لطف وکرم بھی حاصل کیا۔ سندھ میں تصوف و طریقت کی تاریخ و ارتقا کی عکاس بھی۔ آپ کی تقریباً پندرہ کتب غیر مطبوعہ ہیں۔آپ نے 12 اپریل 1970ء میں وصال فرمایا اور والد کے پہلو میں دفن ہوئے۔ سیّد مغفورالقادریؒ کے وصال کے بعد خانقاہ شاہ آباد شریف کے دوسرے سجادہ آپ کے فرزند محقق العصر سیّد محمد فاروق القادری ؒ بنے اور آج یہ خانقاہ سیّد محمد فاروق القادری ؒکی بدولت ایک شاندارروحانی و علمی مرکزمیں تبدیل ہو گئی ہے۔ جہاں پر دنیا بھر سے سکالرز اورمحققین اپنی علمی تشنگی مٹانے کے لیے آتے ہیں۔سیّد محمد فاروق القادری ؒ نے ابتدائی تعلیم مقامی سطح اور خان پورمیں حاصل کرنے کے بعد(جامعہ عباسیہ)موجودہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پورسے تقریباً 1966–67 ء میں الشہادتہ عالمیہ کے ساتھ ساتھ عربی ادب میں تخصص اور فاضل فارسی کی اسناد حاصل کیں۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے باالترتیب-69-70 1968 ء میں اسلامیات،عربی اور اُردو میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامیات میں گولڈمیڈل بھی حاصل کیا اور آپ ابتدائی جماعتوں سے لیکر ماسٹرز تک کے تمام درجوں میں اوّل پوزیشن کے حامل رہے۔آپ کے اساتذہ میںمولانا شمس الحق افغانی،مولانا احمد سعید کاظمی، حافظ فیض احمد اویسی،مفتی عبدالواحد،مولانا ظفراحمد عثمانی ،سراج الفقہہ سراج احمد مکھن بیلوی، مولانا عبدالرشید نعمانی، ڈاکٹر حافظ احمد یار،پروفیسر خالدعلی ،ڈاکٹرپیر محمد حسن اور علامہ علاالدین صدیقی سابقہ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی جیسی نابغۂ روزگار شخصیات شامل ہیں ۔تعلیم مکمل ہونے کے بعد آپ نے 1971ء میں کچھ عرصہ جناح میموریل کالج لاہور میں بطور لیکچرار درس و تدریس کا پیشہ اختیارکیا۔مگر والد صاحب کے وصال اور خانقاہی اُمور کی انجام دہی کے لیے شاہ آباد شریف واپس تشریف لے آئے اور طالبان علم کے لیے ’’دارالعلم والمعرفتہ‘‘ کے نام سے ادارہ قائم کیا جس کی خوبصورت عمارت میں رہائش کے علاوہ ایک بہت بڑی لائبریری بھی موجود ہے۔آپ کی معروف علمی و ادبی شخصیات، شورش کاشمیری،احسان دانش،مولانامودودی،غلام احمد پرویز،حکیم موسی امرتسری،سیّد احمدسعیدکاظمی،مولاناعبدالستارنیازی،مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا کوثرنیازی سے قربت و خط کتابت رہی ۔
آپ کی چالیس کے قریب کتب اور بیسیوں مقالہ جات اور مضامین شائع ہوچکے ہیں ۔فلسفہ وحدت الوجود پر ابن العربی کے چودہ جلدوں پر مشتمل کتاب فتوحاتِ مکیہ کا پہلی بار اُردو میں پانچ جلدو ںکا ترجمہ آپ نے کیا۔ سیّد محمد فاروق القادری ؒکی بعض کتب انڈیا سے بھی طبع ہوئیں ۔اس کے علاوہ آپ کا مقالہ’’ اسلام کا معاشی نظام ‘‘عالم ِاسلام کی عظیم درسگاہ جامعہ الازھر( مصر ) میں اُردو سے عربی میں ترجمہ کرکے نصاب کا حصہ بنایاگیا ۔آپ کی چند تصانیف و مترجم کتابوں کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
۱۔ انفاس العارفین۔ترجمہ مع مقدمہ۔موضوع سوانح و تصوف ، طباعت۔1974ء ۔لاہور
۲۔ ترجمہ و تحقیق،الطاف القدس،موضوع حقیقت انسان مبطوعہ 1975ء ۔لاہور
۳۔ ترجمہ و تحقیقی مقدمہ’’فتوح الغیب‘‘ از شیخ عبدالقادر جیلانی رح موضوع تصوف، 1974ء
۴۔ فاضل بریلوی اور امورِ بدعت، موضوع عقائد پانچ ایڈیشن پاکستان سے جب کہ یہی
کتاب انڈیا سے بھی شائع ہوچکی ہے ۔
۵۔ ترجمہ، امام عبد اللہ یافعی کی کتاب’’خلاصتہ المفاخر فی مناقب شیخ عبدالقادرؒ ‘‘
۶۔ مکاتیب دیوبند اور بریلی کے خصوصی مسائل کا جائزہ۔مقالہ برائے ایم اے اسلامیات،
جامعہ پنجاب لاہور۔
۷۔ تزکرہ سید محمد حسن شاہ جیلانی۔موضوع تاریخ و سوانح
۸۔ اُردو ترجمہ و پیش لفظ جامع العلوم۔از امام فخرالدین رازی
۹۔ سلیس اردو ترجمہ۔کشف المحبوب سید علی ہجویری بمطابق نسخہ ثمرقندی
۱۰۔ اُردو ترجمہ و تحقیق متن ’’تحفتہ مرسلہ۔شاہ ولی اللہ کی تصوف پر مبنی تین کتابوں
طعات،درثمین اور مکتوبات مدنی کا اردو ترجمہ و تحقیقی مقدمہ مجلد رسائل شاہ ولی اللہ
تصوف کی اعلیٰ کتاب کتاب اللمع از شیخ ابونصرسراج،تحقیقی مقدمہ
۱۱۔ احوال و آثار شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ
۱۲۔ اصل مسئلہ معاشی ہے
۱۳۔ اسلام کا تصور ملکیت
۱۴۔ تحریک پاکستان میں مولانا عبدالحامد بدایونی کیکردار کی ایک جھلک
۱۵۔ ہدیہ مرسلہ۔ترجمہ و تحقیقی پیش لفظ
۱۶۔ علامہ اقبال اور ان کے صاحبزادے آفتاب اقبال از بیگم رشیدہ آفتاب۔پیش لفظ۔
دیگر مقدمات،پیش لفظ اور مضامین و مقالاجات کا مختصرمضمون میں ذکر ممکن نہیں۔
سیّد محمد فاروق القادری ؒ کی شادی شیخ چہارم خانقاہ عالیہ قادریہ بھرچونڈی شریف پیر عبدالرحیم شہید کے دختر سے ہوئی ۔آپ کے تین صاحبزادے(۱)پیر سیّد علی رضا شاہ(۲)سیّد صبغت اللہ سہروردی اور (۳) سیّد رشداللہ جعفر شاہ آپ کے فکر و فقر کے وارث ہیں ۔
حوالہ جات:
۱۔ وکی پیڈیا ۔
۲۔ اصل مسئلہ معاشی ہے ، سیّد محمد فاروق القادری ،پروگریسو بکس لاہور ۔2013ء
۳۔یادوں کے خواب ، سیّد صبغت اللہ سہروردی ، ادارہ پاکستان شناسی لاہور ۔ 2019ء
۴۔ بزمِ اہلِ دل ( سوانح حیات ) ، سیّد صبغت اللہ سہروردی ، پر و گریسو بکس لاہور ۔ 2017ء
۵۔ خان پور کا اَدب ۔ از: محمد یوسف وحید ۔ الوحید ادبی اکیڈمی خان پور ۔ 2021ء
٭٭٭

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

وکھرے چور

ہفتہ دسمبر 4 , 2021
بابا خیرا ساری دہاڑی نا تھکا ویا ایہا ،ڈنگر چراونڑیں توں بعد اُس بہوں سارے ڈِھنگر اکھٹے کیتن تے سانگلاں تے چاڑس ۔
bultarian dog

مزید دلچسپ تحریریں