آنحضورﷺ سے پل صراط کے متعلق استفسار کیا گیا تو آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ “ارق من الشعر حرا من النار احد من السیف” یعنی یہ پل صراط بال سے زیادہ باریک آگ سے زیادہ گرم اور تلوار کی تیز دھار سے زیادہ تیز ہے۔
اور اس سے گزرنے کے لیے محبِ علیؑ بننا پڑے گا اور شیعان علیؑ میں تب ہی بندہ داخل ہو سکتا ہے جب دل و نگاہ سے آپ سے محبت کرے اور آپ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کی کوشش کرے۔مولا علیؑ پلِ صراط سے گزرنے کے لیے ایک رسید یا سند عطا فرمائیں گے جس کے پاس وہ سند ہوگی وہ نہ کٹے گا نہ جلے گا اور نہ جہنم کی آگ میں گرے گا۔
شیعہ سنی دونوں بھائیوں نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔
صواعق محرقہ میں درج ہے کہ
لا یجوز احد الصراط الا من کتب لہ علی الجواز o
“کوئی شخص پلِ صراط سے پار جنت میں نہیں جا سکتا جب تک علیؑ لکھ کر نہ دیں۔”
گویا جنت میں جانے کے لیے پل صراط پر مولا علیؑ سے رسید لینا پڑے گی۔ اور آپ وہ رسید اسی کو دیں گے جس نے آپ کے فرامین کو مان کر صحیح مومن بننے کا عملی مظاہرہ کیا ہو گا آپ نے ارشاد فرمایا۔
“کہ مومن کو چاہیے ۔ کہ دن رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرے۔ ایک وقت میں اپنے پروردگار سے مناجات کرے دوسرے وقت میں اپنی معاش کی تلاش کرے اور تیسرے وقت میں حلال اور نیک لذتوں سے فائدہ اٹھائے۔”
اب مولا علیؑ کے اس فرمان کے مطابق عبادت کا ایک حصہ بتایا گیا ہے۔ اب جو لوگ آپ کے اس فرمان پر عمل نہیں کریں گے ان کے بارے میں ذرا سوچئے کہ کیا مولا علیؑ ان سے راضی ہوں گے۔ اور آیا یہ کہ ان کو پل صراط سے گزرنے کے لیے رسید دیں گے۔
میرا جواب تو نفی میں ہے۔ کیونکہ آپ اُس شخص کی شفاعت کر کے سند سے نوازیں گے جو آپ کے بتائے ہوئے درخشاں فرامین پر عمل کرتا رہا ہو گا ۔
شب بیداری ایک ایسے معطر جھونکے کی مانند ہے جسکی خوشبو فرشتے بھی محسوس کرتے ہیں ۔ شب بیداری کرنے والا انسان لذت عبادت سے سر شار ہو کر دنیا و آخرت میں ایسے سرخرو ہوتا ہے۔ کہ اس کے مقام پر فرشتے رشک کرتے ہیں۔ کیونکہ کائنات کی ہر شے جب حالت سکوت اور خامشی کی کیفیت میں ہوتی ہے۔ تو اس وقت اللہ کا ذکر دلوں کو سکون بخشتا ہے۔ کیونکہ مکمل تنہائی اور سناٹے کے عالم میں تہجد گزار جب سبحان ربی اللہ العظیم وبحمدہ کا ورد حالت رکوع میں کرتا ہے تو عجیب کیف محسوس کرتا ہے۔ اور اللہ رب العزت کی بڑائی اور عظمت اس کے دل میں عاجزی و فروتنی کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔ رکوع میں اللہ کو عظیم کہنے کے بعد جب انسان قیام کی حالت میں سمع اللہ لمن حمدہ کا ورد کرتا ہے تو دل کی گہرائیوں سے کہ رہا ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی ہر حمد کرنے والے کی حمد سنتا ہے۔
اور چونکہ اللہ سمیع و بصیر ہے۔ اسی لیے مجھ جیسے گناہ گار کے لبوں کی جنبش میں اپنی ثنا ضرور سن رہا ہوتا ہے۔ اور سجدہ جو کہ بندگی سے مقامِ عرفان تک لے جاتا ہے اُس میں جس وقت انسان اپنی جبین زمین پر رکھ دیتا ہے تو نماز شب کا یہ لمحہ انسان کے گھمنڈ اور تکبر کو مٹا کر اسے بندگی کا بہترین نمونہ بنا دیتا ہے۔ کیونکہ جب اس کے لبوں پر سبحان ربی الا علی و بحمدہ کا ورد ہوتا ہے تو اس کے دماغ میں قرآن مجید کے یہ الفاظ کہ ہم نے انسان کو ایک گندے نطفے سے پیدا کیا ہے ۔ اس کے تکبر کو مٹا کر اس کو خالق کائنات کے پاک اور بلند و برتر و اعلٰی ہونے کا درس دے رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سبحان ربی الاعلٰی کا معنی کیا ہے۔ یعنی اللہ کی ذات پاک ہے بہت اعلی ہے۔ اور وبحمدہ کہہ کر اس چیز کا اظہار کرتا ہے کہ یا اللہ میں کمترین بندہ،حقیر بندہ،فقیر بندہ،اور مسکین بندہ تیری حمد بیان کرتا ہوں ۔
نماز شب سے علم و آگہی کے درخشاں موتی حاصل ہوتے ہیں جو انسان کو بلندی اور عظمت عطا کرکے اللہ کے قریب کر دیتے ہیں۔ اسی لیے آئمہ معصومین نے نماز شب کے متعلق بہت زیادہ زور دیا ہے۔ اور اپنے مومنین کرام کو نماز شب کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے۔
حضرت امام جعفر صادقؑ ارشاد فرماتے ہیں۔
“مومن کا شرف شب بیداری اور عزت لوگوں سے بے نیازی میں ہے”۔
سیّد حبدار قائم
کتاب ‘ نماز شب ‘ کی سلسلہ وار اشاعت
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔