حضرت امام زین العابدینؑ کا تقوٰی

سورہ النازعات کی آیت نمبر 40,41میں ارشاد باری تعالی ہے۔ 

واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی o فان الجنة ھی الماوی o

وہ اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا ہوگا۔اور نفس کی خواہشات  کو روکا ہوگا تو اس کا ٹھکانہ بہشت ہے۔

اللہ تعالٰی سے ڈرنے کا درس کربلا والوں سے ملتا ہے اور کربلا والے ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ایک راوی سے روایت ہے کہ جب امام زین العابدینؑ نماز کے لیے وضو کرتے تھے۔ تو آپ کے سارے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی تھی۔ اور آپ کی مبارک آنکھوں میں اشکوں کی روانی سے آپ کی داڑھی مبارک تر ہو جاتی تھی۔ جب اس کے متعلق اُن سے استفسار کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب میں وضو کرتا ہوں تو میرے ذہن میں بس ایک ہی سوال ہوتا ہے۔ کہ اب میں اللہ کے ساتھ ہمکلام ہونے والا ہوں  ۔ اور کہاں وہ اعلٰی و ارفع ذات اور کہاں میں!

جی ہاں! یہی تقوٰی کا معیار ہے امام سجادؑ ساری ساری رات عبادت میں صرف کرتے تھے اور اللہ رب العزت کی عظیم بارگاہ میں پاک و معطر اشکوں کے نذرانے نچھاور فرماتے۔

حضرت امام زین العابدینؑ کا تقوٰی

آپ اپنے مومنین کو بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ترغیب دیتے۔ عظیم تر تقوٰی اور خوفِ الٰہی کی بدولت عبادت الٰہی کی حقیقی روح آپ کے دل و دماغ میں رچ بس گئی تھی۔ آپ ہر وقت اللہ کی تعریف و توصیف، مدح و ستائش میں مصروف رہتے اور نماز شب میں خالق و مالکِ کائنات کی پاکی اور تسبیح بیان فرماتے اور محبت و عقیدت اور نیاز مندی کا اظہار راتوں کو سجدہ ریز ہوکر فرماتے۔ اور یہ سب کچھ موجودہ دور کے بے عمل مسلمان کے لیے مشعل راہ ہے۔ کیونکہ اللہ سے محبت عجز و انکساری کی روش انسان  کو عظیم تر بنادیتی ہے۔ اور اللہ سے محبت تو مومنین کا خاصہ ہے۔

والذین امنو آ اشد حبا للہ۔

اور مومنین تو اللہ سے ہی قوی محبت رکھتے ہیں۔

لطف کی بات یہ ہے کہ یہی مومنین محبت کی معراج پاکر عظیم تر ہو جاتے ہیں اور ان کی محبت رضائے الٰہی کا باعث بنتی ہے۔

ان کا ہر عمل خوشنودی باری تعالٰی کے لیے ہوتا ہے۔ اور ان کی آنکھیں کان ہاتھ اور پاوں ہر اس جگہ جاتے ہیں۔ جہاں انہیں ذکرِ الٰہی اور عبادت الٰہی کی تابانی ملے۔ یہی لوگ شیطان ملعون کے شر سے بھی بچتے ہیں۔ اور عمل صالح بجا لاتے ہیں۔ ان کا بڑھنے والا ہر قدم شر اور خیر کی تمیز کرکے اٹھتا ہے۔ 

بقول شاعر:۔

نہ کی جنوں میں بھی توہین آبلہ پائی

وہاں پہ رک گئے،کانٹے ہمیں جہاں نہ ملے

مومن جب شر سے بچ کر خیر کی طرف بڑھتا ہے تو خدا وند عالم اسے عبادات میں محو رہنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ اور اس کی عجز و انکساری میں اضافہ کر دیتا ہے اور یہ شخص نماز شب کی لذت اور شب بیداری میں آہوں کی مالا پروکر مغفرت کے ہار بُنتا ہے۔ جو کہ جنت الفردوس میں اسکی کامیابی کی ضمانت بنیں گے۔ اور آنحضور اور آپکی طاہر اہلبیت اسکے شفاعت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ اور فرمائیں گے کہ یا اللہ اسے بخش دے اور انعام و اکرام  سے نواز کیونکہ اس نے نماز شب پڑھ کر ہمارے اسوہ حسنہ کو زندہ کیا ہے۔

مومن جب نماز شب خشوع و خضوع سے بجا لاتا ہے تو اسکی شخصیت نکھر جاتی ہے۔ اور اللہ کے رنگ میں رنگی جاتی ہے۔ اسی پاکیزہ عمل کی وجہ سے اس کی ترجیحات ،معمولات اور پسند و ناپسند خوشنودی رب العزت کے حوالے سے ترغیب پاکر معراج بندگی پر فائز ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کے لیے موت تحفہ ثابت ہوتی ہے۔ اور جن کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں کیونکہ نماز شب  میں اس شخص نے اپنے آپ کو اللہ کے رنگ میں رنگا ہوتا ہے۔

سورہ البقرہ کی آیت نمبر 138  میں ارشاد ہے۔

صبغة اللہ o ومن احسن من اللہ صبغة o

یعنی اللہ کارنگ اختیار کرو اور اللہ کے رنگ سے بہتر اور کس کا رنگ ہوگا۔

اللہ کے رنگ میں رنگے جانے سے مراد یہ ہے کہ اللہ رحیم ہے تو انسان بھی دوسروں پر رحم کرے اللہ اگر رازق ہے تو انسان بھی صاحب حیثیت ہو تو غریبوں میں رزق بانٹے اللہ اگر سخی ہے تو انسان بھی اپنے آپ کو اللہ کے رنگ میں رنگے اور سخاوت کرے۔ اللہ اگر پاک ہے تو انسان بھی نجاستوں کو پاس نہ بھٹکنے دے اور زبان و لباس کو پاک صاف رکھے۔ یعنی اللہ کی صفات کو اپنائے اور زمین پر خلیفہ بننے کے لائق بن جائے۔ اللہ کی ذات میں اپنے آپ کو فنا کر کے بقا حاصل کرے اور اللہ سے دن رات محو کلام ہونے کا شرف حاصل کرے۔ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے صرف اسی کے لیے اپنی سانسوں کو وقف کرے۔ 

اللہ اللہ کی صدا ،اذکار، اوراد کی زبان و دل میں گرمی  محاسبے مراقبے اور مکاشفے کی ضیا انسان کو معرفت کا نور اور قلب و جگر کو وجد اور سرور عطا کرتی ہے۔

آنحضور نے اللہ کے رنگ میں اپنے آپ کو ایسا رنگا کہ قرآن آپ کا اخلاق حسنہ بنا اسی لیے آپ کے اخلاق میں نوخیز کلیوں کی نرمی حسن اور مہک تھی۔ اور آپ کے تبسم میں دلآویز معصومیت تھی اور آپ کے طاہر جسم میں عنبر کی سی مہک رچی ہوئی تھی۔ اللہ تعالٰی سے محبت اور لو لگانے کے لیے کئی طریقے ہیں ۔ وہ تو فرماتا ہے۔

ادعو اربکم تضر عا و خفیة o

پکار  اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور آہستہ۔

اور جب انسان دن کی روشنی اور رات کی تاریکی ،ابر کی دھمک میں اور زندگی کی مہک میں ،خلوت میں یا جلوت میں اسکو پکارتا ہے گڑگڑا کر یا آہستہ تو وہ رب  جسے نہ نیند آتی ہے اور نہ اونگھ ،پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہے ۔ اسی لیے تو اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے۔

اجیب دعوة الداع اذا دعان فلیستجیبو الی o

میں پہنچتا ہوں پکارنے والے کی پکار کو جس وقت مجھے پکارتا ہے پس ان کو چاہیے کہ میری بات مانیں۔

ضرورت ہے تو اس امر کی کہ اسوہ رسولؐ اور اسوہ اہلبیت عظامؑ  پر عمل کیا جائے اور نماز شب زندگی بھر رات کی ساعتوں میں ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔

hubdar qaim

سیّد حبدار قائم

کتاب ” نماز شب ‘ کی سلسلہ وار اشاعت

مستقل لکھاری | تحریریں

میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

شمالی علاقہ جات کی سیاحت 1

جمعہ جولائی 8 , 2022
میں جو مشینی زندگی اور لوڈ شیڈنگ کے عزاب سے پہلے ہی تنگ فنگ بیٹھا تھا سوچا چلو پرانے دوستوں سے محفل بھی رہے گی اور ذرا ہم بھی ٹھنڈی ہوائوں کا مزہ لے لیں گے
شمالی علاقہ جات کی سیاحت 1

مزید دلچسپ تحریریں