سال نو کا فورٹ بلنڈر

سال نو کا فورٹ بلنڈر

Dubai Naama

امریکہ اور کینیڈا کی سرحد پر ایک قلعہ ہے جو “فورٹ بلنڈر” کے نام سے مشہور ہے۔ اس قلعہ کی وجہ شہرت ایک بہت دلچسپ واقعہ ہے جو ان لوگوں کے لیئے انتہائی سبق آموز ہے جو سال بھر غلطیاں تو کرتے ہیں مگر نیا سال شروع ہونے پر ان سے کبھی عبرت نہیں پکڑتے ہیں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ سنہ 1812ء میں امریکہ اور کینیڈا کے درمیان جنگ کے دوران امریکیوں کو احساس ہوا کہ انہیں کینیڈا کے ساتھ اپنے بارڈر پر سرحدی دفاعی انتظامات کو مضبوط اور موثر بنانا چایئے۔ چنانچہ 1816ء میں امریکہ نے نیویارک اور قوبیک (کینیڈا) کی سرحد پر ایک مضبوط عسکری قلعے کی تعمیر کا کام شروع کیا۔ اس قلعے کی تعمیر پر بھاری سرمایہ، 2 سال کا طویل عرصہ، ہزاروں مزدوروں، کاریگروں اور عسکری ماہرین کی خدمات صَرف ہوئیں۔ 1818ء میں جب اس قلعے کی تعمیر مکمل ہوئی تو امریکیوں پر انکشاف ہوا کہ انہوں نے غلطی سے یہ قلعہ کینیڈا کی حدود کے اندر تعمیر کر ڈالا ہے۔

امریکیوں نے اپنی اس سریع غلطی کو تسلیم کیا، اس قلعے کا نام “فورٹ بلنڈر” رکھا اور وہ اسے چھوڑ کر واپس امریکہ چلے گئے۔

ہماری زندگی بھی کچھ ایسی ہی بڑی غلطیوں سے عبارت ہوتی ہے جس میں ہماری کامیابی کا تناسب ان غلطیوں سے سبق حاصل کرنے پر منحصر ہوتا ہے۔ سہوا غلطی ہو جانا کوئی بری بات نہیں۔ کہاوت ہے کہ “انسان غلطی کا پتلا ہے” جبکہ تجربہ اپنی ماضی کی غلطیوں کو “کیش بیک” کرنے کا نام ہے۔ انسان غلطی نہ کرے تو اسے تجربہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ سال بھر ہم کام کاج کے دوران غلطیاں کرتے ہیں اور ہمیں تجربہ بھی حاصل ہوتا ہے مگر یہ بہت کم دیکھا گیا ہے کہ ہم غلطیوں سے حاصل کیئے گئے اس تجربہ سے فائدہ اٹھا سکیں۔

عقل مند انسان وہ ہے جو اپنی غلطیوں کی بجائے دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھتا ہے۔ غلطی کر کے اس کو دہرانا خود کشی کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ جو باشعور ہوتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک غلطی سے انسان کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے یا صرف ایک معمولی غلطی انسان کو زندگی میں کتنا پیچھے لے جاتی ہے یعنی غلطی بھی ایک ایسا ناقص قدم ہے جو اتفاقا یا عمدا اٹھتا ہے تو اس سے انسان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ چند سالوں کی بات ہے کہ انگلینڈ سے جہلم میں ایک فیملی پاکستان میں سال نو کی خوشیاں منانے آئی ہوئی تھی جن کا ایک چودہ سالہ بچہ چھت پر پتنگ بازی کر رہا تھا کہ جونہی اس نے غلطی سے ایک قدم پیچھے کی طرف اٹھایا تو وہ چھت سے نیچے جا گرا جس سے اس کی جان چلی گئی۔ ہماری زندگی میں بھی ایسے بے شمار مواقع آتے ہیں جب ہم کوئی غلط قدم اٹھاتے ہیں تو ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے یا ہماری جان تک چلی جاتی ہے۔ ہمیں چایئے کہ ہم زندگی میں جو بھی کام کریں وہ سوچ سمجھ کر کریں جس میں غلطی اور نقصان پہنچنے کا کوئی امکان نہ ہوئی۔ انسان اچھے فیصلے کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر بعض دفعہ اس کے نتائج غلط نکلتے ہیں۔ انسان کو کام نیک نیت سے کوشش کرنی چایئے اور نتائج اللہ پر چھوڑ دینے چایئے۔ اس لیئے دسمبر کے بعد جب نیا سال چڑھتا ہے تو ہم سب نئے سال کے عہد کرتے ہیں اور منصوبے بناتے ہیں کہ ہم نے نئے سال میں کیا کیا کرنا ہے مگر ہم میں سے بہت کم لوگ ہیں جو ان غلطیوں کا بھی شمار کرتے ہیں جو انہوں نے گزرے سال میں کی ہوتی ہیں۔

سال نو کا فورٹ بلنڈر
By Mfwills -فورٹ بلنڈر

سال نو کے موقع پر ہر سال ہماری زندگی سے ایک سال کم ہو جاتا ہے مگر ہم اس پر خوشی مناتے ہیں جس کا جواز صرف یہ ہوتا ہے کہ چلو ہماری زندگی میں ایک اور نئے سال کا آغاز ہو گیا ہے۔ ہم نئے سال کے نئے منصوبے ضرور بنائیں مگر ان میں ایسی غلطیوں کو بھی شامل کریں جو “فورٹ بلنڈر” کی حیثیت رکھتی ہیں، جن کو کرنے میں ہم اپنا وقت اور توانائیاں صرف کرتے ہیں مگر بعد میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم “غلطی” پر تھے۔ غلطی بھی ایک جدوجہد ہی ہوتی ہے جس کے نتائج آپ کے حق میں نہیں نکلتے کریں۔ لھذا زندگی میں واپس پلٹنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو یاد رکھیں تاکہ انہیں دہرانے کا دوبارہ موقع نہ آئے۔

اس سال کی آخری رات اور سال نو کے پہلے دن ایک لسٹ بنا لیں کہ گزشتہ سال کیا کھویا، کیا پایا، اور جو نہیں پایا اس میں کہاں کوئی بڑا بلنڈر مارا تھا؟ زندگی خدا کا خوبصورت عطیہ ہے اسے غلطیوں کی نظر کر کے ضائع نہیں کرنا چایئے بلکہ غلطیوں سے زیادہ سے زیادہ بچ کر اس میں مزید خوبصورتی بھرنی چایئے۔ اگر کچھ غلطیاں ہو بھی جائیں تو ان کو کوور کرنے کی کوشش کرنی چایئے، انہیں یاد رکھنا چایئے اور ان سے امریکیوں کی طرح سبق سیکھنا چایئے تاآنکہ وہ “بلنڈر” نہ بن سکیں۔ اس دعا اور نیک تمناو’ں کے ساتھ کہ اللہ پاک آپکو اس سال نئ کامیابیوں، خوشیوں اور لمبی عمر سے نوازے، سال نو کی ڈھیروں خوشیاں مبارک ہوں:

حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے،
اس سے میرا مہہ خورشید جمال اچھا ہے۔

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا،
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے۔

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق،
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے۔

دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض،
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

کامیابی کا راز

ہفتہ دسمبر 30 , 2023
اس افرا تفری کے دور میں ہر شخص کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح کامیاب ہو جائے ۔ کامیابی کو حاصل کرنے کے لیے
کامیابی کا راز

مزید دلچسپ تحریریں