مقبول ذکی مقبول بطور انٹرویو نگار

مقبول ذکی مقبول بطور انٹرویو نگار


تحریر
محمد ثقلین کانجن ، بھکر

مقبول ذکی مقبول سے میرا تعلق پرانا ہے۔ یہ 2012ء کی بات ہے۔ میں آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ تب میں نے ایک مضمون قلمبند کیا تھا۔ چونکہ میرے والد محترم اور مقبول ذکی صاحب ایک ہی جگہ ملازمت کرتے تھے۔ تو پہلی فرصت میں وہ مضمون میں نے مقبول ذکی مقبول کو دیکھایا۔ جس پر آپ نے میری کاوش کو سراہا اور میری توجہ مطالعہ کی طرف بھی مبذول کرائی۔ جہاں سے ہمارا ایک تعلق بن گیا۔ مقبول ذکی مجھے کتابیں، رسائل و جرائد پڑھنے کےلئے دیتے۔ یوں میں ادب کی دنیا سے روشناس ہوا اور ادب کے ایک ادنیٰ کے قاری کے طور پر آج تک ادب سے تعلق جڑا ہوا ہے۔

یہ واقعہ مقبول ذکی مقبول کی ادب دوستی اور ادب نوازی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ مقبول ذکی سیماب صفت شاعر و ادیب ہیں۔ مگر ملنے والوں سے ہمیشہ مسکراہٹ اور خندہ پیشانی سے ملتے ہیں۔ مجھے کئی بار ان کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ محدود وسائل کے باوجود ان کے دستر خوان کو وسیع پایا اور ان کے ہاں ادب پرستوں کی ایک محفلوں کو آباد دیکھا۔ دوستوں کو تحفے میں کتب بھیجنا ان کا گویا مشغلہ ہے۔ احباب کے ساتھ رابطے میں رہنا، ان کے حال و احوال سے واقف رہنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ سب کچھ موجودہ دور میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ مقبول ذکی مقبول ایک سادہ انسان ہیں۔ محدود وسائل کے باوجود ادب کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ وہ مسلسل سفر میں رہتے ہیں۔ گویا ویگابانڈ vagabond ہوں۔ وہ اپنے کام کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ادباء و شعراء کرام کے پاس جا کر ان سے علمی و ادبی گفتگو کرنا، دوستوں کو مختلف کتب سے متعارف کروانا اور ادیب دوستوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اس عہد میں جہاں پیٹ کی آگ بجھانا مشکل سا ہو گیا ہے۔ وہاں اس عظیم جذبے و ہمت کے ساتھ اپنے کام سے اس قدر لگاؤ مقبول ذکی ایسا شخص ہی رکھ سکتا ہے۔ آپ نے اپنے شہر منکیرہ سے کئی کلومیٹر دور صحرائے تھل کے راہگزار میں جاب کے سلسلے میں رہتے ہوئے بھی ادب سے تعلق نہ صرف جوڑے رکھا۔ بلکہ کئی نوجوانوں کو ادب اور کتاب دوستی کی طرف لے کر ائے۔ آپ جہاں بھی رہتے ہیں اپنے گرد ادب پسند لوگوں کی محفل جمائے رہتے ہیں۔

“سجدہ” سے مقبول ذکی مقبول نے اپنا پہلا ادبی پڑاؤ ڈالا۔ جو سرائیکی شاعری پر مشتمل مجموعہ کلام ہے۔ جس کو ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی۔شاعری میں مقبول نے روایتی رومانوی،مزاحمتی،ملامتی اور طربیہ شاعری سے کوسوں دور اپنے دل کے نہاں خانوں میں مودت آل رسول کو بسایا۔اور آپنے تخیل کو درود و سلام نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور حمد الہی کی صورت میں اظہار کا ذریعہ بنایا۔ مقبول ذکی نے استاذالشعراء نذیر ڈھالہ خیلوی سے شاعری میں اصلاح لی۔ جنھوں نے مقبول کی فنی صلاحیتوں کو جانچا اور کمال محنت اور شفقت سے قدم بقدم سرپرستی کی جس وجہ سے یہ ادبی سفر مزید آسان اور تیز ہو گیا ۔اس سفر کا دوسرا پڑاؤ “منتہائے فکر” تھا۔ جو اردو شاعری کا مجموعہ ہے۔ شاعری مقبول ذکی مقبول کا پہلا عشق ہے۔ اب وہ نثر میں بھی اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔ انھوں نے مختصر وقت میں انٹرویو نگاری میں اپنی الگ پہچان بنائی ہے۔
اردو ادب میں انٹرویو نگاری بھی دیگر اصناف کی طرح مغرب سے آئی ہے۔ تاہم مغربی ادب کی نسبت اردو ادب میں انٹرویو نگاری کا آغاز تاخیر سے ہوا۔ بہت سے نقاد نریش کمار شادؔ کو اردو ادب کا پہلا انٹرویو نگار گردانتے ہیں۔ حالانکہ بعض کے نزدیک ان کے انٹرویوز میں انٹرویو کی جملہ خصوصیات نہیں پائی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود ان کے تصوراتی انٹرویوز جو غالبؔ ، جوش ملیح آبادی اور فکر تونسوی سے متعلق ہیں۔ وہ ادب میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ اردو انٹرویو نگاری کے میدان میں جو نام ابھرے ان میں حسنؔ رضوی ، سلامت علی مہدی ، علی حیدر ملکؔ ، انور سدید ، ندا فاضلی ؔ ،فیاض رفعت ؔ ، شاہد صدیقی ، طاہر مسعود،حیدر قریشی ،مناظر عاشق ہرگانوی ،،محمد خالد عبادی،جمیل اختر، عبدالباری اور خالد سہیل نمایاں ہیں۔

مقبول ذکی مقبول بطور انٹرویو نگار

بھکر جسے تھل کے لکھنؤ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہاں سے مقبول ذکی مقبول کی صورت میں ایک انٹرویو نگار ابھرا ہے۔ مقبول ذکی تھل دھرتی کا روشن چہرہ ہیں۔ ان کی حالیہ انٹرویوز پر مشتمل کتاب، “روشن چہرے” پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ وہ کتاب جسے ہر پڑھنے والا جوابات میں دلچسپی لیتے ہوئے پڑھے گا۔ مگر درحقیقت یہ مقبول ذکی مقبول کے سوالوں کی کتاب ہے۔ سوال جو انسان کی اولین اور اہم ترین ایجاد ہے، فسلفہ، سائنس،ٹیکنالوجی، تاریخ، آرٹ، ادب سب کے غنچے اسی شاخ پر پھوٹے ہیں۔ ‘روشن چہرے’ پڑھ کر کوئی بھی آسانی سے انٹرویو نگار کی ادبی و تنقیدی پرکھ کو جانچ سکتا ہے۔ یہ کتاب مقبول ذکی کو بطور انٹرویو نگار ہمارے سامنے لاتی ہے۔ ان کا متفرق ادباء و شعراء سے مکالمہ اور سوالات ان کی ادب سے گہری وابستگی کو عیاں کرتے ہیں۔
مقبول ذکی نے کم وقت میں سرائیکی اور اردو ادب میں اپنی شناخت قائم کی ہے۔ آپ کی کتاب “روشن چہرے” مختلف ادبی شخصیات کے انٹر ویوز کا مجموعہ ہے ۔تمام انٹرویوز یوں کہہ لیں کسی بھی شخصیت کی سوانح حیات گردانے جا سکتے ہیں۔ یہ کاوش کسی تشنہ محقق کے لیے نایاب تحفے سے کم نہیں ۔ یہ کتاب ان کی انٹرویوز پر مشتمل دوسری کتاب ہے۔ اس سے قبل “سنہرے لوگ” بھی منظر عام پر آ چکی ہے۔ اور اہل ادب سے داد وصول کر چکی ہے۔ مقبول ذکی کی متحرک شخصیت نے انہیں ادبی دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے میں مدد دی ہے۔ مقبول ذکی نے شاعری و نثر دونوں میدان میں اپنے کام کی بدولت اپنی منفرد پہنچان رکھتے ہیں۔ “روشن چہرے” کی صورت آپ کی ادبی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں آپکو کئی اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ دعا گُو ہوں آپکی قلم سے تخلیق ہوۓ نایاب گُہر یوں ہی قارئینِ علم و ادب سے شغف رکھنے والوں کے لیے مشعل راہ بنیں ۔
***

محمد ثقلین کانجن

بھکر

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سال نو کا فورٹ بلنڈر

ہفتہ دسمبر 30 , 2023
امریکہ اور کینیڈا کی سرحد پر ایک قلعہ ہے جو “فورٹ بلنڈر” کے نام سے مشہور ہے۔ اس قلعہ کی وجہ شہرت ایک بہت دلچسپ
سال نو کا فورٹ بلنڈر

مزید دلچسپ تحریریں