میری جنس میری مرضی، یا LGBT کا عارضہ؟

میری جنس میری مرضی، یا LGBT کا عارضہ؟

Dubai Naama

میری جنس میری مرضی، یا LGBT کا عارضہ؟

جب لندن میں تھا تو سنہ 2001ء میں ایک معاصر اخبار میں “نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے” کے عنوان سے ایک فیچر لکھا تھا جو انگلینڈ میں مقیم برٹش پاکستانیوں کی ریزہ ریزہ اسلامی اقدار کے گرد گھومتا تھا۔ اس وقت احقر نے درجن بھر پاکستانی فیملیوں کے انٹرویوز کیئے جو اپنی اولادوں کی آزاد خیالی، شراب نوشی اور ہم جنس پرستی وغیرہ جیسی بری عادات کے ہاتھوں تنگ تھے۔ اس دوران میری ملاقات وسطی پنجاب کے ایک ایکس نامی شخص سے ہوئی تھی جنہیں ایک بار میں نے ایک ڈیپارٹمینٹل سٹور سے بیئر کے ڈبے خریدتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ انتہائی نیک دل اور بھلے مانس انسان دکھائی دیتے تھے مگر ان کے چہرے سے کچھ رنجیدگی سی ٹپک رہی تھی۔ میری ان سے دوسری ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا، “بابا جی آپ ایک شریف النفس انسان ہیں مگر آپ کو یہ پینے پلانے کی عادت کیسے پڑی؟” میرے سوال پر بابا جی کچھ مزید غم زدہ ہو گئے تھے اور انہوں نے بتایا تھا کہ وہ غم غلط کرنے کے لیئے مجبورا پیتے تھے، ان کے پاس سب کچھ تھا، بنک بیلنس تھا، گاڑیاں تھیں اور جائیدادیں تھیں مگر ان کی اولاد ان کی ہونے کے باوجود ان کی نہیں رہی تھی۔

امریکہ کنیڈا، آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک کی طرف ہجرت کرنے والے کٹر مسلم معاشروں کو اب ایک اور شدید مسئلہ درپیش ہے جس کی وجہ سے بہت سی مسلم فیملیاں ان ممالک کو چھوڑ کر وطن واپس لوٹ رہی ہیں یا وہ متحدہ عرب امارات (دبئی)، قطر اور ملائشیا وغیرہ میں منتقل ہو رہی ہیں جس کی بنیادی وجہ ایل جی بی ٹی کی نفسیاتی بیماری ہے۔ انگلینڈ میں ایک قانون کے تحت اب ایل جی بی ٹی کی تعلیم چار سال اور اس سے زیادہ عمر کے بچوں کے لیئے لازمی قرار دے دی گئی ہے اور جو بچے یہ تعلیم حاصل نہیں کریں گے انہیں سکولوں میں داخلہ نہیں دیا جائے گا۔ یہ تعلیم اختیاری (Optional) نہیں بلکہ لازمی (Compulsory) ہے۔ انگلینڈ میں مقیم مذہبی خاندانوں نے اس قانون کے خلاف کافی شور مچایا اور احتجاج بھی کیا جس میں الہامی مذاہب پر یقین رکھنے والے یہودی، عیسائی اور مسلمان بھی شامل تھے مگر حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اب انگلینڈ میں مذہب پر یقین رکھنے والے معاشروں کے لیئے مشکل یہ ہے کہ یا تو وہ اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم کریں اور یا پھر وہ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کے لئے اپنے بچوں کو ایل جی بی ٹی کی تعلیم حاصل کرنے سے نہ روکیں۔

یہ تعلیم جسے عرف عام میں ایل جی بی ٹی (LGBT) کہا جاتا ہے Lesbian, Gay, Bisexual اور Transgender کا مخفف ہے جو دنیا بھر میں ان افراد کو چھتری فراہم کرتی ہے جس کے تحت وہ اپنی مرضی کی جنس کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں اور دوسرے عام انسانوں کی طرح اپنے حقوق کا تحفظ کر سکتے ہیں جس کا دوسرے لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ آپ مرد ہیں یا عورت ہیں آپ اپنی جنس کو آپریشن کے ذریعے تبدیل کر کے جس جنس کی چاہیں مرد (Male) یا عورت (Female) کی زندگی انجوائے کر سکتے ہیں حتی کہ کہا یہ جا رہا ہے کہ اب اس اصطلاح کے مطابق آپ کسی جانور گھوڑے، بندر، کتے یا چوہے وغیرہ کی شکل میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔

برطانیہ میں ایک خاندان ایسا بھی رہتا ہے جو اپنے بچوں کی پرورش اس طریقے سے کرتا ہے کہ جس میں وہ ان کی جنس کا اظہار نہیں کر پاتے ہیں۔ اس خاندان کے بچوں کو “غیر بائنری” کہتے ہیں جو خود کو مرد یا عورت کے طور پر شناخت نہیں کراتے ہیں۔ اس خاندان کے گھر میں کل ملا کر تین افراد ہیں اور تینوں ہی غیر بائنری ہیں، قانونی طور پر ایک فرد کی شادی ان دونوں میں سے ایک کے ساتھ ہے جبکہ دوسرے کے ساتھ وہ ’ریلیشن شپ‘ میں ہے۔ ان تینوں کے دو بچے ہیں، جن کی پیدائش پر انہیں جنس تو معلوم ہے مگر ابھی وہ اسے خفیہ رکھنا چاہتے ہیں یہاں تک کہ بچے بڑے ہو کر خود اس بات کی شناخت نہ کر لیں کہ وہ کیا ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ ایل جی بی ٹی “لبرل ازم” کے فلسفہ کی ایک ایسی سہولت ہے کہ جس میں آپ اپنی مرضی کی جنس کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ بہرکیف یہ سہولت محض باشعور اور جوان ہونے پر میسر آتی ہے کہ اگر دو لیزبیئن خواتین ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہیں تو ان میں سے ایک آپریشن کروا کر مرد بن سکتی ہے اور اپنی دوسری دوست لڑکی سے قانونی طور پر شادی کر سکتی ہے اور یہی معاملہ دو لڑکوں کا ہے جو آپس میں شادی کر سکتے ہیں جنہیں Gay کہا جاتا ہے۔

چلو یہ بات ٹھیک ہے کہ جب میڈیکل سائنس مزید ترقی کرے گی تو مکمل بچے (Perfect Babies) پیدا کیئے جا سکیں گے اور آپ ان کی پیدائش سے قبل اپنی مرضی سے ان کی جنس کا تعین کر لیا کریں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان بچوں کو “اینٹی جینڈر” پکارے جانے میں ان بچوں کا کیا قصور ہے جن کو اپنی جنس کا پتہ نہ ہو کہ وہ میل ہیں یا فی میل ہیں کہ انہیں he یا she کی بجائے it کہہ کر پکارا جائے۔

بچوں کی اناٹومی کو چھپانا یا تبدیل کرنا اصل مسئلہ نہیں بلکہ مسئلہ جسمانی فٹنس کا ہے جس کو میڈیکلی حل کیا جانا چایئے ناکہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیئے فطرت سے جنگ کرنی چایئے۔

اہل مغرب تو یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہمیں شروع میں یہ سب کچھ اس لئے عجیب لگتا ہے کیونکہ ہمارے لیے یہ باتیں نئی ہیں، جس طرح کسی زمانے میں ہم جنس پرستی کو ناقابل قبول سمجھا جاتا تھا اور پھر آہستہ آہستہ لوگوں میں یہ شعور آ گیا کہ اس میں ہم جنس پرستوں کا کوئی قصور نہیں اور یوں ان کے خلاف نفرت کم ہو گئی یعنی یہ جنسی شناخت کے اظہار کے نئے طریقے ہیں جو بعد میں آہستہ آہستہ نارمل ہونے لگیں گے۔

کہا جا سکتا ہے کہ ایسا ہو جائے گا، لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو پھر اس انفرادیت کا اختتام کیا ہو گا، کیا اس کی حدود متعین کی جا سکیں گی اور اگر حدود متعین کرنا انسان کی آزادی میں خلل ڈالنے کے مترادف ہے تو پھر ہمیں اس دن کے لئے تیار رہنا چاہئے کہ جب انسان خود کو کتوں کے طور پر شناخت کرانے میں بھی فخر محسوس کریں گے۔

ممکن ہے آپکو یہ بات ہضم نہ ہوئی ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ برلن میں انسانوں کے ایک گروہ نے یہ کام شروع کر دیا ہے، یعنی وہ اپنی شناخت کتوں کے طور پر کراتے ہیں۔

ایل جی بی ٹی کا یہ ماڈرن عارضہ اور برطانیہ کے سکولوں میں اس کی قانون سازی نے تہذیبوں کی جنگ (Clash of Civilization) کو مزید قریب کر دیا ہے کہ اب انسانوں میں ایسے طبقات پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں جو “تہذیب” سے بھی آزادی کے خواہاں ہیں۔

اب اس نفسیاتی بیماری LGBT کے آثار پاکستان میں بھی نمایاں ہونے لگے ہیں یہ پاکستانی معاشرے کی دینی و معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کی تباہی کا آغاز ہے، جسے روکنے اور درست کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ ریاست کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں حکومت، سیاسی جماعتوں یا عوام کا کوئی خاص کردار نظر آ رہا ہے۔

سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ حکومت کی اپنی وزارت انسانی حقوق کی طرف سے اسلام آباد میں کچھ ایسے پوسٹرز آویزاں کئے گئے جو دراصل ہم جنس پرستی یا LGBT اور ٹرانسجنڈر کی تشہیر کے زمرے میں آتے ہیں۔ جماعت اسلامی اور کچھ دوسرے افراد نے بھی اس مسئلہ کو سوشل میڈیا کے ذریعے اُٹھایا لیکن اس پر حکومت ابھی تک خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

مذہب مخالفین کو سوچنا چایئے کہ وہ لبرل ازم اور سیکولر ازم کے نام پر جو آزادیاں لینے کے متمنی ہیں اس کا انجام انسانی تہذیب کے خاتمے کی صورت میں بھی نکل سکتا یے کہ جب انسانوں میں جینڈر کی شناخت ختم ہو گئی تو پھر انسانوں اور جانوروں کے درمیان صرف نام کا فرق باقی بچے گا جنس کا کوئی فرق نہیں ہو گا یعنی تب انسان بھی ایک نوع ہی کہلائے گا۔

Title Image by Mircea – All in collections from Pixabay

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

جانِ کرم

بدھ دسمبر 27 , 2023
مجھے عشق و وارفتگی میں ڈھلے فن پاروں کا عکسِ جمیل جب جانِ کرم میں نظر آیا تو لکھنے کے لیے اپنا خامہ تھام لیا۔
جانِ کرم

مزید دلچسپ تحریریں