مجھے ہے حکمِ اذاں

مجھے ہے حکمِ اذاں

کالم نگار:۔ سید حبدار قائم

او بائی ڈن تم نے کتنے بچے مارے ہیں کتنے جوان مارے ہیں کتنے بوڑھے مارے ہیں جہاں پر عمارتیں اور قمقمے روشن تھے تم نے اپنے اندھے ظلم سے وہاں پر کھنڈرات بنا دیے ہیں جہاں انسانوں کی خوشبو تھی تم نے مسلمان دشمنی میں وہاں کے انسان تو کیا پتھر بھی زخمی کر دیے ہیں جن پر معصوم بچوں کے لہو کے چھینٹے ہیں تم لوگ گلوبل ویلج اور انسانیت کے جھوٹے دعویدار تھے لیکن ان کے قاتل نکلے تمہارا ظلم حیوانوں سے بھی بدتر ہے ۔

تم نے 9000 فوجی مشرق وسطٰی میں بھیج دیے تم جنگ ختم کرنے کا نام نہیں لے رہے تم اسرائیل کی بقا کے لیے لڑتے ہو انسانیت کی بقا تمہاری پہچان ہونی چاہیے تھی یہ ہر مسلمان کی آواز ہے

روسی صدر نے کہا ہے کہ “فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جو کچھ ہو رہا ھے یہ مشرقی وسطٰی میں امریکی پالیسی کی ناکامی کا ثبوت ہے”

پانچ لاکھ مسلمان اسرائیل نے بے گھر کر دیے بچوں کی لاشیں نوحہ کناں ہیں مسلمان بہنیں پونے دو عرب مسلمانوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی اور ٹیپو سلطان ڈھونڈ رہی ہیں ، وہ چیختی رہیں ،جوان لاشیں اٹھاتی رہیں، بوڑھے گڑگڑاتے رہے اور عمارتیں زمین دوز کر دی گٸیں لیکن 57 اسلامی ممالک فلسطین کا دفاع کرنے میں ناکام ہو گۓ ہیں اور یہی مسلمان اللہ پاک سے اسرائیلی حملے روکنے کے لیے ابابیلوں کا لشکر مانگتے رہے ان دعاوں کے ساتھ کسی نے صیہونیوں کی آنکھ میں آنکھ نہ ڈالی اسرائیل پر کسی ملک نے میزاٸل نہیں داغا نہ کسی نے مجاہدین بھیج کر مدد کی نہ ہی مسلمانوں کے حاکم حرکت میں آۓ عربی عجمی سارے ایک ہی بے غیرتی کا لبادہ اوڑھ کر سو گۓ مساجد میں دعاٸیں تو سنی گٸیں لیکن کسی نے فلسطینیوں کی امداد کی نہ ہی حمایت کا اعلان کیا حالانکہ

نہج البلاغہ کی حکمت نمبر ٣٣ میں مولا علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں

“بغیر عمل کے دعا کرنا ایسا ہے جیسے بغیر کمان کے تیر چلانا”

لیکن کون عمل کرے؟

جہادی تنظیم حماس پہلے کی طرح اب بھی سرگرمِ عمل ہے۔شام میں امریکی اڈے پر حزب اللہ نے حملہ کر کے چار فوجی مارنے کا دعوٰی کیا ہے ایران کے اندر غیرت کی چنگاری ابھی تک سلگ رہی ہے جو کسی وقت بھی آگ بن سکتی ہے وہ فلسطین کی مدد کا کئی بار اظہار کر چکا ہے میں نے سوشل میڈیا پر ایک مظلوم فلسطینی بھائی کی ویڈیو دیکھی ہے جس میں ایک بوڑھا شخص اپنے پوتوں کی لاشیں زمین پر رکھ کر ان سے کہہ رہا ہے:۔

“تمہاری نبی پاک ﷺ سے ملاقات ہو تو شکایت کرنا ہمارے ٹکڑے ہوتے رہے امت تماشہ دیکھتی رہی “

اس شکایت کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے جو ہائیڈروجن بم سے زیادہ طاقتور ہے لیکن بےجان مسلمانوں کو یہ سنائی ہی نہیں دیا جب غیرت مر جاۓ تو انسان انسان نہیں رہتا وہ سور کے پلید جسم کا ایک لوتھڑا بن جاتا ہے اسرائیل اتنا ظالم ہے کہ اس نے فلسطین کے طبی عملے کے اب تک 192 افراد ہلاک  کر دیے ہیں علاج کے لیے دواوں کا فقدان ہے ایمبولینسیں تباہ کر دی ہیں تاکہ مسلمان زخمی بدن پر مرہم بھی نہ رکھ سکیں اور سسک سسک کر جان دیں بین الاقوامی عدالتیں مردار لاشوں کی طرح بدبودار ہو چکی ہیں جن میں انصاف صرف سپر پاورز کے لیے دستیاب ہے پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ آج جب میں کالم لکھ رہا ہوں اس 39 ویں روز بھی اسرائیلی حملے جاری ہیں اور جنگ کے شعلے کم ہونے کا نام نہیں لے رہے کسی مسلمان ملک میں کسی ایک یہودی عورت پر کہیں ظلم ہوتا تو پوری دنیا میں واویلا مچ جاتا اب مسلمان بچوں کی چیخیں غزہ کی عمارتوں کے نیچے دفن ہو چکی ہیں لیکن یہ ہچکیاں سسکیاں اور آہیں بین الاقوامی عدالتیں نہیں سن رہیں نہ ہی بین الاقوامی میڈیا اسے ہائی لائیٹ کر رہا ہے۔

اگر اسرائیل کو کوئی خفگی ہے تو وہ اس کے اپنے جنگی قیدی ہیں جن کو وہ واپس لینا چاہتا ہے لیکن حماس مغوی افراد واپس کرنے سے انکاری ہے  اور نہ ہی ان سے بات کرنے کا وہ سوچ رہا ہے باقی دنیا کے مسلمانوں سے روحِ اقبال امیدیں لگاۓ بیٹھی ہے کیونکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان ہیں انہیں حضرت اقبالؒ نے کہا تھا

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

لیکن اب تو مسلمان ان سب صفات سے خالی ہیں ان کی حالت خزاں کے خشک پتوں کی طرح ہے جنہیں ہوا کا کوئی بھی تیز جھونکا مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق لے جا سکتا ہے  بیت المقدس کی حفاظت 57 مسلمان ممالک نہیں کر سکے پورے فلسطین کی انہوں نے کیا خاک حفاظت کرنی ہے مجھے یاد ہے کہ اٹک شہر میں ایک دن میں ڈیوٹی پر گیا وہاں پر مجھے ایک کتا ملا میں نے اپنے ٹفن سے روٹی نکال کر کتے کے سامنے پھینک دی کتا بھوکا تھا اس نے روٹی کھائی اور میرے پاوں پر سر رکھ دیا اور دم ہلانے لگا اور اپنی وفا کا یقین دلانے لگا اسی لمحے میرے آنسو رواں ہو گۓ اور میں خدا کے خوف سے کانپنے لگا اور سوچنے لگا کہ ایک روٹی کھلانے پر کتے نے مجھے اپنا مالک مان لیا اور میں کتنا برا انسان ہوں کہ ہزاروں نعمتیں کھا کر بھی اپنے رب کے سامنے نہیں جھکتا اور نہ اپنی وفاداری کا اسے یقین دلاتا ہوں اور میری طرح باقی مسلمان بھی اسی طرح ہیں جو اپنے رب کو اپنی وفا کا یقین نہیں دلاتے اس موقع پر مجھے بلھے شاہ کا کلام یاد آیا وہ کہتے ہیں:۔

راتیں جاگیں کریں عبادت

راتیں جاگن کُتے تیتھوں اتے

بھونکنوں بندمول نہ ہوندے

جا رڑی تے سُتے تیتھوں اتے

کھسم اپنے دا درنہ چھڈدے

بھانویں وجن جُتّے

 تیتھوں اُتے

بلھے شاہ کوئی رخت وہاج لے

نہیں تے بازی لے گئے کُتے

تیتھوں اُتے

اس میں شک نہیں کہ کتے ہم سے بازی لے گۓ ہیں جو اپنے مالک کے گھر کی حفاظت کرتے ہیں خواہ ان کی جان چلی جاۓ ایک ہم ہیں کہ بیت المقدس کی حفاظت نہیں کرسکے۔

پوری دنیا کے مسلمان حاکمو ! تم بھی شرم کرو اور فلسطینی بچوں جوانوں بوڑھوں بیٹیوں اور بہنوں کی مدد کے لیے تیار ہو جاو اگر موت سے ڈرتے رہے تو موت تو ایک دن آ کر رہے گی اس لیے ذلت کی موت سے بہتر ہے کہ عزت کی موت مر جاو میں تمہاری غیرت جگانے کی کوشش کر رہا ہوں فلسطین کی مدد کے لیے اٹھو نہیں تو دیر ہو جاۓ گی یہ بات میں اس لیے بار بار باور کرا رہا ہوں کہ بقول حضرت اقبالؒ :۔

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکم اذاں،  لا الہ الا اللہ

Title Image by İbrahim Mücahit Yıldız from Pixabay

مستقل لکھاری | تحریریں

میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ناول "دُھندلے عکس"

جمعہ نومبر 17 , 2023
آذاد جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والی نوجوان طبقے کی نمائندہ اُردو ادب میں نووارد ادیبہ،مُصنّفہ و افسانہ نگار محترمہ کرن عباس کرن صاحبہ
ناول “دُھندلے عکس”

مزید دلچسپ تحریریں