مرزا شکور بیگ مرزآ

مرزا شکور بیگ مرزآ

 جب دور سے گنبد کے مینار نظر آۓ

 مجرم  کو   رہائی  کے آثار نظر  آۓ

پورا نام : مرزا شکور بیگ 

تخلص   : مرزا

تاریخ ولادت : 15/ سپٹمبر 1907ء حیدرآباد دکن 

تاریخ وفات : 22/ اگسٹ 2009ء حیدرآباد انڈیا

مرزا شکور بیگ مرزآ

 مرزا شکور بیگ 15/سپٹمبر 1907ء کو حیدرآباد کے قدیم محلہ فتح دروازہ میں پیدا ہوۓ 1932ء جامعہ عثمانیہ سے بی اے پاس کیا اور اور 1935ء میں اسی جامعہ سے وکالت کی ڈگری لی اور وکیل بن کر ضلع ورنگل منتقل ہو گئے اور وہیں وکالت شروع کردی تقریباً 25 سال انہوں نے وکالت کی اور بحیثیت وکیل پورے ریاست بھر میں مشہور ہو گئے وکالت کے ساتھ ساتھ انہوں نے عوامی زندگی میں بھی حصہ لیا اور 1952ء اور 1957ء میں دو بار ریاستی اسمبلی کے لئے الیکشن میں حصہ لیا اور عوامی اکثریت سے MLA کے لئے کامیاب ہوۓ اس طرح 10/ سال وہ ریاستی اسمبلی میں رکن اسمبلی رہے ، وہ نہ صرف صاحب طرز شاعر تھے بلکہ اپنے زمانے کے مشہور نثر نگار بھی تھے انکے مزاحیہ مضامین مزاحیہ شاعری تقاریر اور نعتیہ شاعری کا مجموعہ “خوشبوے درد” کے عنوان سے ان کی زندگی میں ہی چھپ کر مقبولیت حاصل کرچکا تھا ، ابتداء میں مرزا صاحب نے مزاحیہ مضامین اور مزاحیہ شاعری شروع کی انہوں نے ظریفانہ مزاج پایا تھا طنزو مزاح کے پیراۓ میں معاشرے کی اصلاح ان کا اصل مقصد تھا 

” نہ اعلان حکمت نہ اظہارفن ہیے

ظرافت کے پردے میں دل کی جلن ہیے

مری شاعری دعوت فکر بھی ہیے 

کہیں اس میں فن ہیے کہیں اس میں پن ہیے”

طنز ومزاح کی شاعری کے بعد ان کی شاعری نے کروٹ بدلی وہ 1960ء میں حج پر تشریف لے گئے اور واپس آنے کے بعد ان کی شاعری کا رخ مکمل طور سے نعت گوئی کی طرف ہوگیا اور 1967ء س 2009ء انکے انتقال تک وہ ہر سال حج پر جاتے اور اور زیارت آقاۓ دو جہاں صلم کے لئے ہر وقت بے چین و بے تاب رہتے مرزا صاحب کو محدث دکن حضرت عبداللّه شاہ صاحب قبلہ علیہ و رحمہ سے خلافت و بعیت بھی حاصل تھی اور آپ اپنے وصال سے قبل حضرت عبداللہ شاہ صاحب علیہ رحمہ کے وہ اکلوتے خلیفہ رہ گئے تھے حضرت مرزا شکور بیگ صاحب اپنے حج کے بارے میں خود فرماتے ہیں ;- 

میں جھوٹ نہ بولوں گا ملا کے ڈرانے سے

جاتا ہوں مدینے کو میں حج کے بہانے سے 

ان کے کلام میں نہ پر شکوہ الفاظ ملتے ہیں اور نہ انشاء پروازی پھر بھی ان کے کلام میں کمال نظر آتا ہیے ان کا کلام پر اثر ہیے سامع ہو کہ قاری انکے کلام سے اس پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ہیے  

اشعار میں تاثیر کا یہ راز ہیے 

ورزش یہ دماغی نہیں یہ دل کی لگی ہیے 

آتش عشق رسول صلعم میں جلنے والے اور دوسروں کے قلوب میں آتش عشق رسول صلعم کو بھڑکانے والے یہ عظیم عاشق رسول صلم محترم مرزا شکور بیگ صاحب 22/ اگسٹ 2009ء کو دنیا سے پردہ فرمالیا مگر دنیاۓ اسلام و دنیا کے تمام عاشقان رسول صلم کے دلوں میں وہ ہمیشہ تاابد ذندہ رہیں گے

 عاشق رسولﷺ و ممتاز نعت گو شاعر مرزا شکور بیگ صاحب مرزآ علیہ رحمتہ کے 116ویں یوم ولادت پر بطور خراج عقیدت انکا کچھ نمونہ کلام قارآئین کی نظر کر رہا ہوں 

ترتیب و پیشکش : #سید_نوید_جعفری 

حیدرآباد دکن انڈیا 

سب سے پہلے انکا شروعاتی مزاحیہ کلام کا نمونہ پھر نعتیہ کلام کا نسخہ پیش کروں گا 

عشق میں سختیاں بھی جھیلی ہیں 

کچھ نہ کچھ ہم نے نیکیاں کی ہیں 

گالیاں کھاکے اس لئے خوش ہیں 

اس نے اردو میں گالیاں دی ہیں 

نہ اعلان حکمت نہ اظہار فن ہیے

ظرافت کے پردے میں دل کی جلن ہیے 

مری شاعری دعوت فکر بھی ہیے

کہیں اس میں فن ہیے کہیں اس میں پن ہیے

رنگ مصنوئ چال مصنوئ 

دانت مصنوی زبان مصنوی 

دودھ جب دودھ ہی نہیں یارو 

دودھ کا ابال ہیے مصنوی

صحت نے ساتھ چھوڑا پینا مگر نہ چھوٹا 

بستر پر لیٹے لیٹے چمچے سے پی رہے ہیں 

یہ ہی زندہ دلی کا راز ہیے مرزا کہ اپنوں کی 

بھلائی یاد رکھتا ہوں برائی بھول جاتا ہوں 

اب ہجر کا ملال نہ فکر وصال ہیے

عاشق کے زیر غور غذائی سوال ہیے

خبر نہیں ہیے کہ لیڈر یہ سن کےکیوں بگڑے 

عوام لڑتے نہیں ہیں لڑاۓ جاتے ہیں

 پوچھا نا کسی نے جیتے جی درد کے ماروں کو مرزا 

جب جان گئی بے چاروں کی مرحوم بنے مغفور ہوۓ

💗  نمونہ نعتیہ کلام 💗

جب دور سے گنبد کے مینار نظر آے

مجرم کو رہائی کے آثار نظر آۓ 

خوشی نہیں ہیے مگر آرزو ہیے جینے کی 

زہے نصیب زیارت ہو پھر مدینہ کی 

چھوٹا در حبیب تو محسوس یوں ہوا 

جنت ہمارے ہاتھ میں آکر چلی گئی 

ضیفی ہر جگہ محسوس ہوتی ہیے مگر مرزا 

مدینہ میں طبعیت کچھ جواں معلوم ہوتی ہیے

میں جھوٹ نہ بولوں گا ملا کے ڈرانے سے

جاتا ہوں مدینے کو میں حج کے بہانے سے

 یوں مدینے میں آۓ مستانے

شمع روشن پہ جیسے پروانے

اشعار میں تاثیر کا یہ راز ہیے 

ورزش یہ دماغی نہیں یہ دل کی لگی ہیے

 جب دور سے گنبد کے مینار نظر آے

 مجرم کو رہائی کے آثار نظر آۓ

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اپنی دھرتی اپنے لوگ -حبیب الرحمٰن مڑل

اتوار ستمبر 17 , 2023
حبیب الرحمٰن مڑل زمانہ طالب علمی سے ہی ادب کی طرف راغب ہوئے۔ نسیم حجازی سے غلام جیلانی برق تک اور رئیس احمد جعفری سے مولانا مودودی تک
اپنی دھرتی اپنے لوگ

مزید دلچسپ تحریریں