ایرانی صدر Iranian Presidentکی شہادت
ایران کے صدر ایرانی صدر Iranian Presidentکی شہادت ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونے کا اعلان دیر سے کیا گیا۔ جس طرح 17 اگست 1988ء میں سانحہ بہاولپور میں ضیاءالحق کی شہادت کے بارے طرح طرح کی چہ میگوئیاں کی گئی تھیں ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثے کے بارے بھی انتہائی مخدوش تبصرے کیئے جا رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق صدارتی ہیلی کاپٹر کی حفاظت کے لیئے اس کے آگے پیچھے دو ہیلی کاپٹر مامور تھے جو صحیح سلامت لینڈ ہوئے۔ خدشات یہ ظاہر کیئے جا رہے ہیں ہیلی کاپٹر کو زمین سے میزائل مارا گیا یا اس پر ڈرون کے زریعے حملہ کیا گیا۔
آزربائیجان کے دورے سے واپسی پر ایرانی صدر ایرانی صدر Iranian Presidentکی شہادت کا فضائی قافلہ تین ہیلی کاپٹرز پر مشتمل تھا جن میں سے ایک میں چار وی وی آئی پیز سوار تھے جبکہ دوسرے دونوں ہیلی کاپٹرز سیکورٹی پر مامور تھے لیکن حیران کن طور پر منفی موسمی حالات کے باعث صرف ایک ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوا اور مزید حیران کن طور پر دوسرے دونوں ہیلی کاپٹرز جو سیکورٹی کی خدمات انجام دے رہے تھے انہیں اس حادثے کا علم تک نہ ہوا اور وہ دونوں ہیلی کاپٹرز معمول کے مطابق اپنی منزل مقصود پر لینڈ کر گئے یا اگر یہ حادثہ موسم کی خرابی کی وجہ سے ہی پیش آیا تو دوسرے دو ہیلی کاپٹروں کی بجائے یہ حادثہ صدر موصوف کے ہیلی کاپٹر ہی کو کیوں پیش آیا؟
جب بہاولپور میں ضیاءالحق کے جہاز کو حادثہ پیش آیا تھا تو اس وقت چیف آف آرمی سٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ کا جہاز بھی محو پرواز تھا جس کے بعد یہ جہاز واپس بہاولپور ایئرپورٹ پر بحفاظت اتار لیا گیا۔ اس حادثہ کے بارے میں دو اہم وجوہات زیر بحث رہی تھیں کہ اول جہاز میں آموں کی پیٹیوں میں بم رکھا گیا تھا اور دوم یہ کہ صدارتی جہاز کو گراونڈ سے میزائل داغا گیا تھا۔ اگرچہ دنیا میں اس نوع کے حادثات ہوتے رہتے ہیں جن کے بارے حقیقت آج تک منظر عام پر نہیں آئی۔ اس نوعیت کے فضائی حادثات میں جاں بحق ہونے والے صدور کی لسٹ میں پیراگوئے کے صدر (1940)، فلپائن کے صدر (1957)، برازیل کے صدر (1958)، عراق کے صدر (1966)، برازیل کے صدر (1967)، بولیویا کے صدر (1969)، ایکواڈور کے صدر (1981)، موزمبیق کے صدر (1986)، پاکستانی کے صدر (1988)، روانڈا کے صدر (1994)، برونڈی کے صدر (1994)، شمالی مقدونیہ کے صدر (2004)، پولینڈ کے صدر (2010)، چلی کے صدر (2024) اور اب ایران کے صدر ابراہیم رئیسی (2024) شامل ہیں۔ اس حادثے کے بارے میں بھی یہ خدشات ظاہر کیئے جا رہے ہیں کہ ایرانی صدر کی شہادت میں ضرور کوئی سازش شامل ہے۔
اسرائیل فلسطین جنگ اور اسرائیل ایران کے ایک دوسرے پر میزائیل حملوں کے تناظر میں بھی اس حادثہ پر تبصرے ہو رہے ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے ایرانی صدر کو پاکستان کا دورہ کرنے کی سزا دی گئی ہے۔ یہ سوچنا کہ اس حادثہ کے پیچھے کسی بڑی عالمی طاقت کا ہاتھ ہے ایک قبل از وقت بدگمانی ہے۔ تاہم کچھ عرصہ ہوا ایران اور پاکستان نے بھی ایک دوسرے پر میزائل حملے کیئے تھے۔ البتہ پاکستان اور ایران کے قریبی اور برادرانہ تعلقات کو امریکہ اور یورپ میں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ایران وہ پہلا برادر اسلامی ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں ہمیشہ رخنہ ڈالتے آئے ہیں اور وہ نہیں چاہتے ہیں کہ پاکستان اور ایران کے درمیان برادرانہ مراسم قائم ہوں یا پاکستان ایران سے سستے داموں تیل خرید کر خوشحالی کی جانب گامزن ہو۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ ایران کے مرحوم صدر پاکستان کے دورے کے بعد پاکستان کو ایران کے کافی قریب لے آئے تھے۔ اس سے قبل چین نے ایران اور سعودی عرب کے اختلافات کو ختم کرانے اور انہیں ایک دوسرے کے اچھے دوستانہ تعلقات قائم کرنے میں مدد فراہم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا جس سے یہ لگتا تھا کہ چین اور روس کے خفیہ تعاون سے مشرق وسطی میں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف ایک نیا بلاک بننے جا رہا تھا۔
ایرانی صدر ایرانی صدر Iranian Presidentکی شہادتکے ہیلی کاپٹر کے کریش کی سب سے پہلے خبر اسرائیل نے چلائی تھی۔ حادثہ میں ہلاک ہونے والوں کی ڈیڈ باڈیز نہیں دیکھائی گئیں اور شہید ہونے والوں کے صرف جسم کے ٹکڑے ظاہر کیئے گئے۔ ایران کے پہاڑی علاقوں سے ایک ویڈیو بھی وائرل ہوا ہے جس میں جگہ کا یہ تعین ہو رہا ہے کہ ڈرون حملہ ہوا ہے اور ڈرون حملے کے نتیجے میں پہاڑوں کے بیچ میں ایت اللہ ابراہیم رئیسی اور اس کے دیگر ساتھی شہید ہوئے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی شہادت پر ایران کے سوشل میڈیا پر بھی متضاد تبصرے سامنے آئے بلکہ جب شہادت کی خبر میں تاخیر کی گئی یا جونہی ایرانی میڈیا نے صدر کی شہادت کا اعلان کیا تو ایران میں رئیسی مخالف کیمپ میں جشن کا سا سماں تھا۔ ابراہیم رئیسی کی شہادت پر ایران میں پانچ روزہ اور لبنان میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا۔
ایران کے صدر ایرانی صدر Iranian Presidentکی شہادت کی شہادت پر سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے ایک روزہ سوگ کا اعلان ہوا۔
سندھ حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق منگل 21 مئی کو سندھ بھر میں سرکاری عمارتوں میں قومی پرچم سرنگوں رہا۔
ایرانی صدر اور ان کے رفقا کے حادثے میں انتقال پر پنجاب حکومت نے بھی منگل کو یوم سوگ کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ صوبے کی تمام سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔ اسی روز صدر رئیسی کی ایران میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ المیہ یہ ہے کہ دنیا کے دیگر صدور کی ایسی حلاکتوں کے علاوہ شائد ابراہیم رئیسی کی شہادت کے بارے بھی حقیقت کبھی کھل کر سامنے نہ آ سکے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں موت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ایران سے تعزیت کی ہے جبکہ ایران کے سپریم لیڈر نے ملک میں پانچ روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔پاکستان، متحدہ عرب امارات، چین، قطر، انڈیا، روس، ترکی، شام، ملائیشیا، سپین، لبنان اور یورپی یونین نے ایرانی صدر کی موت پر اظہار افسوس کیا۔ دوسری جانب ایران کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف محمد باقری نے اس ہیلی کاپٹر حادثے کی وجوہات کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق ہیلی کاپٹر حادثے میں مرنے والے صدر رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی آخری رسومات منگل کو تبریز میں مقامی وقت کے مطابق ساڑھے نو بجے ادا کی گئیں جس کے بعد ابراہیم رئیسی کے جسد خاکی کو تہران لے جایا گیا۔ یہ افسوسناک حادثہ مشرقی آذربائیجان کے صوبے میں پیش آیا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نائب صدر محمد مخبر کو ملک کی ایگزیکٹو برانچ کا عبوری سربراہ مقرر کرنے کی منظوری دی گئی۔ ایران میں اب رئیسی کے جانشین کے انتخاب کے لئے صدارتی انتخابات سے قبل زیادہ سے زیادہ 50 دن کی مدت دی گئی ہے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔