الیکشن سنہ 2024ء کی کچھڑی!

الیکشن سنہ 2024ء کی کچھڑی!

Dubai Naama

الیکشن سنہ 2024ء کی کچھڑی!

اب کے بار عام انتخابات میں ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ پاکستان ہے جہاں عوام رومال سے کبوتر برآمد کرنے والے مداری کے گرد بھی سارے کام چھوڑ چھاڑ کر سر راہ کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ تو پانچ سال بعد آنے والے انتخابات ہیں جو آتے آتے آئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے نتائج کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ عام قیاس اور آثار کے مطابق عوام نون لیگ کو اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھتا دیکھ رہی ہے۔ لیکن یہ پہلا الیکشن ہے جس میں نون لیگ کے قائد یعنی میاں محمد نواز شریف کوئی ایک بھی بڑے جلسے سے خطاب کیئے بغیر الیکشن میں جا رہے ہیں۔پیپلزپارٹی کی قیادت یعنی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے پھر بھی ملک بھر میں چند بڑے جلسوں سے خطاب کیا ہے مگر حیرت ہے کہ جس جماعت کو اقتدار ملنے کی قیاس آرائیاں گردش کرتی رہی ہیں وہ کانوں میں تیل ڈال کر “الیکٹیبلز” اور “ڈرائنگ روم کی سیاست” سے باہر نکلنے کا تکلف نہیں کر سکی ہے، جیسے اس کو یقین ہو کہ اقتدار تھالی میں رکھ کر اسے پہلے ہی پیش کیا جا چکا ہو۔

سنہ 2024ء کے انتخابات کا نقشہ بڑی حد تک پہلے ہی واضح ہو گیا کیونکہ جس طرح پی ٹی آئی کو کارنر کیا گیا اس سے یوں لگا کہ ملک و قوم دوبارہ سنہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے دہانے پر کھڑی ہو گئی ہے۔

اعدادو شمار کے مطابق سنہ 1985ء میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں 1088آزاد امیدار تھے جبکہ سنہ 2024ء کے انتخابات میں 3248 آزاد امیدوار آمنے سامنے ہیں۔ یہ تو ایسا ہی منظر نامہ ہے کہ اس الیکشن میں سیاسی جماعتیں ہارتی اور آزاد امیدوار جیتتے نظر آ رہے ہیں۔ جنرل باجوہ ڈاکٹرائن یہ تھا کہ سنہ 1985ء سے جو غیر جماعتی، غیر نظریاتی امیدواروں کا کلچر پیدا ہوا تھا، اسے ختم کرنا مقصود تھا۔ سنہ 2024ء کے انتخابات سے یہی محسوس ہو رہا ہے کہ وہی غیر جماعتی اور آزاد امیدواروں کا کلچر دوبارہ بحال ہونے جا رہا ہے۔

آزاد امیدواروں کے جتھے کی کامیابی کا دوسرا مطلب خرید و فروخت، لوٹا کریسی اور اسمبلیوں کو گھوڑوں کا “اصطبل” بنانے جیسا ہے۔ یہ منتخب نمائندے جماعتی ڈسپلن کے پابند ہونگے اور نہ ہی انکے کوئی جمہوری و قومی نظریات ہونگے یعنی جیتنے والے یہ نمائندگان ممکنہ برسراقتدار پارٹی سے منہ مانگی قیمتیں وصول کریں گے، پرمٹ لیں گے، ترقیاتی فنڈز وغیرہ پر ہاتھ صاف کریں گے اور ہر وہ سیاسی و اخلاقی اصول پامال کرنے کو تیار رہیں گے جس کی جمہوریت ہرگز اجازت نہیں دے سکتی ہے۔

اس دفعہ کے آزاد امیدواروں کی اکثریت یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ اگر اپنی تعداد کے تناسب سے کامیاب ہو گئے تو اس الیکشن کے بعد جو صورتحال پیدا ہو گی، وہ اس کچھڑی سے مختلف نہیں ہو گی جو دال کی طرح جوتیوں میں بٹے گی جس کے بارے ابھی سے ایک لطیفہ گردش کرنے لگا ہے کہ ایک ہاسٹل کی کینٹین میں ناشتے میں کھچڑی کھا کر پریشان طلباء نے ہاسٹل وارڈن سے شکایت کی اور ناشتہ میں دوسری چیزیں دینے کا مطالبہ کیا۔ وہاں 100 میں سے صرف 20 طالب علم ہی ایسے تھے جن کو کھچڑی پسند تھی اور وہ طلباء چاہتے تھے کہ روزانہ کھچڑی ہی بنائی جائے۔
جبکہ باقی کے 80 طلباء تبدیلی چاہتے تھے۔ وارڈن نے تمام طلباء کو ناشتے کے لئے ووٹنگ کرنے کو کہا۔ اب وہ 20 طلباء جنہیں کھچڑی پسند تھی ان سب نے کھچڑی کے لئے ووٹ دیا۔
باقی کے 80 افراد میں کوئی اتحاد یا ہم آہنگی نہیں تھی۔ مزید کوئی بات چیت بھی نہیں تھی اور اپنی عقل اور ضمیر سے کوئی فیصلہ بھی نہیں کیا، نہ آپس میں کوئی صلاح مشورہ کیا اور ہر ایک نے اپنی اپنی پسند کے مطابق ووٹ دیا۔ اب نتیجہ کچھ ایسا آیا کہ 20 کھچڑی، 18 انڈہ پراٹھا، 16 پراٹھا چائے، 14 روٹی سالن، 12روٹی مکھن، 10 نوڈلز اور 10 حلوہ پوری کو ووٹ پڑے۔ اس ووٹنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کینٹن میں آج بھی وہ 80 طلباء ہر روز کھچڑی کھاتے ہیں۔

پاکستان کے الیکشن سنہ 2024ء کی ووٹنگ کے نتائج بھی کچھ ایسی ہی مثال پیش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ریاست جتنا بھی اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے قدم قدم پر ریاست اور عدلیہ ایک دوسرے سے متصادم ہوئی ہیں۔ پی ٹی آئی کے بلے کا نشان بحال ہوا، چھینا گیا، سینیٹ میں الیکشن ملتوی کرنے کی تین قراردادیں پیش کی گئیں۔ کبھی نون لیگ کو چاروں صوبوں میں حکومت دینے کا منصوبہ بنا، کبھی سندھ میں پیپلزپارٹی کو دبانے کی بات ہوئی تو کبھی اسے دوبارہ کھل کر بحال کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ حتی کہ الیکشن کی ووٹنگ بھی جاری ہے اور کھچڑی ابھی تک پک رہی ہے کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی متحدہ قومی حکومت بنائی جانی ہے، نون لیگ کو حکومت دینی ہے یا پھر آزاد منڈی سے منتخب امیدواروں کو لے کر کوئی نئی کچھڑی بنانی ہے۔

اس بار ریاست کیا نیا کھیل کھیلنے جا رہی ہے، یہ راز کسی کو معلوم نہیں۔ ہماری ریاست نت نئی حکمت عملی بدلتی ہے۔ نواز شریف کی لندن سے آمد اور مینار پاکستان کے جلسے سے ایسا لگ رہا تھا کہ قسمت کا ہما واقعی اس کے کندھے پر بیٹھ گیا ہے مگر وہ سفید کبوتر تھا جس نے الیکشن مہم میں کوئی ایک بھی اڑاری نہیں بھری۔وزیراعظم نواز شریف بنیں، صدر آصف علی زرداری بنیں، یا ریاست اپنی جادو کی چھڑی سے اقتدار کا کوئی نیا ہما نکالے یہ ابھی کوئی نہیں جانتا مگر حقیقت یہ ہے کہ سنہ 2024ء کا الیکشن بھی غیر واضح نتائج لے کر آئے گا جس سے آزاد امیدواروں کی جیت ہو گی اور جمہوریت کی ہار ہو گی۔ آثار یہی ہیں کہ ہماری آئیندہ نسل کو کم از کم پانچ سال تک پھر سیاسی و معاشی عدم استحکام کی یہی کچھڑی کھانی پڑے گی!

Title Image by MetsikGarden from Pixabay

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

شذراتِ مقبول منظر عام پر آگئی

بدھ فروری 7 , 2024
معروف شاعر و ادیب اور محقق و مورخ مقبول زکی مقبول منکیرہ بھکر کی کتاب شذرات ِ مقبول مارکیٹ میں آگئی ہے۔
شذراتِ مقبول منظر عام پر آگئی

مزید دلچسپ تحریریں