محمد یوسف وحید کی عمدہ تحقیقی پیش رفت …’’خان پور کا اَدب ‘‘

محمد یوسف وحید کی عمدہ تحقیقی پیش رفت …’’خان پور کا اَدب ‘‘
تبصرہ :یاور عظیم (خان پور)

برادرِ عزیز یوسف وحید سے شناسائی قریباً2004 ء میں ہوئی۔ جب ہم ترقیِ تعلیم کالج (خانپور)میں زیرِ تعلیم سمجھے جاتے تھے۔ یوسف وحید اس وقت ایک اسکول میں پڑھاتے تھے۔ ہماری شام کے وقت سیٹلائٹ ٹائون خانپور کے گراونڈ میںنشستیں ہوتیں۔ ان نشستوں میں مرزا حبیب، اظہر عروجؔ، اور کبھی کبھار جام عرفان (جو کامرس کالج میں پڑھاتے ہیں) وغیرہ شریک ہوتے۔ جب دوست شام کو جمع ہوتے تو روٹین کی گپ شپ کے ساتھ اپنی غزلیں، نظمیں، شعر یا نثری تخلیقات دوستوں سے شیئر کرتے۔ ان پہ جہاں داد و تحسین ملتی وہیں کُھل کر تنقید کا سامنا بھی ہوتا۔
خان پور ی ادیبوں کی اس محفل میں اپنی ایک الگ سوچ رکھنے والے محمد یوسف وحیداس شہر کی ادبی اور تہذیبی فضا کو بحال کرنا چاہتے تھے۔ وہ رفتگاں کی عظمت کے اعتراف اور موجودگاں کی قدر دانی کے ساتھ آئندگاں کی ایک کھیپ تیار کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنے لیے ایک ایسا راستہ چننے کی تیاری کر لی تھی جو محض ذاتی تشخص کو اُجاگر نہیں کرتا بلکہ اس کا اختتام غمِ ملت اور غمِ معاشرہ کی منزل پہ ہوتا ہے۔ وہ اقبال کے اس شعر کی عملی تصویر بننے چلے تھے :
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

محمد یوسف وحید نے خانپور کی ادبی زمین کی آب یاری کاآغاز علمی، ادبی اور تعلیمی رسالہ ’’بچے من کے سچے ‘‘ کے اجرا سے کیا۔ اس رسالے کی مجلسِ ادارت و مشاورت میں اگرچہ مجھ سمیت مذکورہ بالا احباب کی شمولیت تھی۔ البتہ یہ آئیڈیا خالص یوسف وحید کا تھا۔ کچھ احباب دامے، درمے،سخنے اس رسالے کی ترویج و اشاعت میں حصہ لیتے رہے اور یہ سلسلہ کم و بیش آج بھی جاری ہے۔

Khanpur Ka Adab


2004ء سے لے کر2020ء تک خانپور کی ادبی فضا میں کئی خوش گوار تبدیلیاں ہوئیں۔ اس شہر کی ادبی تاریخ میں بہت سے اہم موڑ آئے۔ ہم یہاں ان واقعات کی جھلکیاں پیش کر رہے ہیں۔ تاکہ آپ کے سامنے ایک دفعہ اس تسلسل کو لایا جا سکے جس کی تازہ کڑی خان پور کی ادبی تاریخ پر مشتمل یہ کتاب ’’خان پور کا اَدب ‘‘ بھی ہے۔
۱۔خان پور میں جہاں الوحید ادبی اکیڈمی،بزمِ راز (کچاری)، بزمِ ادراک،تانگھ اَدبی سنگت، ارشد اَدبی سنگت اور عالم اَدبی فورم و دیگر جیسی نئی ادبی تنظیموں کا قیام عمل میں لایا گیا، وہیں کچھ پرانی تنظیموں کو جیسے ’’معارف‘‘ وغیرہ کواز سرِ نو فعال کیا گیا۔
۲۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ ان میں دوسرے شہروں سے آئے ہوئے معزز مہمانوں نے بھی شرکت کی۔
۳۔ بچوں میں کتابیں اور رسائل خرید کر پڑھنے اور تحریریں لکھنے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔
۴۔ اس دوران انفرادی حیثیت میں نیز مختلف پلیٹ فارمز سے رسا ئل، کتابیں چھاپی گئیں اور ان کی رونمائی و ترسیل کا اہتمام کیا گیا۔
۵۔ سرکاری تعلیمی اداروں اور تحصیل انتظامیہ میں کچھ ادب ناشناس لوگوں کی اَجارہ داری تھی۔ یہ جوہرِ سخن سے بے بہرہ، شرارتی اور متعصب لوگ سالہاسال سے اپنی رکاکت کا مظاہرہ کرتے آئے تھے۔ مذکورہ بالا خوش گوار تبدیلیوں کا اثر اُن افرادپر بھی ہوا۔ ان میں سے کچھ تخریبی عناصر راہِ راست پہ آنے لگے۔ اور کچھ ریٹائر ہو کر ہماری جان چھوڑ گئے۔
۶۔ اس دوران خان پور اور قرب وجوارکے کچھ سپوت تعلیمی وتحقیقی میدان میں آگے بڑھے۔ خان پور کی علمی و ادبی شخصیات اور ادبی تاریخ پہ جو مقالے لکھے گئے، ان کی تفصیل یہ ہے:
1۔خانپور میں اُردو غزل کی روایت، از:نذیراحمد بزمی(2017)
2۔خانپور میں اُردو نعت گوئی،از: رانا نصر اللہ (2017)
3۔ خورشید ٹمی کی افسانہ نگاری،از:امجد علی ڈھلوں(2017)
4۔ عبد الرحمن آزاد کے کلام کی تدوین، از:زبیر جہانگیر(2019)
5۔مجاہد جتوئی کے تحقیقی کام کا تقابلی جائزہ،از: شہباز نیرؔ(رحیم یار خان)
6۔ خانپور میں غزل کے نمائندہ شاعر،حفیظ شاہد کے فن و شخصیت پہ مظہر عباس نے مقالہ2007ء میں لکھا، لیکن یہ مقامی نہیں تھے۔
۷۔خانپور سے ادبی رسائل اور کتابوں کی اشاعت، ادبی تنظیموں کے قیام، ماہانہ اور سالانہ نشستوں اور مشاعروں کے انعقاد، ایم فل اور دیگر مقالوں کی تکمیل، تعصب کو بالائے طاق رکھ کر فروغِ ادب کی کوششیں، یہ سب وہ عوامل تھے جن سے ایک مدت بعد بڑے بڑے ادبی مراکز کی چمک دمک میں ہمارے شہر کا کھویا اور دھندلایا ہوا ادبی تشخص بڑی حد تک بحال ہوا۔
۸۔ اس دوران مجاہد جتوئی نے ’’دیوانِ فرید بالتحقیق، سیفل نامہ بالتحقیق اور گلزارِ خرم‘‘ کی تکمیل و اشاعت سے تحقیق و تدوین میںایک نئے باب کا اضافہ کیا۔
یہ سب تبدیلیاں خانپور کی ادبی فضا کو اس نہج پر لے آئی تھیں کہ اب اس بات کی ضرورت محسوس کی جانے لگی کہ خانپور کی غزل، نعت اور کچھ شخصیات پہ الگ الگ کام ہو جانے کے بعد ایک ایسا کام کیا جائے جس میں خانپور کی مجموعی ادبی تاریخ بالخصوص خانپور میں نثری ادب کی تاریخ پہ کام سامنے لایا جائے۔ یہ بیڑا اُٹھایا ہمارے حوصلہ مند دوست محمد یوسف وحید نے، جو ’’خانپور کی مختصر ادبی تاریخ‘‘ کے نام سے اپنا یہ کام رجسٹر کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ادھر بے ساختہ الطاف حسین حالی کا شعر یاد آ رہا ہے۔
یارانِ تیز گام نے منزل کو جا لیا
ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے
محمد یوسف وحید کی یہ تحقیقی کاوش جہاں اُن کی صلاحیتوں کا ایک نیا رُخ سامنے لے کر آتی ہے‘ وہیں اس بات کی غمازی بھی کرتی ہے کہ ہم مستقبل میں اُن سے اس حوالے سے مؤثر اور مبسوط تحقیقی کام کی توقع کر سکتے ہیں۔ ان کی زیرِ نظر کتاب میں خانپور کی ادبی تاریخ میں شامل سینکڑوں ناموں تک رسائی ملتی ہے۔ ان کی کتابوں اور ادبی کارناموں سے آگاہ ہونے کاموقع ملتا ہے۔ ادبی ماحول کی آبیاری میں خانقاہوں کا مؤثر کردار نظر آتا ہے۔ اس کتاب سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ بہت سے ایسے باہمت ادیب تھے جو ادبی مراکز سے دور اس چھوٹے سے شہر میں بڑی جانفشانی سے علم و ادب کے چراغ روشن کر رہے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد کتنے ہی ایسے لوگ تھے جومختلف قومی زبانوں سے تعلق ہوتے ہوئے اُردو زبان و ادب کی پرورش اور پرداخت میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔

khanpur ka adab book


اس کتاب کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں یہ علاقہ لسانی اورتہذیبی حوالے سے کتنا غیر متعصب رہا ہے۔ خواجہ فریدؒ کے بھائی خواجہ فخر جہاں ؒنے فارسی میں شاعری کی۔ خواجہ فرید ؒ نے سرائیکی کے ساتھ اُردو میں بھی شاعری کی۔علامہ سیّد محمد فاروق القادری (مرحوم) نے مذہب، اخلاق اور الہٰیات پہ گراں قدر نثری تصانیف چھوڑی ہیں۔ حفیظ شاہد ؔ اگرچہ پنجابی تھے مگر انھوں نے اُردو غزل کی نمائندگی کی اور ایک ضخیم کلیات ’’ختمِ سفر سے پہلے‘‘اپنے پرستاروں کو دان کر گئے۔ موجودہ عہد میں خواجہ غلام قطب الدین فریدی، مجاہد جتوئی، مرزا حبیب گو کہ سرائیکی ہیں لیکن ان کی اُردو میں خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں امن و آشتی، بھائی چارے اور باہمی ہمدردی کی فضا تھی۔ اس فضا کو بنانے میں یہاں کی خانقاہوں کا اہم کردار رہا۔ یہاں کے لوگ بھی عموما ً ًملنسار اور محبت کرنے والے ہیں۔ چند متعصب اور تہذیب کُش لوگوں سے قطعِ نظر یہ علاقہ محبت کرنے والوں کا ہے۔
جہاں یہ کتاب یوسف وحید کی ادبی زندگی اور خانپور کی ادبی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے وہیں اس میں کچھ تحقیقی فروگزاشتیںاور کوتاہیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ کہیں سنونِ پیدائش غائب ہیں تو کہیں سنونِ وفات کانشاں نہیں ملتا، اور کہیں دونوں ہی ندارد ہیں۔ کسی جگہ تصنیف شدہ کتب میں تراجم کو شامل کر دیا گیا ہے تو کہیں تراجم میں کسی کی تصنیف شامل ہو گئی ہے۔ بعض مصنفین کی مکمل کتابوں کی تعداد اور اسماء کا ذکر نہیں ملتا۔ ایک نووارد ِ ادب کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ انھوں نے پندرہ غزلیں کہی ہیں۔ کسی سے اصلاح نہیں لی اور تُک بندی تک محدود ہیں۔ ان کے کلام کا نمونہ بھی دیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک اس نووارد ِادب کا تذکرہ اور اس کا نمونہ ء کلام تمام تر شفقت اور ہم دردی کے باوجود اس قابل نہ تھا کہ کتاب کا حصہ بنایا جاتا۔


بات کچھ یہیں ختم نہیں ہو جاتی یوسف وحید نے اس کتاب میں کچھ معروف ناموں کے نمونہ ء کلام میں ایسے اشعار شامل کیے ہیں جو ہمارے نزدیک اس تُک بندی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے جس کا ہم نے اوپر تذکرہ کیا ہے۔ یہ (نام نہاد) اشعار ایسے ہیں کہ ان میںنہ صرف وزن کے مسائل ہیں بلکہ معنی بھی کچھ اخذ نہیں ہوتا۔ اب اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں یا تو وہ معروف نام ہی اس قبیل کی شاعری فرماتے ہیں جسے عروضی بندش سے کوئی سروکار نہیں یا یوسف وحید نے ان کا انتخاب و اندراج کرتے ہوئے ان کو عروضی کسوٹی پر نہیں پرکھا۔یعنی فراہم کردہ درست اشعار کو غلط لکھ دیا، یا کمپوزر نے اگر ایسا کیا تو اس کی اصلاح نہ کی جا سکی۔
ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ ہر محقق کا ماہرِ علمِ عروض ہونا ضروری نہیں۔ تاہم اگر ہو تو اچھا ہے۔ خاص کر جب آپ کے تحقیقی کام میں جابجا ایسے موڑ آتے ہوں کہ آپ کو شعر کے اَوزان اور اس کی خوبیوں سے واسطہ پڑتا ہو۔ اگر آپ عروض نہیں بھی جانتے تو آپ کو چاہیے کہ اپنی تحقیق کے ان حصوں میں کسی کی مدد لیں۔ ایسا تو نہ ہو کہ کوئی شخص جو سرے سے شاعر ہی نہیں اس کو آپ صرف اس کے کہے پر شاعر مان کر ادبی تاریخ کا حصہ بنا دیں۔ میں یہاں کچھ معروف ناموں کا ذکر کر سکتا ہوں لیکن اس سے ایک طولانی بحث شروع سکتی ہے جس کا متحمل کوئی شاعر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا یہ کام محققین ہی کے لیے رہنے دیتے ہیں۔
خیر یہ کچھ باتیں برادرِ عزیز، یوسف وحید کی توجہ مبذول کرانے کے لیے کر دی ہیں۔ہمارے اس دوست میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ تو اوائلِ عمر سے ہی تھا۔وہ اپنی صلاحیتوں کووقت کے ساتھ ساتھ بروئے کار لاتے رہے ہیں۔ الوحید ادبی اکیڈمی کا قیام، بچوں کے لیے مجلّہ ’’بچے من کے سچے‘‘کی متواتر اشاعت، حال ہی میں رسالہ’’شعور و ادراک‘‘ کا اجرا، بہاولپور کے نثری و شعری ادب پر مشتمل کتاب ’’ گلدستہ ٔ ادب ‘‘ ، قائدِ اعظم کے فرامین اور قائد کوئز، اور پھر ’’خانپور کی مختصر ادبی تاریخ‘‘ یہ ہمارے شہر کے اس سپوت کی گوناگوں ادبی جہات کا اشاریہ بھی ہے اور مستقبل میں ان سے بڑھ کر موقر اور مبسوط کاموں کی بشارت بھی۔ ویسے بھی ہم میں سے کچھ لوگ ایسی پرفیکشنسٹ اپروچ کے مالک ہوتے ہیں کہ ساری زندگی ان کی ایک کتاب منظرِ عام پر نہیں آتی۔محمد یوسف وحید معیار اور مقدار دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی شخصیت کا مثبت اور طاقتور پہلو یہ ہے کہ وہ کم سے کم وسائل میں، کم سے کم وقت میں بہتر کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ میں ایک دوست، ایک شاعر، اور ایک استاد کی حیثیت سے خانپور کی ادبی فضا میں نئے رنگ بکھیرنے والی اس کتاب کا خیر مقدم کرتا ہوں اور برادرِ عزیز، یوسف وحید کو اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ایک برجستہ شعر ان کی نذر کرتا چلوں:
ریت میں پھول کھلانے کا ہنر جانتے ہیں
یہ مرے شہر کے کچھ اہلِ ہنر جانتے ہیں
٭
(بحوالہ :’’خان پور کا اَدب‘‘ ۔ تحقیق وتالیف : محمد یوسف وحید ، ناشر: الوحید ادبی اکیڈمی خان پور ، 2021ء )
٭٭٭



یاور عظیم

مدیرہ | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

پروفیسر ڈاکٹر محمد ایوب سے بات چیت

اتوار دسمبر 19 , 2021
نئے لکھنے والوں کا رویہ جس قدر پیار و محبت اور تعاون والا ہونا چاہئے۔ وہ نہیں ہے۔ اپنی ذات کے خول میں بند رہنے کی وجہ سے فن پاروں میں گہرائی نہیں معیار ہی نہیں
professor ayyub and zaki

مزید دلچسپ تحریریں