کشمیر، برفباری اور قومی ترانہ

کشمیر، برفباری اور قومی ترانہ

  1993 کی بات ہے ہاجرہ بتول تین سال کی تھی اس کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر نواز شریف پارک مری روڈ سیر کرانے کے لیے لے گیا۔ واپسی پر مجھے شرارت سوجھی ۔ میں موٹر سائیکل پر بیٹھا  ہاجرہ بتول نیچے کھڑی تھی۔میں اس کو بٹھائے بغیر چل دیا۔اس پر اس نے شور مچا دیا۔ میں نے موٹر سائیکل روک کر اس کو بٹھا لیا ۔ اس کا غصے سے برا حال تھا ۔ مجھے مکے مارنے لگی اور شاؤٹ کر رہی تھی۔

تو                  بھاگ                    لا               تھا۔  تو                                مجھے                              چھول                    لا                     تھا۔

جب بھی نواز شریف پارک سے گزر ہوتا وہ منظر یاد آ جاتا ہے۔ جب  ہاجرہ بتول چار سال کی ہوئی تو اس کو محلے کے حیدر پبلک  سکول ڈھوک فرمان میں داخل کرایا اس کے لئے پہلی دفعہ سکول شوز باٹا وارث خان مری روڈ سے خریدے۔

 پنڈی سے ہم لوگ راولاکوٹ گئے وہاں فوجی فاؤنڈیشن سکول میں  ہاجرہ کی ایک ٹیچر کا نام تھاFGHIJK  (Farah Gul Hussain In Jammu & Kashmir)   ۔

اس ٹیچر نے بچوں کو اسلام آباد کے سپیلنگ اتنے شاعرانہ انداز میں یاد کرایے کہ میں اب تک ان کو انجوائے کرتا ہوں۔

Is اس   la لا      ma ما      bad  باد

اسلا ما باد

 فوجیوں کی ہر دو تین سال بعد پوسٹنگ ہوتی ہے ۔ اس کے ساتھ ان کے بچے بھی نئی جگہ جا کر نئے سکولوں میں داخل ہوتے ہیں۔ یونیفارم اور کتابیں تک بدل جاتی ہیں اور کبھی کبھی قومی ترانہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے جیسا کہ ہمارے بچوں کے ساتھ راولاکوٹ میں ہوا۔

 وطن ہمارا آزاد کشمیر آزاد کشمیر  

 وطن ہمارا آزاد کشمیر آزاد کشمیر  

باغوں اور بہاروں والا

دریاؤں کہساروں والا

آسمان ہے جس کا پرچم

پرچم چاند ستاروں والا

جنت کے نظاروں والا

جموں و کشمیر ہمارا

وطن ہمارا آزاد کشمیر آزاد کشمیر

وطن ہمارا آزاد کشمیر آزاد کشمیر

کوہستانوں کی آبادی

پہن چکی تاج آزادی

عزت کے پروانے جاگے

آزادی کی شمع جلا دی

جاگ اٹھی ہے ساری وادی

ضامن ہے اللہ تمہارا

وطن ہمارا آزاد کشمیر آزاد کشمیر

وطن ہمارا آزاد کشمیر آزاد کشمیر

  ہمارے بچے مختلف اسکولوں میں پڑھتے رہے۔ پی اے ایف سکول مسرور کراچی،پی اے ایف سکول چک لالہ،فوجی فاؤنڈیشن سکول راولاکوٹ،سن رائز سکول راولاکوٹ،علامہ اقبال سکول راولاکوٹ،گیریژن اکیڈمی کھاریاں،چنار اے پی ایس مری،ایف جی سکول مری،اے پی ایس سرگودھا،دار ارقم سرگودھا،دار ارقم واہ کینٹ،سرسید سکول واہ کینٹ،فوجی فائونڈیشن سکول راولپنڈی۔

 ہم نے تین سال راولاکوٹ اور تین سال مری میں قیام کے دوران خوب سیر ہو کر رج کے برفباری دیکھی ۔ نومبر کے مہینے میں عصر کے وقت سی ایم ایچ راولاکوٹ سے بیرونی گشت کے لئے کھڑک جا رہے تھے۔ ہمارے ساتھ ایک مقامی ساتھی فیض اللہ صاحب ہوٹل والے تھے۔ چلتے چلتے انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا اور خبر نشر کر دی ۔ آج برفباری ہوگی۔میں ان کی بزرگی کی وجہ سے  دل میں ہنسا  اور دل میں  کہا،خواہ مخواہ  راقم کو امپریس کر رہے ہیں۔ لیکن خدا کی شان اسی رات برفباری ہو گئی۔

  کھڑک میں پہلی بار  ایک نوجوان کو کشمیری فرن پہنے دیکھا۔ یہ ڈھیلا ڈھالا کرتا اس کو عام لباس کے اوپر پہنتے ہیں ۔بازو اس کے اندر رکھتے ہیں اور ضرورت کے وقت بازو باہر نکالتے ہیں۔

کشمیر، برفباری اور قومی ترانہ
Image by Ram Pangeni from Pixabay

  پروفیسر گردیزی صاحب راولاکوٹ والے اس پر فرمانے لگے   یہ برفباری قبل از وقت ہوئی ہے اور اس کو مقامی لوگ کہتے ہیں ،برفباری کی ابارشن ہو گئی ہے۔ ترُو پئی اے۔ اسقاط حمل ہوگیا ہے اس لئے اس دفعہ  برفباری روٹین سے کم ہو گی۔

 راولاکوٹ کوٹ میں اس پہلی برفباری کے بعد ایک ہاٹ ٹاپک تھا کہ کون سلپ ہو کر گرا ہے  ہاسپیٹل کے اندر ہی مکانات اور مسجد تھی۔جو گرتا اس کی فورا سب کو  خبر ہو جاتی۔ سی او صاحب گر گئے۔ میجر صاحب سلپ ہو گئے ۔ڈسپنسر صاحب  پُٹھے ہو گئے۔

 سلپ ہونے سے بچنے کے لئیے بوٹوں کے تلوے پر sole پر سائیکل کی ٹیوب کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے موچی سے لگوائے جاتے تھے۔اس کو بریک کہتے تھے اس کی وجہ سے تلوے کی سطح رف ہو جاتی تھی اور سلپ ہونے کے چانس کم ہو جاتے۔ جرابوں کو گیلا ہونے سے بچانے کے لئے ان کے اوپر شاپر چڑھا کر بوٹ پہنتے تھے۔ مری میں ہمارا گھر سی ایم ایچ سے تین سو میٹر دور تھا۔ایک دن اتنی شدید برفباری ہوئی کہ ہاسپیٹل جانا ممکن ہی نہ تھا۔سی او صاحب کو فون پر اطلاع کی تو فرمانے لگے ٹھیک ہے ہاسپیٹل نہ آئیں… لیکن گھر سے نہیں نکلنا۔

[email protected] | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

عبد العلیم صدیقی اور تیسری بساط

منگل اگست 29 , 2023
اس کاوش پر فرہاد احمد فگار یقیناً دادو تحسین کے مستحق ہیں کہ صدیقی صاحب جیسی قد آور ادبی شخصیت کے حوالے سے مواد کی نہ صرف جمع آوری کرنا
عبد العلیم صدیقی اور تیسری بساط

مزید دلچسپ تحریریں