ہمارے امام سجاد علیہ السلام اور نمازِ شب

ہمارے اعمال کو جب امام زین العابدینؑ دیکھتے ہوں گے تو بے ساختہ آپ کی زخمی آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہوگا۔ آپ کو بھائیوں کے قاتل بھی یاد آتے ہوں گے آپ کو وہ جابر یزیدی بھی یاد آتے ہوں گے جنہوں نے اہل بیت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیموں کو نذرِ آتش کیا آپ کو وہ بازار بھی یاد آتے ہوں گے جہاں حالت اسیری میں آپ کی پھوپھی جان اور دوسری مستورات کو پھرایا گیا آپ کو وہ زندان بھی یاد آتا ہو گا جہاں آپ کی چھوٹی بہن سکینہ نے بابا کی جدائی میں سسک سسک کر جان دی تھی۔ آپ کو وہ دربار بھی یاد آتا ہو گا جہاں آپ کے بابا کے پاک لبوں پر یزید جیسا فاسق شخص چھڑیاں مارتا رہا جن پر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسم بوسے دیا کرتے تھے ۔ اور یہ سب اس لیے یاد آتا ہو گا کہ ہمارے اعمال میں اچھائی کی قلت آپ کو رلاتی ہو گی کیونکہ آپ نے تمام مشکلات کے باوجود  اپنے عمل سے بتایا تھا کہ نمازی کی کیا اہمیت ہے ؟ نماز شب کی کیا عظمت ہے؟ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی ساری زندگی میں نماز شب کو کبھی ترک نہیں کیا اور حالت اسیری میں بھی فرض نمازوں کے ساتھ سنتیں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر ایک ہزار رکعت نوافل ادا کرتے تھے۔

          ہمارے اعمال کے اہل بیت عظام کے سامنے پیش ہونے کے متعلق ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادقؑ سے استفسار کیا کہ سرکار !  بتائیے کہ قرآن میں  اس کا تذکرہ کہاں ہے کہ پوری دنیا کے اعمال آپ کو ہر روز پیش ( اہل بیت عظام  کو) کیے جاتے ہیں تو آپ نے مسکرا کر جواب دیا کہ سورہ توبہ کی آیت نمبر 105 پڑھ تجھے پتہ چل جائے گا کہ قرآن نے جن مومنین کا ذکر کیا ہے کہ آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان مومنین کو عمل پیش کیے جاتے ہیں ۔ وہ مومنین کوئی اور نہیں بلکہ ہم اہل بیتِ رسولؐ  ہیں ۔

Alhamra
Image by aitorstudio from Pixabay

اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ شیعہ اثناء عشری اور اہل سنت جو آپ کے محبین میں شامل ہیں اللہ تعالٰی کے فرامین آنحضور کے ارشادات اور اہل بیت اطہار کے فرمودات کی روشنی میں نمازِ شب کو عشق و سرمستی ! جذب و کیف اور ذوق و شوق کی فراوانی کے ساتھ ادا کریں ۔ توشہء آخرت بنانے کے لیے ہمیں اہل بیت کی پیروی کرنی چاہیے ۔

توشہ ءآخرت کی بات کی ہے تو مولا علیؑ کا ایک راحت افروز اور مسرت  آفرین قول ذہن کے دریچوں پر  دستک دینے لگا ہے آپ نے ایک درہم اپنی ہتھیلی پر رکھا اور فرمایا ! یہ میرا نہیں ، جب میرے ہاتھ سے نکل جائے گا ، میرا ہو جائے گا مقصد یہ کہ جب یہ درہم رضائے الٰہی کے حصول کا موجب ہوگا اور  انفاق فی سبیل اللہ کی صورت اختیار کرے گا میرا ہو جائے گا ۔ اور  توشہء آخرت بن جائے گا۔

جبیں کا نور اور قلب کا سرور بڑھانے کے لیے نماز شب کا سہارا لینا ہر مومن پر قرض ہے جب رات کی تاریکی اور خاموشی میں مومن اللہ کی عظیم  ذات کے سامنے اشکوں کا نذرانہ اپنی پلکوں پر سجا کر گڑ گڑاتا ہے تو رب درد مندوں کی پکار سنتا ہے ، محروموں کو نوازتا ہے ۔ بن مانگے رزق عطا کرنے والا رب العزت کا  ارشاد ہے۔

امن یجیب المضطر اذا دعاہ و یکشف السوء

اللہ رب العزت اپنے سامنے جھکی ہوئی ایسی جبینیں جو ذوق و شوق و وارفتگی ، اور بیخودی سے اظہار کریں ، مرادوں کے پھول اور تمناوں کے گلزار عطا فرماتے ہیں ۔ نمازِ شب میں قرآن حکیم کے مقدس و معطر الفاظ کی تلاوت کا شرف حاصل کر کے “حسبنا اللہ ونعم الوکیل”  کا ورد کرنے والے کو اللہ تعالی بہت پسند فرماتا ہے۔ اور انسان کو وہ نعمتیں اور اجر عطا فرماتا ہے جسکا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا اس کی ادراکئی پر واز رب کی عطاوں تک نہیں پہنچ سکتی  اور وہاں پہنچنا نا ممکن ہے۔ عاجزی و انکساری کے بے بہا گوہر اور اشکوں کے انمول موتی لیے انسان جب بھی اس کی رحمت تلے آئے تو وہ رحمان ذات وہ رحیم ذات بلکہ غفور ذات انسان کی خطاوں کو معاف فرما کر اس کو قلبی مسرت عطا فرماتی ہے ایسا انسان جو اشکوں کا سمندر رخساروں پہ لیے رات کی تنہائیوں اور تاریکیوں میں اس کے آگے سجدہ ریز ہو پھر اس کو مانگنے کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا کی ساری چیزیں اسکی مطیع کر دیتا ہے ۔ لیکن اس کے لیے ذرا خودی کو بلند کرنا پڑتا ہے تسبیح و تہلیل میں آہوں اور سسکیوں کا بے کراں سمندر نچھاور کرنا پڑتا ہے تب کہیں ذاتِ خدا  انسان کو وہ چیزیں عنایت فرماتا ہے کہ انسان سمیٹے بھی تو سمیٹ نہیں سکتا۔ اللہ رب العزت پھر انسان کو مانگنے سے پہلے اپنی رحمت کی چھاوں میں لا کر ارشاد فرماتا ہے ۔ بقول اقبال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

   خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

بات کہاں سے کہاں نکل گئی حضرت زین العابدینؑ نے اپنے عمل سے اپنے محبین کو بتایا ہے کہ کسی صورت میں بھی نمازِ شب جیسی عظیم سنت ترک نہ کریں

hubdar qaim

سیّد حبدار قائم

کتاب ‘ نماز شب’ کی سلسلہ وار اشاعت

مستقل لکھاری | تحریریں

میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

کیمبل پور سے اٹک تک - 15

ہفتہ ستمبر 4 , 2021
کالج میں قدم رکھا ہی تھا کہ انجمن اتحاد طلباء یعنی اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن آگئے ۔ طلباء برادری تین واضح دھڑوں میں بٹ گئی ، چھاچھی گروپ ، قاضی خالد , احسن خان
Government Postgraduate College Attock

مزید دلچسپ تحریریں