غزہ کا میدان جنگ
کالم نگار: سید حبدار قائم
غزہ کی فضائیں بارود اور انسانی خون سے اٹی ہوئی ہیں انسانیت شرما رہی ہے بین الاقوامی انصاف کہیں دکھائی نہیں دیتا مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر ظلم و ستم روا رکھا گیا ہے اور اسے اس وقت تک نہیں روکا جا سکتا جب تک مسلمان اکھٹے نہیں ہوتے۔
اسرائیل جتنے ہتھیار بنا کر بیچتا ہے ان پر ” بیٹل ٹسٹڈ” کی مہر لگاتا ہے اور جو بھی نیا ہتھیار لانچ کرتا ہے اسے غزہ کی پٹی پر ئکر کے ٹسٹ کرتا ہے اس میں جتنے زیادہ مسلمان بچوں جوانوں اور عورتوں کے اجسام کے چیتھڑے اڑتے ہیں ہتھیار اتنا کار آمد سمجھا جاتا ہے اور بیٹل ٹیسٹد ہتھیار سب سے زیادہ مسلمان ملک لیتے ییں غزہ کی صورت حال دن بدن بگڑ رہی ہے مسلمان شہدا کے لہو کی مہک اور جلے ہوۓ بدن جگہ جگہ ملتے ہیں مسلمان حاکم اپنے عہدوں کے نشے میں چس لے رہے ہیں ایران کے علاوہ کسی اسلامی ملک کی فوجی قیادت ابھی تک سامنے نہیں آئی جس نے کہا ہو کہ اسرائیلیو ہم آ رہے ہیں یا ہمارا فائئر آ رہا ہے یہ بزدل ڈرے ہوۓ اپنے گھروں میں سہمے ہوۓ ہیں دوسری طرف اقوام متحدہ کی فوج ابھی تک جنگ رکوانے کے لے آگے نہیں بڑھی اور مجھے تو ڈر ہے کہ اگر فوج وہاں گئی بھی تو کہیں فلسطین کے خلاف نہ چلی جاۓ کیونکہ دہشت گرد مسلمان ہی دکھایا جاتا ہے ان کے بچے جوان اور عورتوں کے لاشے بھی نہیں دکھاۓ جاتے اور نہ ان پر افسوس کیا جاتا ہے اسرائیل نے غزہ کو بیٹل فیلڈ بنا رکھا ہے جب چاہے اپنے ہتھیار غزہ پر ٹسٹ کر سکتا ہے کبھی کسی مسلمان ملک نے بھی کہا ہے کہ ہم اسرائیل کی ناجائز ریاست کو بیٹل فیلڈ بنا کر اپنا میزائل داغنا چاہتے ہیں کیونکہ اپنے ہتھیاوں پر “بیٹل ٹسٹڈ ” لکھوانا ہماری بھی خواہش ہے۔
ہتھیاروں کی دوڑ میں یہودی سب سے آگے آگے ہیں مسلمانوں کے پاس ایک ہی ٹیکنالوجی ہے جو وہ اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں اور وہ ٹیکنالوجی ” ویڈیو لیک ہو گئ ہے” ہے غزہ کی صورتِ حال جتنی مرضی گھمبیر ہو جاۓ ہمارے میزائل خاموش رہیں گے کیونکہ ہمارے میزائل نمک حلال ہیں جن کا کھاتے ہیں ان کے گیت گاتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ یہودی قرض دیں گے تو ملک چلے گا نہیں تو ہم کنگال ہیں اور یہ صورتِ حال صرف پاکستان کی نہیں سب مسلمان ملکوں کی ہے جو ملک تگڑے ہیں اُن کے افراد صرف دوبئی کے ہوٹلوں میں حسن و شباب پر دولت لٹاتے ہیں انہیں غزہ کا یا امت مسلمہ کا کوئی درد نہیں ہے حضرت اقبال نے کہا تھا:۔
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
غزہ کی موجودہ صورتِ حال دیکھیں تو دنیا میں کہیں بھی مسلمان نظر نہیں آٸیں گے کیونکہ نہ ان میں کوئی قہاری ہے اور نہ ہی ان میں غفاری ہے نہ ان میں کوئی قدوسی ہے نہ ان میں جبروتی دکھائی دیتا ہے یہ چاروں صفات اللہ پاک کی ہیں اگر کوئی کلمہ گو ان صفات کا مالک ہو تو اسے مسلمان کہتے ہیں۔
فلسطین میں مسلمان سسک رہے ہیں اسرائیلی جنگی طیاروں کی الشفا ہسپتال کے گیٹ پر شدید بمباری سے 60 سے زائد فلسطینی شہید اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں اس لیے وہاں ایندھن کی کمی کی وجہ سے ہسپتال کا نظام تباہ ہوگیا ہے زخمی افراد طبی امداد کے منتظر ہیں اردگرد کے مسلمان اس دہشت گردی پر خاموش بیٹھے ہوۓ ہیں اگر یہ سارے بزدل لڑ بھی نہیں سکتے تو کم از کم غذائی اجناس اور طبی امداد تو بھیج سکتے ہیں اس ساری صورت حال میں جہادی تنظیم حماس امت مسلمہ میں واحد روشنی کی کرن ہے جو تا دم جہاد میں سرگرمِ عمل ہے اور غزہ کا دفاع کر رہی ہے باقی مسلمان لمبی لمبی دعائیں کر رہے ہیں حالانکہ جانتے ہیں ک دنیا دارالعمل ہے یہاں وہ ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑتا ہے جو جہد مسلسل پر یقین رکھتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ 1192 میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے رچرڈ کو جب شکست دی تھی تو رچرڈ اپنے گھوڑے سے گر گیا تھا ایوبی نے اپنی فوج سے اسے گھوڑا دیا اور مقابلہ کرنے کے لیے دعوت دی لیکن وہ خوف کے مارے بھاگ گیا تھا اور اسی سن میں شہاب الدین غوری نے پرتھوی راج کو شکست دی تھی ہمارے اسلاف بہادر تھے لیکن ہم انتہائی بزدل نکلے ۔
سنا ہے ایرانی مجاہد تنظیم حزب اللہ والے حرکت میں آۓ ہیں اور اسرائیل کے خلاف اعلان جہاد کر دیا ہے میری باقی مسلمانوں سے گزارش ہے کہ وہ بھی آگے بڑھیں اور مسلمانوں کا قتلِ عام روکیں۔ جنگ روکنے کی کوشش کی جاۓ اگر نہیں رکتی تو غزا کا میدان یہودیوں کا قبرستان بنا دیا جاۓ تاکہ وہ مسلمانوں کا خون اتنا سستا نہ سمجھیں اور کسی کی دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہ ہو۔
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔