مریض کا معائنہ اور اسکی مجموعی علامت کا لینا

تحریر :ڈاکٹر قاری محمد یاسر اعوان

D.H.M.S/R.H.M.p Registration Numbar 171272

ہومیو پیتھی کا ایک ماہر ترین ڈاکٹر اگر مریض کا معائنہ ٹھیک ٹھیک کیا جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ مریض نصف حصہ شفایاب ہو چکا ہے؛ہومیو پیتھی میں یہ ضروری ہے کہ معالج معمولی نسخہ لکھنے کیلئے بھی بہترین حالات دریافت کرے جو دوسرے طریقہ ہاۓ علاج میں ضروری نہیں ہوتے ۔ہومیو پتھک معالج کو مریض کے جذبات دماغی کیفیت ،جسمانی حالت ،مجسلی تعلقات اور روحانیت وغیرہ پر غور کرنا چاہئے اور مریض کے ان حالات کو دریافت ومعلوم کرنے کافی وقت صرف کرنا چاہئے ۔کوئ نسخہ بھی چاہئے وہ حاد مرض کیلئے ہو یا مزمن کیلئے حالات متذکرہ صدر کی جانچ کے بغیر نہیں کرنے چاہئے ۔فرض کرلیجۓکہ ایک نیا مریض آپ کے Clinicمیں آتا ہے تو آپکو ان طریقوں کی پیروی کرنا چاہئے :1معالج کو ایک فوٹو گرافر کی پلیٹ کی طرح صاف اور سادہ ہونا چاہئے تاکہ ہوبہو مریض کی تصویر کاعکس معالج کے دماغ میں آسکے۔اسی واسطے معالج کو تمام خیالات وجذبات سے اپنے آئینہ دل صاف کر دینا چاہئے :فرمایۓجناب ! کیسے آنا ہوا ؟ اس کے بعد معالج کو بلکل چپ چاپ بیٹھ جائے ۔2 معالج کو چاہئے کہ اپنے طریقہ پر مریض کو اپنے حالات بیان کرنے دے ۔اس کو ہر گز بھی درمیان میں نہ روکے اور نہ کسی قسم کے کوئی سوال دریافت کرے،ورنہ مریض تمام باتوں کو یا ان میں سے کسی ایک بات کو بھول جائے گا۔ اس لیۓ معالج کو کئ ایک ضروری باتیں معلوم ہونے سے رہ جائیں گئ جو پوشیدہ نہ رہتیں ،اگر قطع کلام نہ کیا جاتا۔3معالج کو چاہئے کہ جیسے ہی مریض Clinick میں داخل ہو مریض کی طرف بغور دیکھے جس سے معالج مریض کی شحصیت دماغی کیفیت مثلاً مریض کی شرمیلی نگاہیں ، شکوک ،ڈر خوف اور غصہ وغیرہ جسمانی حالات مثلاً چال چہرہ ،مہرہ سانس کی تنگی وتیزی وغیرہ مریض کے چال چلن مثلاً پوشاک صفائی ،غرور حلم وغیرہ صحیح حالت کا اندازہ اسکے احوال کہنے سے پہلے معلوم کرسکے ۔مطب اسطرح کا ہوناچاہئے کہ جب مریض معالج کے چہرہ پر پڑسکےنہ کہ اندھیرے میں رہے اور ڈاکٹر روشنی میں ۔4 ڈاکٹر کو چاہئے مریض کے ضروری بیان کو مریض کے ضروری بیان کو مریض کے ہی الفاظ میں نوٹ کرتا جائے ۔اسکے ساتھ ساتھ وہ اپنے مشاہدات بھی قلم بند کرتا رہے ۔مگر یہ خیال رہے کہ جس کاغذ پر معالج مریض کے حالات لکھے اس کاغذ میں کافی حاشیہ چھوڑ دے تاکہ اگر مریض کسی گزشتہ یعنی بتائی ہوئ حالت کو دوبارہ بیانان کرنا شروع کرے تو حاشیہ اس کا بیان آسکے۔5جب مریض اپنا بیان ختم کر چکے تو معالج کو چاہئے کہ وہ مریض سے پوچھے :اور کچھ فرمایۓ ، اس کے بعد معالج چند لمحہ تک خاموش رہے۔اسی اثنا میں مریض دوبارہ غور وفکر میں پڑجایا کرتے ہیں اور بعض اوقات نہایت مفید مطلب باتیں بتایا کرتاہے اور اگر مریض دو چار لفظ بول کر اپنی تکلیف کا خاتمہ کر دے تو معالج نہایت ہوشیاری کے ساتھ اپنی براری کی خاطر سوالات کرنے شروع کر دے اور ایک ایک بات کو کئ کئ بار ہیر پھیرے سے پوچھے تاکہ مریض اپنے دل میں کوئی بات چھپانہ سکے اور اگر مریض باتونی ہو تو معالج کو چاہئے کہ ہوشیاری سے اسکو اپنے راستہ سے ہٹنے نہ دے۔ 6۔جب مریض اپنی رام کہانی مکمل اور مفصل بیان کرچکے تو مریض کی مجموعی تصویر کے مطابق ادویات کی کمی وبیشی دیگر مخصوص علامت کے متعلق چند سوالات ڈاکٹر کو کرنے چاہئیں اسطرح سے مریض سے مطلب بھی حل ہو جاتا ہے اور مریض بھی خوش ہو جایا کرتاہے۔7 ۔اگر مریض بحالت درد یاتکلیف کے نہ ہوتو مریض کی مزید تسلی کیلئے مریض کو 24گھنٹے کاقارورہ لانے کی ہدایت کرنا چاہئے اس میں شک نہیں کہ ایسی چیزوں کی ہومیوپیتھی میں بہت کم ضرورت ہوا کرتی ہے مگر چونکہ ایسا کرنے سے مریض کی تسلی ہو جاتی ہے اور مریض سمجھتا ہے کہ ڈاکٹر اسکے ساتھ کما حقہ ہمدردی کر رہاہے اس لئے یہ باتیں ضروری ہیں مگر سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کرتاہے کہ وقت مل جانے سے معالج مریض کے حالات کے مطابق دوا کا انتخاب اچھی طرح کرسکتا ہے ۔8 معالج کو چاہئے کہ جس قدر ضروری امور مریض کے متعلق کاغذ پر لکھے ہیں ۔ان سبکو فرداً فرداً مریض سے پھر دہرائے کیونکہ بعض اوقات ایسی باتیں رہ جاتی ہیں جو دوا کے انتخاب کیلئے نہایت ضروری ہوا کرتی ہیں ۔جب معالج کے خیال میں مریض سب کچھ بتا چکے تو ہر ایک کی کمی وزیادتی وقت وغیرہ کے متعلق مریض سے سوالات کرنے چاہیں ۔مثلا ایک امر یہ ہے کہ شکم میں درد تو اس کے متعلق یہ دریافت کرنا لازم ہے کہ آیا اس درد کے ساتھ کوئی کھانے یا بھوکا رہنے کا تعلق ہے؟درد کہاں سے شروع ہو کر کدھر کو جاتا ہے؟ درد کے ساتھ باقی کیفیتیں کیا ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔جب ہر ایک امر کو دریافت کرچکے تواپنے نوٹ کیۓ ہوئے امور پر غور کرے اور اچھی طرح دیکھ کہ کوئی بات کمی و بیشی دماغی کیفیت مخصوص علامات مریض کی طبیعت وغیرہ باقی نہیں رہ سکتی ہے۔9 یہ خیال رہے کہ معالج مریض پر سیدھے سادے یا صاف لفظوں میں اسطرح سے سوال نہ کرے کہ جس سے مریض صرف ہاں یا نہیں جواب دے کر رہ جائے کیونکہ اس قسم کے سوالوں سے مریض کی غلط رہنمائ ہو جاتی ہے اور معالج اصل اور ٹھیک ٹھیک حالات سے محروم رہ جاتا ہے ڈاکٹر کو یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ حالات دریافت کرتے وقت وہ مریض سے ایسے سوالات نہ کرے جس سے مریض کو انہی سوالات کے الفاظ میں سے جواب دینے کا خیال پیدا ہو ۔اگر معالج کے دل میں مریض کے قصہ کے عکس میں سے کوئی دوخیال میں آجائے تو معالج کو چاہئے کہ مریض سے اس دوا کی علامت بلکل الٹے طریقے سے دریافت کرے مثلاً پلساٹیلا میں پیاس نہیں ہوتی تو اس کو یوں دریافت کرناچاہئے کہ غالباً آپکو پیاس تو بہت لگتی ہو گی وغیرہ وغیرہ ۔10.دماغی علامت اور مریض کی اپنی علامت یعنی مریض کی طبعیت کے متعلق آخر میں دریافت کرنی چاہئے جب مریض کو یہ اچھی طرح یقین ہو جائے کہ مریض اس پر پورا اعتبار کرنے لگا ہے اس بات کا خاص خیال رہے کہ یہ علامت بہت ہوشیاری سے لی جاتی ہیں اور ان علامت میں مریض کے جذبات غم وغصہ سے پیدا شدہ تکالیف نفرت ومحبت کے نتائج عرصہ تک نفس کو روکنے یا کثرت مباشرت کے اثرات مابعد وغیرہ شامل ہوتے ہیں اور یہی علامت نسخہ تجویز کرنے کیلئے ذیادہ مدد گار ہوا کرتی ہے ۔اگر پالیسی سے مریض سے نہ پوچھا تو عموماً انسانی خاصہ کہ بموجب مریض چھپا جاتے ہیں ۔۔

qari yasir awan

ڈاکٹر قاری محمد یاسر اعوان

D.H.M.S/R.H.M.p Registration Numbar 171272

مدیرہ | تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

حضرت امام حسینؑ کا عظیم سجدہ

جمعہ مارچ 18 , 2022
ہمارے امام حسینؑ نے شبِ عاشور کا ایک حصہ نماز شب کے لیے وقف کر دیا تھا۔ امام جانتے تھے کہ میرا آج کا عمل آنے والے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہوگا
حضرت امام حسینؑ کا عظیم سجدہ

مزید دلچسپ تحریریں