دبئی خوانیج2، اور بس نمبر 11A

دبئی خوانیج2، اور بس نمبر 11A

Dubai Naama

دبئی خوانیج2، اور بس نمبر 11A

ان پر کالم تو ملاقات سے پہلے ہی لکھ دیا تھا۔ لیکن بالمشافہ ملنے کا اشتیاق اس لئے بھی زیادہ تھا کہ انہوں نے ایک بدیسی زبان میں اردو شاعری کی 100کتابیں لکھی تھیں۔ میں ویسے بھی کسی کی دعوت نہیں ٹھکراتا ہوں۔ لیکن خوانیج2 کے بارے سنا تھا، وہاں جانے کا اتفاق کبھی نہیں ہوا تھا۔ ڈرائیونگ لائسنس میرے پاس تھا نہیں، ایک دوست سے لفٹ مانگی تو اس نے اتوار کی بجائے پیر کو چلنے کا کہا۔ مسئلہ یہ تھا کہ لوکیشن ڈھونڈنے کے لئے مجھے گوگل کرنا بھی نہیں آتا تھا، اوپر سے میرے فون میں نیٹ بھی نہیں تھا۔ پہلے میں ڈیرا دبئی میں میٹرو “یونین سٹیشن” پر گیا، وہیں پر بس سٹاپ بھی تھا۔ میرے فون میں “کلر نوٹ” ہے، میں نے مطلوبہ جگہ کے دونوں روٹ لکھ لیئے مگر میری تسلی پھر بھی نہیں ہوئی۔ میری ان سے ملاقات کا وقت 3ستمبر، بروز اتوار 4بجے طے تھا۔ لیکن میں نے یہ ساری ریہرسل ایک روز پہلے 2ستمبر بروز ہفتہ ہی کو شروع کر دی۔ میں یونین سے پیدل چلتے ہوئے گولڈ سوک کے جنکشن بس سٹاپ پر پہنچا۔ وہاں سے پتہ چلا کہ بس 11A خوانیج2 کے ایریا میں ڈراپ کرے گی جہاں سے پندرہ بیس منٹ کا سفر مجھے پیدل چلنا ہو گا۔ تاہم اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ تھا، جس کا مجھے واپسی پر پتہ چلا کہ 11A ایک ہی نمبر کی دو بسیں ہیں مگر ان دونوں کے روٹ مختلف ہیں۔ ایک بس گولڈ سوک بس سٹیشن سے چلتی ہے جو خوانیج2 جاتی ہے اور ایک بس یونین بس سٹاپ سے چلتی ہے جو راشدیہ میٹرو سٹیشن تک جاتی ہے۔ لیکن ایک ہی نمبر کی یہ دونوں بسیں میرے گھر واقع فش راونڈ ابوو’ٹ سے کچھ دور میٹرو یونین سٹیشن کے سامنے سے گزرتی ہیں۔

میری شامت آئی کہ ایک روز قبل یہ ساری جان کاری لینے کے باوجود میں اگلے دن (یعنی 3ستمبر بروز اتوار) اس بس نمبر 11A پر سوار ہوا جس کا آخری سٹاپ راشدیہ میٹرو سٹیشن تھا۔ حالانکہ یونین اور گولڈ سوک دونوں بس سٹاپ کے کمپیوٹر پرسنز نے مجھے گوگل میپ کر کے سمجھایا تھا کہ مطلوبہ جگہ پر پہنچنے کے لئے زیادہ مناسب روٹ کونسا ہے۔ اس کے باوجود کہ کسی ایک سے غلطی یہ ہوئی یا مجھے سمجھنے میں غلطی لگی کہ خوانیج2 کو جاتے وقت (آتے وقت نہیں) گرین لائن کے آخری میٹرو سٹیشن سے بس34 پکڑنی ہے جو خوانیج2 لے کر جائے گی اور جہاں سے مجھے کچھ وقت کے لئے ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی کے ویلا تک پہنچنے کے لئے پیدل چلنا پڑے گا (یہ ایک متبادل روٹ تھا جو مجھے بتایا گیا)۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ اس کے بعد اگلے دن میرے ساتھ جو ہوا اس کا بیان اردو کے اس شعر میں ملتا ہے،
“وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا، پھر اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔” اس روز جب میں اپنی مطلوبہ منزل پر بلآخر پہنچا تو یہ سفر پیدل چلنے کی وجہ سے تھکاوٹ سے چور چور کوئی “فلسفیانہ پہیلی” لگتا تھا یا یہ مختصر سا سفر میرے لئے اتنا مشکل مسئلہ ثابت ہوا کہ اس سے زیادہ مشکل مسئلہ “مسئلہ فیثا غورٹ” بھی نہیں تھا جسے ہم سکول کے زمانے میں ایک بار بھی حل نہیں کر سکے تھے۔

ڈاکٹر زبیر فاروق کے ویلا پر پہنچنا میرے لئے درحقیقت: Do or not to do
والا “مخمصہ” تھا۔ میں یونین سے 11A پر بیٹھا اور جب بس آخری سٹاپ راشدیہ پر رکی تو ڈرائیور نے بتایا کہ میں راشدیہ سے یونین میٹرو سٹیٹشن پر جاو’ں اور وہاں سے ایتیصلات جاؤں اور وہاں سے بس34 پکڑوں جو مجھے خوانیج2 لے کر جائے گی۔ میں واپس یونین میٹرو سٹیٹشن پر پہنچا (جہاں سے میں چلا تھا)، وہاں سے ایتیصلات اور پھر خوانیج2 پہنچا۔ میں گھر سے صبح 11بجے نکلا تھا جو بذریعہ کار صرف 30منٹ کا سفر ہے۔ ڈاکٹر زبیر صاحب سے ملاقات کا وقت شام 4بجے کا تھا۔ جبکہ میں خوانیج2 میں ہی 4بجے پہنچا۔ اس ایریا میں دور دور تک کوئی مارکیٹ نہیں تھی، سڑکوں پر اکا دکا لوگ بھی خال خال تھے، زیادہ تر بند پڑے خالی ویلے تھے یا سکوٹروں پر گھومتے “طالبات” کے “ڈلیوری بوائز” تھے۔ میں نے خوانیج2 کی سٹریٹ181 میں واقع ویلا99 (سٹریٹ اور ویلا نمبرز فرضی ہیں) میں جانا تھا مگر اس پتہ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھے شام کے 6بج گئے۔ یہ ویلاز کا تعمیر ہونے والا نیا علاقہ تھا، ابھی کچھ گلیوں کے نمبر بھی نہیں لگے تھے یا لگے بھی تھے تو وہ دوسرے کونے سے شروع ہوتے تھے۔ حتی کہ کچھ ڈلیوری بوائز کو گوگل کرنے سے بھی پتہ نہیں چل رہا تھا کہ شارع181 کدھر ہے یا ویلا99 کہاں پر واقع ہے۔ اب ویسے بھی نماز مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ جب اندھیرا چھانے لگا تو میں نے تھک ہار کر واپس جانے کا پروگرام بنا لیا مگر اب ایک اور طرز کا مسئلہ درپیش تھا، میں نے گھر واپس جانے کے لئے نظر دوڑائی تو دور دور تک 11A کا بس سٹاپ تھا اور نہ ہی کوئی پرائیویٹ ٹیکسی نظر آ رہی تھی (جاری ہے):
اِس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں،
آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں (ناصر کاظمی)۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سوچو ذرا۔۔۔!

پیر ستمبر 4 , 2023
بجلی کے بلوں کو جلانے کے فوٹو سیشن کے مرحلے سے بھی أگے بڑھ کر بل نہ جمع کرانے کم منزل پہ پہنچنے کی جستجو میں ہیں
سوچو ذرا۔۔۔!

مزید دلچسپ تحریریں