حالیہ عہد کے بلبل اردو، اماراتی شاعر فاروق العرشی

حالیہ عہد کے بلبل اردو، اماراتی شاعر فاروق العرشی

حالیہ عہد کے بلبل اردو، اماراتی شاعر فاروق العرشی

جب 1974ء کے آخری عشرے میں ڈاکٹر زبیر فاروق دبئی (متحدہ عرب امارات) سے کراچی یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس (Mbbs) ڈاکٹر بننے گئے تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ اردو زبان و ادب کے عشق میں مبتلا ہو جائیں گے۔ 1977ء میں انہوں نے میڈیکل کی ڈگری مکمل کی۔ 1978ء میں سول ہسپتال کراچی میں ہاو’س جاب شروع کی۔ اسی دوران انہیں اردو شاعری کا شوق چرایا اور ان کی پہلی غزل انڈیا میں حیدر آباد اور بنگلور سے شائع ہوئی۔ جب ڈاکٹر زبیر فاروق نے “علامہ اقبال آرٹس آڈیٹوریم”، لاہور میں پہلے مشاعرے میں شرکت کی تو احمد ندیم قاسمی کے شاگرد استاد شفیق سلیمی نے ان کے اندر موجود جوہر قابل کو بھانپ لیا اور انہیں اپنی شاگردی میں لے لیا۔ ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی کی اردو شاعری کی پہلی کتاب، “پاس کوثر” کے عنوان سے 1985 میں لاہور سے پبلش ہوئی تو انہوں نے اردو شاعری اور اردو زبان و ادب ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔

حالیہ عہد کے بلبل اردو، اماراتی شاعر فاروق العرشی
ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی – تصویر بشکریہ فیس بک

ابراہیم ذوق نے شائد ڈاکٹر زبیر فاروق کی اردو سے محبت کو دیکھتے ہوئے بہت پہلے کہا تھا کہ،

“اے ذوقؔ دیکھ دختر رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی”

چند ماہ قبل جب لاہور سے “قلم فاﺅنڈیشن” کے چیئرمین علامہ عبدالستار عاصم نے ڈاکٹر زبیر فاروق کا زکر کیا تو سچی بات ہے ان کا یہ تعارف میرے علم میں نہیں تھا۔ میں نے موصوف کا پورا نام لکھنے کی بجائے غلطی سے صرف “لوکل” لکھ کر فیڈ کیا تھا۔ کل جب اتفاقا ان کا ٹیلیفون نمبر سامنے آیا تو میں نے وٹس ایپ پر انہیں میسج بھیجا۔ اس کے بعد کیا تھا کہ مجھ پر “اردو دبستان” کا در کھل گیا۔ حکومت پاکستان نے ڈاکٹر زبیر فاروق کو ان کی اردو زبان میں 46ویں کتاب پر 2013ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ آج کی تاریخ تک ان 10سالوں میں اردو شعر و ادب اور اس کی ترویج پر ان کی 100کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ڈاکٹر زبیر فاروق ایسی اردو دان شخصیت ہیں کہ جن کی اپنی مادری اور قومی زبان “عربی” ہے، جس کے فخر و استبداد میں اہل عرب باقی زبانیں بولنے والوں کو ان کی تہی دامنی کی وجہ سے “گونگے” کہتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر زبیر فاروق سے بات کرتے کرتے وقتی طور پر میں بھی اردو زبان کے تفاخر میں مبتلا ہو گیا۔ بقول داغ دہلوی کہ:

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے

اردو زبان اپنے آغاز میں براعظم ہند کی فوجیوں کی بولی ہونے کی وجہ سے “لشکری زبان” کہلاتی تھی جس میں سنسکرت، فارسی، عربی، ہندی، اور دیگر مقامی زبانوں کے الفاظ آسانی سے شامل ہو جاتے تھے۔ یہ کسی بھی زبان کی ایسی اعلی خوبی ہے جو اس کی وسعت پذیری اور شیرینی کی علامت ہے جیسا کہ اردو کے یہ دو شعر اپنا رنگ دکھا رہے ہیں، “فضا کیسی بھی ہو وہ رنگ اپنا گھول لیتا ہے
سلیقے سے زمانے میں جو اردو بول لیتا ہے

(سلیم صدیقی)۔ سلیقے سے ہواو’ں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں (نامعلوم)”

گزشتہ 14سال کے دوران دبئی میں اردو کی کچھ تقریبات اور مشاعروں میں جانے کا موقع ملا مگر وہاں میں نے ڈاکٹر زبیر فاروق کو کہیں نہیں دیکھا تھا۔ ڈاکٹر زبیر فاروق صاحب نے اردو ادب سے جتنے شوق و جنوں کا اظہار کیا اتنا میں نے ان اردو بولنے اور اس سے شغف رکھنے والے پاکستانیوں میں بھی نہیں دیکھا، جن کی منہ بولی زبان اردو ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اردو ادب سے میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے مجھے دبئی خوانیج میں واقع اپنے گھر کا پتہ بھیجا اور وہاں آنے کی دعوت دی۔ اس پر مستزاد انہوں نے مسلمانوں کے “تعلیمی احیاء” اور دنیا میں اردو زبان کی “ترویج و اشاعت” کے لئے بھی حامی بھر لی، حالانکہ ہمارے اہل زبان اس میدان میں کام کرنے کے حوالے سے گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں بلکہ اس شوق کو دفن ہی کر چکے ہیں:
“کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے،
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے (رئیس امروہی)۔”

ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی، متحدہ عرب امارات کے شہری ہیں مگر ان کا ذریعہ اظہار اردو زبان ہے جس پر ان کی کتابوں کی ایک سینچری مکمل ہو چکی ہے۔ ان کے کلیات میں کچھ شعری مجموعے “رغبتیں”، “سلوٹیں”، “باغ بہشت”، “دیار ستم”، “خاموشی بنی سرگوشی” اور “بھولی ہوئی بولی” وغیرہ شامل ہیں۔ وہ اردو کی مزید کتب لکھنے میں مصروف ہیں، ان کے کلام سے کچھ اشعار ملاحظہ کریں:
کیا کیا میرے ساتھ ہوا ہے، توبہ ہے
دل کا اور بھی درد بڑا ہے، توبہ ہے
آنکھوں والے پیچھے پیچھے چلتے ہیں
اندھے کے ہاتھوں میں دیا ہے، توبہ یے!

وہ اپنی عادتیں یکسر بدل بھی سکتا تھا
رہ وفا میں مرے ساتھ چل بھی سکتا تھا۔
اسی نے آگ جلائی تھی مجھ میں الفت کی
اسے خبر تھی میں چپ چاپ جل بھی سکتا تھا۔

محمدﷺ کا نواسہ کربلا میں،
مدینے سے ہے پہنچا کربلا میں۔
ستم کے سامنے سینہ سپر ہے
علیؑ کا خانوادہ کربلا میں

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

دعائے قنوت

بدھ اگست 30 , 2023
مدینہ منورہ میں چھ سات ڈاکٹر صاحبان اکٹھے تھے نماز کا مذاکرہ / سننا سنانا شروع کیا ۔ باری باری ہر ایک نے نماز سنائی
دعائے قنوت

مزید دلچسپ تحریریں