محمد ساجد سے گفتگو

انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات ۔کاہنہ (لاہور)

محمد ساجد صاحب،کاہنہ(لاہور)

انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول، بھکر

سوال : آپ کا مختصر تعارف ۔؟
جواب۔ میرا نام محمد ساجد ہے اور یہ ہی میرا قلمی نام ہے۔ میری پیدائش 11 اپریل 1983ء کو بنگلہ بستی کاہنہ نو ضلع لاہور میں ہوئی۔اب یہ گلی سابق چیرمین کاہنہ (حاجی بشارت رحمانی صاحب) کاہنہ نے ایک نوٹیفکیشن کے تحت میرے نام “ساجد سٹریٹ” منسوب کر دی ہے۔ میرے والد کا نام محمد اشرف ہے ۔ ہمارا خاندان فن پہلوانی سے وابستہ رہا ہے ۔ میرے آباء کا تعلق بابا بلھے شاہ جی کے شہر قصور سے ہے اور اس نسبت سے اہلیان کاہنہ ہم کو قصوری کہتے ہیں۔

محمد ساجد سے گفتگو


سوال : اپنے گاؤں کے نام” کاہنہ” کا مطلب بتائیے گا ۔؟
جواب : اردو لغت کے مطابق کاہن ، جادوگر کو کہتے ہیں مگر لوک روایت کے مطابق میرے قصبہ ایک سکھ سردار کاہن سنگھ نے آباد کیا تھا۔
سوال : آپ کی شاعری کا موضوع کیا ہے ۔؟
جواب : انسانیت ، محبوبیت ، احساسیت اور سماجیت ۔
سوال : ماشاءاللہ آپ ماہرِ تعلیم بھی ہیں۔ یہ پیغمبرانہ پیشہ ہے اس پر تھوڑی روشنی ڈالیں۔؟
جواب ۔ معلم کا پیشہ پیغمبری پیشہ ہے ۔ یہ بہت ذمہ داری کا تقاضہ کرتا ہے ۔ نسل نو کی تعلیم و تربیت کا سارا دارو مدار استاد پر ہے ۔ اگر استاد اپنے منصب سے غافل ہے تو سمجھ لیجیے کے نسل نو اور معاشرے کا تباہ ہونا لازمی امر ہے ۔سو ، اس پیشے میں ان لوگوں کو آنا چاہئے جو بغیر کسی لالچ اور طمع کے انسانیت اور پاکستانیت کے لئے کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہو ، اس کو کاروبار نہیں بلکہ معمار قوم کی حیثیت سے لے کر چلیں۔
سوال : آپ کی تصانیف ۔؟
جواب ۔ میں اب تک چودہ کتب تخلیق کر چکا ہوں ۔
سوال : کیا نام بتانا پسند کریں گے ۔ ؟
جواب : جی ہاں ضرور ۔
(1)نائین الیون ،حقیقت سے اردو افسانے تک
(2) شہر دل میں آوارگی
(3) محبت، موسم اور جاناں
(4)کاہنہ کہانی
(5)لاہور میں محبت
(6)تاریخ پانڈوکی
(7)اتہاسک جیابگا
(8)تاریخ کاہنہ
(9)تاریخ شہزادہ
(10)نائین الیون کے اردو افسانے پر اثرات
(11)ادبی تاریخ جیابگا
(12)کہنیامثل اور حاکمان پنحاب
(13)ادائے قلندر
(14)لہور دے پنڈاں دی وار
ان میں سے زیادہ کتب تاریخ کے حوالے سے لکھیں گئیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دھرتی ماں کے دیہات کےحوالے سے تحقیقی کام بہت کم ہوا۔ سو، میں نے لاہور ، قصور کے دیہات پر خاص طور پر تحقیقی کام کیا مضامین ، مقالات اور کتب تحریر کیں ۔ دھرتی کی عوامی تاریخ کو کھنگالنے کی کوشش کی۔
سوال : کتاب کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے اور رہے گی۔ اس پر اظہارِ خیال فرمائیں۔؟
جواب۔کتاب کی اہمیت ایک مسلمہ امر ہے یہ کسی دور میں بھی کم نہیں ہوسکتی ۔ امریکا، یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں کتب بینی کا رجحان آج بھی ہے ۔ وہاں کی گورنمنٹ اس کے فروغ کیلئے بہت سرمایہ خرچ کرتی ہیں مگر افسوس ہمارے ملک میں فروغ کتاب اور اشاعت کتاب کے لئے نہ ہی کوئی فنڈ مختص کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ یہ بہت افسوس کن امر ہے۔ میں گورنمنٹ آف پاکستان سے درخواست ہے کہ اس احسن کام کی طرف توجہ دے ۔
سوال : لاہور ہمیشہ سے علم و ادب کا مرکز رہا ہے اور عالمی شہرت یافتہ شہر ہے ۔ آپ لاہور قریب کاہنہ نو میں رہتے ہیں ۔ یہاں ادبی ماحول کیسا ہے۔؟
جواب ۔ لاہور صدیوں پرانا شہر ہے جس کی اپنی ایک الگ تہذیب وثقافت ہے۔ عروس البلاد شہر لاہور میں علمی و ادبی سرگرمیاں بھی صدیوں سے جاری ہیں۔ کاہنہ نو شہر لاہور کا ایک مشہور و معروف قصبہ ہے ۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہاں ادبی سرگرمیاں بہت محدود سطح تک ہیں۔ میں نے یہاں فروغ ادب کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھا ہوا ہے ۔ امید ہے کہ آنے والے چند سالوں میں یہاں ادبی ماحول بہت بہتر ہو گا اور میری محنت رنگ لائے گی ۔
سوال : ماشاءاللہ آپ نوجوان ہیں اور آپ کے ادبی جذبے بھی جوان ہیں آپ کو کیسا لگتا ہے۔؟
جواب ۔ تخلیق تو انسان کی گھٹی میں ہوتی ہے ۔ میں اللّٰہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھ علم اور قلم کی دولت سے نوازا اور مجھے بہ طور ادیب اور شاعر معاشرے میں ایک مقام بنانے کا موقع ملا ۔ میں اپنی مثبت سوچ کو ادبی تخلیقات کے لئے بروئے کار لا رہا ہوں اور لاتا رہوں گا ۔ انشاءاللہ ۔
سوال : آپ دور حاضر میں کس ادبی شخصیت سے متاثر ہیں۔؟
جواب : میں اپنے اورینیٹل کالج ، پنجاب یونی ورسٹی ،اولڈ کیمپس کے اساتذہ کرام ڈاکٹر ضیاءالحسن صاحب ، ڈاکٹر ناصر عباس نیر صاحب اور پروفسیر صابر لودھی صاحب جیسی شخصیات سے بہت متاثر ہوں ۔ یہ شخصیات ادب میں میری آئیڈیل ہیں۔
سوال : آپ نے فروغِ ادب کے لیے کون سا منفرد کام کیا۔؟
جواب : ادب میں اپنی ناول “لاہور میں محبت ،،کو ٹائم فکشن لحاظ سے تخلیق کیا اس طرح تاریخ جیسے خشک ، پچیدہ اور دقیق موضوع کو آسان ، مدلل اور عوامی انداز میں ڈھالنے پر فخر محسوس کرتا ہوں ۔بلکہ پنجاب کے دیہاتوں پر جو تحقیقی کام کیا اس کو ایک نئی صنف “مائیکرو ہسٹری”کے کلیشے کے تحت لکھا۔
سوال : پاکستان میں افسانہ کم اور شاعری بہت زیادہ تخلیق ہو رہی ہے اس کی کیا وجہ ہے۔ ؟
جواب : شاعری ،افسانے سے قدرے آسان تخلیق ہے۔شاعری میں اہم کام شعر کو موزوں کرنا ہے جب کہ افسانے کو ایک خاص تکنیک کے تحت ہی لکھا جا سکتا ہے ۔سو،افسانہ واقعی ہی ایک پچیدہ عمل ہے۔
سوال : کہا جاتا ہے کہ شاعری سچ بولتی ہے۔ آپ کیا کہیں گے۔؟
جواب : وہ شاعری جو تخلیقی عمل سے نمود پاتی ہے وہ سچی ہو یا نہ ہو ، یہ ایک الگ بحث ہے ہاں البتہ اس میں ایک آفاقی سچائی موجود ہوتی ہے ۔

sajid kahna


سوال : اعزازات کے بارے میں بھی بتائے گا؟
جواب : کسی بھی ادیب اور شاعر کے لئے سب سے بڑا اعزاز اس کے قارئین ہوتے ہیں جو اس کی لکھت کو پڑھتے ہیں اس پر اپنی آراء دیتے ہیں اس پر تحریری یا زبان تنقید کرتے ہیں ۔ یہاں تک ادبی تنظیمات کی طرف سے اعزازت کی بات ہے تو الفانوس ایوارڈ(گوجرانوالہ)
بھیل ادبی ایوارڈ (ننکانہ صاحب )
نقیبی ادبی ایوارڈ (فیصل آباد )
کے ایم ایس ایوارڈ(نارووال)
شریف کنجاہی ایوارڈ(کنجاہ،گجرات)
پیر فضل گجراتی ایوارڈ(گجرات)
سوال : تاریخ اور تحقیق یہ مشکل ترین کام ہیں ۔ کچھ مشکلات کا ذکر کریں ۔؟
جواب ۔ واقعی یہ ایک مشکل امر ہے اس کے لئے پاوں گرم اور دماغ ٹھندا رکھنا پڑتا ہے ۔ اس لئے ایک مشکل کام ہے ۔ اس کے لئے مطالعہ ، مشاہدہ ، تجربہ ، سفر اور تحقیقی اصولوں سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے ۔

maqbool zaki

مقبول ذکی مقبول

بھکر، پنجاب، پاکستان

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

احساس دی سویر

بدھ اپریل 6 , 2022
تصور بخاری کے ڈراموں کا یہ خاصہ ھے کہ وہ اصلاح احوال کا فریضہ انجام دینے کے ساتھ تفریع طبح کا باعث بھی ہیں
احساس دی سویر

مزید دلچسپ تحریریں