پیپلزپارٹی اور نون لیگ کا وراثتی موازنہ

پیپلزپارٹی اور نون لیگ کا وراثتی موازنہ

Dubai Naama

پیپلزپارٹی اور نون لیگ کا وراثتی موازنہ

بہاولپور میں پیپلزپارٹی کے جلسہ عام سے گزشتہ روز خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا: “شکار کا موسم ہے اور ہم مل کر اب شیر کا شکار کریں گے۔ بلاول بھٹو نے یہ سیاسی بیان نون لیگی اشرافیہ کے خلاف عوامی طاقت و حمایت کی روشنی میں دیا۔ ہمارے ہاں جو سیاسی اطوار ہیں اور جس طرح عوام کو بڑی سیاسی جماعتیں ہانک کر اپنے پیچھے لگاتی ہیں، یہ تقریری جوش خطابت اسی کے مطابق ہے۔ ویسے تو پیپلزپارٹی ہو یا نون لیگ ہو یہ دونوں وراثتی سیاسی جماعتیں ہیں۔ اگر جمہوری نظام حکومت ہی کو جاری رکھنا ہے اور جب کوئی متبادل قیادت بھی میسر نہیں ہے تو چاروناچار انہی جماعتوں کو سیاسی و انتخابی میدان میں پنچہ آزمائی کرنے کا موقع ملنا چاہیئے۔ پاکستان سے سیاسی و معاشی طور پر انڈیا اور بنگلہ دیش زیادہ مستحکم ہیں مگر وہاں بھی وراثتی سیاست ابھی تک موجود ہے۔ جواہر لعل نہرو 16سال سے زیادہ عرصہ تک انڈیا کے وزیراعظم رہے جو انڈین سیاسی تاریخ میں ایک کا ریکارڈ ہے۔ اس کے بعد ان کی بیٹی اندارا گاندھی 1966 سے 1977 اور 1980 سے 1984 تک دو بار وزیراعظم منتخب ہوئیں اور اس کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی بھی صرف 40سال کی عمر میں 1984 سے 1989 تک وزیراعظم رہے۔ ایک ہی ہفتہ قبل بنگلہ دیش کے بانی اور رہنما شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی اور عوامی لیگ کی سربراہ شیخہ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ نے الیکشن جیتا ہے اور وہ 5ویں مرتبہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم بننے جا رہی ہیں۔ یوں وراثتی سیاست کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور نون کا موازنہ کریں تو نون لیگ مقابلتا زیادہ موروثی سیاسی جماعت ثابت ہوئی ہے جس نے گزشتہ 39سال سے زیادہ کے عرصے سے اقتدار شریف خاندان سے باہر جانے نہیں دیا ہے۔ میاں محمد نواز شریف پہلی بار 1985 اور دوسری بار 1988 میں پنجاب کے وزیراعلی منتخب ہوئے۔ وہ سنہ 1990، 1997 اور 2013 میں تین بار ملک کے وزیراعظم چنے گئے. میاں نواز شریف پاکستان کی تاریخ میں وقفے وقفے سے کل 9سال اور 215دن ملک کے وزیراعظم رہے جو کسی وزیراعظم کا حکومت میں رہنے کا سب سے زیادہ دورانیہ ہے۔ اب 2024 میں وہ چوتھی بار وزیراعظم بننے کی امید پر وطن واپس لوٹے۔ اس سے پہلے سنہ 1981ء میں جنرل ضیاءالحق نے انہیں پنجاب کا وزیر خزانہ بنوایا۔ یوں دیکھا جائے تو نواز شریف یکے بعد دیگرے 39سال کی بجائے گزشتہ 43سال سے حکومت میں رہے ہیں۔ جب میاں محمد نواز شریف مرکز میں گئے تو شریف فیملی ہی کے چشم و چراغ اور نواز شریف صاحب کے برادر خورد و نون لیگ کے موجودہ صدر شہباز شریف تین بار 1985, 2008 اور 2013 میں پنجاب کے وزیراعلی بنے اور وہ بھی پنجاب کے سب سے زیادہ لمبے عرصے 11سال تک پنجاب کے وزیراعلی رہے۔ وہ اپریل 2022 سے اگست 2023 تک وزیراعظم پاکستان بھی رہے۔ اسی طرح نواز شریف کی بیٹی مریم نواز اور ان کے خاوند صفدر اعوان بھی مختلف حکومتی عہدوں پر فائز رہے۔ شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز شریف 2022 میں کچھ وقت کے لیئے وزیر اعلی پنجاب منتخب ہوئے۔ میاں محمد نواز شریف کے سمدھی یعنی اسحاق ڈار جن کے بیٹے کی شادی نواز شریف کی دوسری بیٹی آصمہ نواز سے خودساختہ جلاوطنی کے دوران سعودی عرب جدہ میں ہوئی وہ بھی شریف فیملی کا ممبر گنے جاتے ہیں۔ اسحاق ڈار 1980 میں سیاست میں داخل ہوئے، 2003 میں سینیٹر اور 2012 میں لیڈر آف اپوزیشن بنے۔
نواز شریف کے ادوار میں وہ 3بار وفاقی وزیر خزانہ رہے اور چوتھی بار انہیں لندن سے لا کر 2022 میں اس وقت وزیر خزانہ بنایا گیا جب شہباز شریف نے اسی سال وزارت عظمی کا حلف اٹھایا۔ اسحاق ڈار بھی ریکارڈ عرصہ تک وفاقی وزیر خزانہ رہے۔ انہیں شریف فیملی اور انکے اقتدار میں اتنا اثر و رسوخ رہا کہ انہیں شریف فیملی کا “ڈی فیکٹو وزیراعظم” کہا جاتا تھا۔

شریف خاندان کی موروثی اور بادشاہی طرز کی جمہوریت کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کو پہلے ہی دن سے ایک وفاق کی علامت اور سیاسی و عوامی جماعت سمجھا جاتا ہے۔پیپلزپارٹی میں “پیپلز” کا مطلب عوام ہے اور “پارٹی” کے معنی جماعت کے ہیں یعنی پیپلزپارٹی عام لوگوں (عوام) کی جماعت ہے۔ لھذا پیپلزپارٹی نے اپنے نام کی مناسبت سے شروع دن سے پسے ہوئے مزدوروں اور غریب عوام کے حقوق کے لیئے آواز اٹھائی۔پیپلزپارٹی کی بنیاد لاہور میں فاو’نڈنگ کنونشن کے موقعہ پر سنہ 1967ء میں اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور لیفٹ ونگ کے دیگر نمایاں سیاست دانوں نے رکھی تاکہ فوجی آمر جنرل صدر ایوب خان کے اقتدار کے خلاف جدوجہد کی جا سکے۔ اس جماعت کے بنیادی منشور کا عنوان، “اسلام ہمارا مذہب ہے اور جمہوریت ہماری سیاست ہے”، تھا اور اسی منشور کی روشنی میں یہ عوامی نعرہ متعارف کروایا گیا: “مانگ رہا ہے ہر انسان، روٹی، کپڑا اور مکان”۔ 1970 میں جب پہلے جمہوری انتخابات ہوئے تو پیپلزپارٹی کے اس نظریاتی منشور اور پارٹی کو پہلی عوامی و سیاسی جماعت ہونے کی وجہ سے عام انتخابات میں غیر معمولی کامیابی ملی اور زولفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے سول ایڈمنسٹریٹر بنے اور پھر 1971 سے 1973 تک صدر پاکستان اور 1973 سے 1977 تک پہلے جمہوری وزیراعظم رہے۔ تاآنکہ جنرل ضیاءالحق نے 5جولائی 1977 کو ان کی حکومت کا تختہ الٹا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ بھٹو کی حکومت میں خود بھٹو کے علاوہ ان کے خاندان کا کوئی رکن کسی سرکاری عہدہ پر نہیں لگایا گیا۔ بھٹو صاحب آمر جنرل ایوب خان کی کابینہ کے وزیر ضرور رہے مگر انہوں نے فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد کر کے ملک میں جمہوریت کو رائج کیا۔ جبکہ نواز شریف آمر فوجی حکمران ضیاءالحق کی جھولی میں بیٹھ کر اقتدار میں داخل ہوئے جب ضیاءالحق نے انہیں پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا۔ پیپلزپارٹی کے برعکس نون لیگ کا قیام 1990 میں کسی باقاعدہ عوامی منشور کے تحت عمل میں نہیں آیا بلکہ جب 1990 میں اسلامی جمہوری اتحاد نے نواز شریف کی قیادت میں الیکشن میں کامیابی حاصل کی تو اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں سے اختلافات کے بعد 1993 کے انتخابات سے قبل (اور پیپلزپارٹی کے قیام کے 26سال بعد) نواز شریف نے اپنے نام پر پاکستان مسلم لیگ نون کی بنیاد رکھی جس میں “نون” نواز شریف کا مخفف ہے۔ یہاں تک کہ بعد میں پاکستان مسلم لیگ (ن) محض نون لیگ کہلانے لگی جو آج تک ن لیگ ہی ہے جس کے شروع دن سے عہدوں کی خاندانی تقسیم کچھ یوں ہے کہ نواز شریف تاحیات قائد اور شہباز شریف تاحیات صدر ہیں جبکہ باقی عہدے نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کے ہاتھوں میں ہیں۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی عوام کے لیئے دی جانے والی سیاسی جدوجہد اور جانی قربانیوں کو دیکھا جائے تو نون لیگ نے پیپلزپارٹی کے مقابلے میں برائے نام اتنا کچھ ہی قربان کیا جس کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو نے قید و بند کی بارہا صعوبتیں برداشت کیں، پولیس کے ڈنڈے کھائے، لہو لہان ہوئیں اور سر کی ہڈی تک تڑوائی مگر جمہوریت اور عوام کی خاطر ہمت نہیں ہاری۔ بھٹو خاندان میں بھٹو کے ایک بیٹے شاہ نواز بھٹو کو 18جولائی 1985 کو فرانس کے ایک فلیٹ میں زہر دے کر قتل کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو دو دفعہ 1988 سے 1990 اور 1993 سے 1996 تک وزیراعظم پاکستان رہیں جو اسلامی دنیا کی پہلی منتخب جمہوری وزیراعظم تھیں۔ ان کے دوسرے دور حکومت میں کراچی میں ان کے بھائی مرتضی بھٹو کو 20ستمبر 1996 کو پولیس نے گولیاں مار کر ہلاک کیا، بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ کے راولپنڈی کے جلسے کے بعد سر میں گولیاں مار کر اور خودکش حملہ کر کے 27دسمبر 2007 کو قتل کیا گیا۔ ان کے والد اور عوامی قائد و پاکستان کے پہلے جمہوری وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا 4اپریل 1979 کو پھانسی دے کر عدالتی قتل کیا گیا۔ جبکہ میاں محمد نواز شریف ملک کے تین بار وزیراعظم بنے اور جب وہ عہدے سے ہٹانے گئے تو وہ تینوں بار معاہدہ کر کے، خود ساختہ جلاوطنی کے روپ میں اور ملک و عوام کو اکیلا چھوڑ کر سعودی عرب اور لندن جاتے رہے۔

آج جب بلاول بھٹو اشرافیہ نون کے شیر کا تیر کے ساتھ شکار کرنے کا کہتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ: “ہمارے مخالفین اشرافیہ کے ساتھ ہیں جبکہ پیپلزپارٹی عوام کی نمائندگی کرتی ہے”، تو وہ پیپلزپارٹی کی سیاسی تاریخ کے پس منظر میں کسی حد تک ٹھیک کہتے ہیں۔ انہوں نے اس جلسے میں کہا: “عوام 8فروری کو تیر پر ٹھپا لگا کر بتا دیں کہ بھٹو آج بھی زندہ ہے”۔ یہ بات سچ ہے کہ شخصیات مر جاتی ہیں مگر نظریات ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ جمہوریت کے لیئے بھٹو خاندان کی جدوجہد اور لازوال قربانیوں کی کہانی ایک سیاسی نظریئے کا نام ہے۔ بھٹو کے پوتے بلاول بھٹو کا سیاسی کردار بے داغ ہے۔ نون لیگ کی تمام قیادت پر سیاسی بددیانتی کے الزامات رہے ہیں بلکہ وہ “مجرم” ٹھہرائے جاتے رہے ہیں، اس وجہ سے سزا کی مد میں وہ جیلوں میں بھی رہے ہیں۔ گو کہ بلاول بھٹو کے والد آصف علی زرداری پر بھی کرپشن کے الزامات لگے اور وہ بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ 11سال تک جیل میں رہے۔ لیکن بھٹو پر کرپشن وغیرہ کا کوئی ایک بھی الزام ہے اور نہ ہی وہ کبھی جیل گئے ہیں۔ ماسوائے اس کے کہ جب بے نظیر بھٹو جیل میں تھیں تو بلاول بھٹو ان کے پیٹ میں تھے۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد وہ غریبوں کے لیئے 300یونٹ تک بجلی بالکل مفت کر دیں گے، ملک بھر میں مفت اور معیاری تعلیمی ادارے اور آئی ٹی یونیورسٹی قائم کریں گے”۔

پیپلزپارٹی کا یہ بنیادی بیانیہ پہلے دن سے عوامی ہے۔ “بے نطیر بھٹو وفاق کی زنجیر” کے خطاب سے منسوب کی جاتی تھیں۔ پیپلزپارٹی واحد ملک گیر سیاسی جماعت ہے جو پاکستان میں ہونے والے سنہ 1970ء کے بعد عوام کے دل میں گھر کر چکی ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا اور والدہ کا ادھورا مشن مکمل کرنے کے لیئے، 2024 کے الیکشن میں آج بھی اسے ساتھ لے کر چل رہے ہیں (انتساب: بشکریہ میاں منیر ہنس)۔

Title Image by Gerd Altmann from Pixabay

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

دھن بھاگ محبت سے

پیر جنوری 15 , 2024
کہتے ہیں ایک پہاڑی گاؤں میں تین عمر رسیدہ افراد ایک گھر کے باہر بیٹھے تھے۔ ان کے لباس صاف ستھرے تھے ،
دھن بھاگ محبت سے

مزید دلچسپ تحریریں