بہرائچ اردو ادب میں-3

سرزمین بہرائچ جسے ابدی آرام گاہ حضرت سید سالار مسعود غازیؒ ہونے کا شرف حاصل ہے ،ارباب علم و ادب سے نہ کبھی خالی رہی ہے ۔اسی خاک نے ہندی اور اردو کے کے ایسے ایسے کوی اور شاعر جنم دئیے جنہوں نے دونوں زبانوں کے ادب میں اپنا اپنا ایک خاص مرتبہ حاصل کیا ۔اسی شہر میں ایسی ایسی ہستیاں موجود ہیں(تھیں) جو بے چون چرا ملک کے صفِ اول کے شعراء میں امتیاز انہ خصوصیت کے مالک ہیں (تھے)جن میں سے حضرت استاد جمالؔ صاحب ؒ کی ذات گرامی ایسی فیض مال شخصیت ہے(تھے)جس پر ارباب فن جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔اور یہ میری اکیلی آواز نہیں ۔ملاحظہ ہو ایک طرحی مشاعرہ میں حضرت اظہارؔ وارثی صاحب (مرحوم)فرماتے ہیں؎           

ایک بابا جمال کے دم سے

جانے کتنوں کو شاعری آئی

                                                                        (خیابان جمالؔ از رزمی ؔ جمالی)

            بابا جمال ؔ کا پورا نام جمال الدین احمد تھا۔آپ کی ولادت ۱۹۰۱ءمیں شہر بہرائچ کے محلہ بشیر گنج میں ہوئی تھی۔بابا جمالؔ اپنے دور کے بہت مشہور خوش مزاج شاعر تھے۔آپ نے عربی  فارسی کی تعلیم حکیم سید ولایت حسین وصلؔ نانوتوی تلمذ میر نفیسؔ ابن میرانیسؔ سے حاصل کی جو اپنے عہد کے عربی اور فارسی کے قادر الکلام شاعر تھے۔جمالؔ بہرائچی صاحب پورے شہر بہرائچی میں بابا جمالؔ کے نام سے مشہور و معروف تھے۔آج بھی لوگ آپ کو باباجمال کے نام سے ہییاد کرتے ہیں ۔آپ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے عالم بھی تھے۔ آپ لوگوں کو نصیحت خوب کرتے تھے۔

عبرتؔ بہرائچی صاحب لکھتے ہیں :۔                                                                                                                   ”بابا جمال ؔ کی دوستی مولانا محفوظ الرحمن نامیؒ (بانی جامعہ مسعودیہ نور العلوم ،آزاد انٹر کالج،سابق کورٹ ممبر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بہت زیادہ تھی۔حدائق البلاغت ان کے بغل میں دبی رہتی تھی۔زدگو ہونے کے ساتھ ساتھ قادر الکلام شاعر تھے۔آپ تکیہ کلام’’ بھیّا‘‘ تھا۔ آپ کی شہر کے قلب گھنٹہ گھر کے پاس کتابوں کی دکان(جمال بک ڈیپو) تھی ۔آپ کے اوپر ایک کہاوت ’’پڑھو فارسی بیچو تیل ‘‘ بالکل فٹ تھی۔آپ فارسی کے ماہر استاد تھے۔آپ نے ایک تیل بھی ایجاد کیا تھا جس کا نام جمال ہیئر آ ئیل تھا۔جو اپنے وقت میں خوب بکتاتھا۔ آمدنی کم اور خرچ زیادہ ہونے کی وجہ سے دکان کا دیوالہ نکل گیا ۔آپ کے بچے آپ کے کہنے میں نہیں تھے۔نتیجہیہ ہوا کہ دکان کاکرایا ادانہ کرنے کی وجہ سے مالک دکان نے عدالت کے ذریعہ دکان سے بے دخل کرادیا جس کی وجہ سے بیحد پریشان رہتے تھے۔میں نے بیکل اتساہی ؔ کو خط لکھا اور  انہوں نے دوڑ دھوپ کر بابا جمالؔ کا ساٹھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کرادیا جو انہیں ہر ماہ ملتاتھا۔“( نقوشِ رفتگاں ص ۱۷)

نعمت ؔ بہرائچی اپنے استاد بابا جمالؔ صاحب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :                                                                           ” بابا جمالؔ صاحب نے اردو زبان کی بڑی خدمتیں کی ہیں ۔محلّے محلّے اردو کے مدرسے قائم کئے تاکہ بڑھتی ہوئی نسل اردو سے آگاہ ہو سکے۔آپ ہر روز علی الصباح گھنٹہ گھر پارک جا کر بیٹھتے تھے،جہاں ان کے تلامذہ اصلاح لینے کیلئے  جمع ہوتے تھے اور جمالؔبابا سب شاگروں کو بیش بہا مشوروں سے نوازتے تھے۔آپ علم و عروض سے آگاہ اور فن شعر گوئی سے بخوبی واقف تھے۔جس کے باعث آپ شعراء کی جھرمٹ میں رہا کرتے تھے۔(تذکرۂ شعرائے ضلع بہرائچ  ۱۹۹۴ء  ص ۳۶)                         شوقؔ بہرائچی،شہرتؔ بہرائچی،وصفیؔ بہرائچی،منشی محمدیارخاں رافتؔ بہرائچی،حاجی شفیع اللہ شفیعؔ بہرائچی ،ڈاکٹر نعیم اللہ خاں خیالیؔ،بابو لاڈلی پرساد حیرتؔ بہرائچی،خواجہ رئیس وغیرہ وغیرہ ان کے ہم عصر تھے۔                                                       بابا جمالؔ علوم ادبیہ پرماہرانہ قدرت رکھتے تھے۔عروض وبیان سے مل کر شعر کہتے تھے۔آپکے یہاں لفظوں کے ذخیرے تھے۔آپ کے یہاں قحط لفظی نہیں تھا۔اصول شعر پر دسترس رکھنے کہ وجہ سے کلام ہرزہسرائی سے پاک رہتا تھا۔بابا کے یہاں تجربات اور مشاہدات کا بھی فقدان نہیں ان کے یہاں قدامت پرستی پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور جدیدیت سے گریز ۔بابا صاحب اپنے ہر شعر کوکئی مرتبہ عروض وبیان کی کسوٹی پر کستے تھے۔

عبرت ؔ صاحب ادبی اسکول کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔                                                                                        شام کے وقت بازار میں دو اسکول لگتے تھے، ایک اسکول گھنٹہ گھر میں اشوک کے پیڑ کے نیچے بابا جمال لگاتے تھے جس میں ان کے شاگرد شریک ہوتے تھے،دوسرا اسکول حاجی شفیع اللہ شفیعؔ بہرائچی(راقم کے پرنانا) کی دوکان پر لگتا تھا، جس میں اہل بصیرت اور ارباب سخن حصہ لیتےتھے اور علوم شعریہ پر بحث وتکرار ہوتی تھی ۔(جذباتِ شفیع ؔ ازحاجی شفیع اللہ شفیع ؔ بہرائچی صفحہ ۱۱ مطبوعہ ۲۰۱۹ء)                                                                                                                                   آپ’’ بزم جمال ادب بہرائچ‘ ‘ کے سرپرست تھے۔بزم جمال ادب بہرائچ سے کئیکتابچے نکلے جن میں سے نعتوں کا مجموعہ ’’گلہائے عقیدت‘‘ مرتب دیبی دیال سریواستو دیالؔ بہرائچی مطبوعہ اکلیل پریس۱۹۷۳ءاور’’ خیابان جمال‘‘ راقم کے پاس محفوظ ہیں۔خاکسارراقم الحروف نے بابا مرحوم کا مجموعہ کلام ’’صدائے وطن ‘‘ کو از سر نو مرتب کیا ہے جس کے مرتب آپ کے صاحبزادے نجم الدین احمد نجمیؔ جمالی مرحوم تھے  ،لیکن بد قسمتی سے وہ شائع نہ ہو سکا تھا۔ جوتقریباً۰۰ ۲ صفحات پر مشتمل ہے،اس کو شائع کرنے کا ارادہ ہے۔

ہندوستان کا سب سے اعلیٰ ادبی ایوارڈ ’’ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ‘‘ہے۔اسی ساہتیہ اکادمی ایوارڈیافتہ ضلع کے مشہور شاعر و ادیب عنبرؔ بہرائچی صاحب اپنی کتاب’’ روپ انوپ‘‘ میں لکھتے ہیں کہہ میراتخلص عنبر ؔ میرے استاد بابا جمالؔ بہرائچی صاحب نے رکھا تھا۔اس کے علاوہ مشہور شاعر  شاعرؔ جمالی مرحوم نے تو آپ کے نام جمال کو ہی اپنے نام کا جز بنا کر عالمی سطح پر جمالیؔ نام کو شہرت دلائی۔

ساہتیہ اکادمی ایوارڈ – تصویر: ستدیپ گل

باباجمالؔ کا انتقال ۱۹۸۲ء میں ہوا ۔آپ کی تدفین چھڑے شاہ تکیہ نزد آزاد انٹر کالج بہرائچ  میں ہوئی۔

بابا جمالؔ اور ان کے شاگرد:

بابا جمالؔ کا شاعری کا اسکول بہرائچ کی ادبی تاریخ میں اپنا  منفرد اور الگ مقام رکھتا تھا۔جمال ؔ بابا کے شاعری  کے اسکول نے اردو ادب کو  عظیم ترین شاعروں سے متعارف کرایا  جو ادب کی دنیا میں  آج بھی اپنے استاد کا نام زندہ رکھے ہیں۔بابا جمال کے شاگرد رشید اور ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ محمد ادریس عنبرؔ بہرائچی  اور اپنے لازوال شعروں کے خالق شاعرؔ جمالی مرحوم ،اودھی اور اردو ادب کے نامور شاعر پارس ناتھ بھرمرؔ ،رزمیؔ بہرائچی،نعمتؔ بہرائچی  قابل  ذکر ہیں۔جمال ؔ بابا کے شاگردوں کی صحیح تعداد معلوم نہ ہو سکی لیکن کچھ شاگردوں کے نام معلوم ہوئے جنہیںیہاں پر لکھا جاتا ہے جو ذیل میں ہیں کچھ انکے انتقال کے بعد گمنامی میں کھو گئے اور کچھ اپنے نام کو سنہرے لفظوں میں لکھا رہے ہیں:۔

(۱)رزمیؔبہرائچی(۲)نعمتؔبہرائچی(۳)پارس ناتھ بھرمرؔبہرائچی(۴)محمدادریسعنبرؔ بہرائچی(۵)شاعرؔجمالی(۶)کمال الدین احمد کمالؔجمالی اورنجم الدین احمد نجمیؔ جمالی بہرائچی(فرزندان بابا جمالؔ)(۷)جمال الدین جمالؔ ثانی(۸)عبدالقدوس فاروقی جوہرؔ جمالی بہرائچی(۹)جمیل احمد اخترؔ جمالی(۱۰)شوکت علی بشرؔ جمالی(۱۱)جمالؔ ثالث(۱۲)محمد حنیف خاںحنیفؔ جمالی(۱۳)اطہر اللہ خاںاطہرؔ جمالی(اطہرؔ رحمانی) (۱۴)عبد الخالق آہؔ جمالی(۱۵)محمد صابر خاں صابرؔ جمالی(۱۶)ممتاز علی وحشیؔجمالی(۱۷)ابو الحسن خاں سھلؔ جمالی(۱۸) شفیق احمد آفتاب بہرائچی(۱۹)دوست محمد کیفؔ بہرائچی ۔

کلامِ جمالؔ

دامن طلب کیوں نہ بھریں آگے نکل کے
جو پھول اُٹھا سکتے ہوں انگاروں پہ چل کے

اٹھ دیکھ ذرا بحر محبت کے ثناور
طوفانِ حوادث کے ابھی جھوںکے ہیں ہلکے

دیکھو دل عشاق ملتے تو ہو لیکن
رہ جائے کسی دن نہ کہیں پاؤں پھیل کے

ہم نے ہی بتایا ہو جنہیں راستہ چلنا
کیا آئیں گے وہ سامنے انداز بدل کے

دل جیسے بھی مٹ جائے ہے بننے کی نشانی
گھر گر کے نیا بنتا ہے نا بنتا ہے جل کے

اک حشر بپا ہوگا ستم گاروں سے کہدو
ساتھی نہ جمالؔ اپنا ملا راہِ وفا میں

ہم دیکھ چکے ساتھ زمانے کے بھی چل کے

***

رونق ویرانہ نہیں
خاکم بدہن آج جو دیوانہ نہیں ہے

ویرانہ ہے ، وہ رونق ویرانہ نہیں ہے

حاصل مجاز آپ کو ملیئے کہ نہ ملیئے

از روئے حقیقت کوئی بیگانہ نہیں ہے

ہر قید سے حاصل ہے تصور کو بحالی

پابند کہیں رہ کے بھی دیوانہ نہیں ہے

اے شمع لگن آنچ سے اپنوں کی خبرداری

طوفاں ہے یہ آگ کا پروانہ نہیں ہے

زنداں میں تو کچھ اور خیالات بڑھے ہیں

دیوانہیہاں آئے وہ ، دیوانہ نہیں ہے

تم اور جمالؔ اور یہ تفریق سے بیجا

جاناں سے جدا جلوئہ جانانہ نہیں ہے

***

رباعی
بے میل عناصر سے خلقت اپنی

ضدّین کا ملنا ہے حقیقت اپنی

تفریق جو ہو اپنے پرائے کی جمالؔ

ہستی نظر آئے نہ سلامت اپنی

قطعہ
کہاں عدالت عالی میں قال و قیل نہیں
سیاسیات تمول کہاں دخیل نہیں

مشیر کار امارت کے ہیں ہزار جمالؔ

غریب قوم کا لیکن کوئی وکیل نہیں

Juned

جنید احمد نور

بہرائچ

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

شعورو ادراک حیدر قریشی نمبر

جمعہ مئی 21 , 2021
آج کل عام تاثر یہی ہے کہ رسالے کی اشاعت گھاٹے کا سودا ہے۔لیکن یہ رائے قائم کرنے والوں کو عشق کی وہ کہکشاں دکھائی نہیں دیتی جو رسالہ چھاپنے والا دیکھ رہا ہوتا ہے
shaoor o idraak haidar qureshi number

مزید دلچسپ تحریریں